حضرتِ سیّدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے زمانے میں لوگ سمجھتے تھے کہ جِنّات غیب جانتے ہیں۔ حضرت سیّدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام نے جنات کو بیت المقدس کی تعمیر میں لگایا اور بارگاہِ الٰہی میں دعا کی کہ میری وَفات کا حال جِنّات پر ظاہر نہ ہوتا کہ انسانوں کو معلوم ہو جائے کہ جنات غیب نہیں جانتے،پھرآپعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام مِحراب میں مسجد میں داخل ہوئے اور حسبِ عادت اپنے عصا پر ٹیک لگا کر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔اسی دوران آپ کا وِصال ہو گیا، جِنّات اپنے کام میں مشغول رہے اور سمجھتے رہے کہ حضرتِ سیّدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام حیات ہیں یہاں تک کہ آپ کے وصال کو پورا ایک سال گزر گیا۔اس کے بعد اللہ پاک کے حکم سے دِیمک نے عصا کو کھا لیا اور حضرتِ سیّدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا جسمِ مبارک زمین پر تشریف لے آیا۔ اُس وقت جِنّات کو آپ کی وفات کا علم ہوا۔ (خازن،ج3ص519،سبا،تحت الآیۃ:14 ملخصاً)قراٰنِ پاک میں ہے:( فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖۤ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗۚ-فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِؕ(۱۴))ترجمۂ کنزالایمان: پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا جنوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی پھر جب سلیمان زمین پر آیا جنوں کی حقیقت کھل گئی اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے۔ (پ22،سبا:14)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس قراٰنی واقِعہ سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام علیہمُ السَّلام کے مُقَدّس بدن وفات کے بعد صحیح و سلامت رہتے ہیں جیسا کہ حضرتِ سیّدنا سلیمان علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام وفات کے بعد ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑے رہے اور آپ کے جسمِ مبارک میں کسی قسم کا کوئی تَغَیُّر رُونُما نہیں ہوا۔ یہی حال تمام انبیاء علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا ہے کہ ان کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُرْزَقُ یعنی بے شک اللہ پاک نے زمین پر حرام فرما دیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے، اللہ پاک کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔(ابن ماجہ،ج2ص291، حدیث:1637)
انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام زندہ ہیں حدیثِ پاک میں ہے: اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَاءٌ فِی قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ انبیائے کرام زندہ ہیں اپنی قبروں میں نمازیں پڑھتے ہیں۔(مسند ابی یعلی،ج3ص216، حدیث:3412) ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے:تمام انبیائے کرام علیہم الصَّلٰوۃ والسَّلام کے لیے (وفات ) صرف آنی ہے ایک آن (پَل)کو موت طاری ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ قَطْعِیّہ ،یَقِیْنِیّہ، ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت سے ہے ،اس کا مُنکِر نہ ہوگا مگر بدمذہب گمراہ۔
( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص504)
اس میں کسی کا اختلاف نہیں امام محمد بن عبدالرحمٰن سَخاوی علیہ رحمۃ اللہ الکا فی اور امام احمد بن محمد بن حَجَر مکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: ہم ایمان رکھتے اور تصدیق کرتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی قبر میں زندہ ہیں،رزق دئیے جاتے ہیں ،آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسم شریف کو زمین نہیں کھاتی، اس بات پر اِجماع ہے۔(القول البدیع، ص 335۔الدرالمنضود ،ص158) شیخِ محقق علامہ عبدُالحق مُحدِّث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: علُمائے امت میں اختلافات اور مذاہب کی کثرت کے باوجود اس مسئلہ میں ایک شخص کا بھی اختلاف نہیں کہ نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بغیر شا ئِبۂ مَجاز اور بلا کسی تَوَہُّمِ تاویل حقیقی زندگی کے ساتھ دائِم و باقی ہیں۔ امت کے احوال پر حاضر ناظر ہیں،اور آپ کی طرف توجہ کرنے والوں کو فیض بخشنے والے اور تربیت دینے والے ہیں۔(سلوک اقرب السبل مع اخبار الاخیار،ص 155) صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں: جو شخص انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلام کی شان میں یہ خبیث کلِمہ کہے کہ مَرکر مٹّی میں مل گئے،گمراہ ، بددین،خبیث، مُرتکبِ توہین ہے۔ (بہارِ شریعت،ج1ص115)
ان کے جسم بھی سلامت رہتے ہیں اولیائے کرام اور وہ جسم جس نے کبھی اللہتعالیٰ کی مَعْصِیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مُسْتَغْرَق رکھتے ہیں ، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھاسکتی۔(بہارِ شریعت،ج1ص114ملخصاً)نِیز ثواب کی خاطر اذان دینے والے مُؤَذِّن، علمائے عامِلین، تلاوت کرنے والے حافظانِ قراٰن کہ قراٰنِ مجید پر عمل کریں اور شہید۔ (تحفۃ المرید، ص410) غزوۂ اُحد کے دو شُہَدا حضرت سیِّدُنا عَمْرو بن جَمُوْح اَنصاری اور حضرت سیِّدُنا عبْدُاللہ بن عَمْرو انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی قبر سیلاب کی وجہ سے کھل گئی تھی۔ جب انہیں دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے قبر کو کھودا گیاتو ان دونوں کے جسم ایسے تھے گویا کل ہی وفات ہوئی ہے، ان میں سے ایک نے اپناہاتھ زخم پر رکھا ہوا تھا، جب ہاتھ کوزخم سے ہٹا کر چھوڑا گیاتووہ دوبارہ زخم پرآگیا۔ اس وقت غزوۂ احد کو46سال گزر چکے تھے۔ (موطاامام مالک،ج2ص27، حدیث:1044 ملخصاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
Comments