آخر درست کیا ہےاور سیدھا راستہ کون سا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہمیشہ سے انسانی ذہنوں میں اٹھتا رہا ہےاور اس کے جواب ہی پر انسانی زندگی کے طرزِ عمل کی بنیاد ہے۔ آسمانی مذاہب یہی سیدھا راستہ دکھانے کےلئے اُترے اور انبیاء علیھم السلام نے پوری شرح و بَسْط سے اسی سوال کا جواب دیا۔ آج بھی اس سوال کی اہمیت کم نہیں ہے، خصوصاً اِن حالات میں جبکہ غیر مسلم،دین سے بیزار، لادین، دہریت پسنداور اسلام کا تمسخر اڑانے والے سب لوگ خود کوراہ ِ راست پر سمجھتے ہیں اور یہی دعویٰ مسلمانوں کا بھی ہے۔ اس مضمون میں اجمالی اور تمہیدی طور پراس کا جواب دیا جائے گا اور آئندہ مضمون میں ان شاء اللہ دین ِ حق کی خصوصیات بیان کی جائیں گی۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام وہ دین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی حقیقی ہدایت و فلاح کے لیے متعین کردیا ہے، ارشاد خداوندی ہے:( اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ۫-) ترجمہ: بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ (پ3، اٰل عمرٰن:19)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ہمارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے پہلے تمام انبیاء و مرسلین عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کادین اسلام ہی تھا اوراب اُس کی آخری کامل تصویر اور قطعی تعبیر وہ دین ہے جو محمد مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کے لیے یہ دین مکمل کر دیاہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:( اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-)ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام بطورِ دین پسند کیا۔ (پ6، المائدہ:3) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اب آخرت کی نجات اسلام، بطورِ دین اپنانے اور محمدمصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت و رسالت پرصحیح ایمان لانے پر موقوف ہے، جیسا کہ فرمایا:( وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)) ترجمہ: اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اوردین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ (پ3، اٰل عمرا ن:85)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے، اس امت میں کوئی بھی شخص جو میری نبوت (کی خبر) سنے، خواہ وہ یہودی ہویا عیسائی، پھروہ اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مر جائے جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے تو وہ جہنمی ہو گا۔‘‘ (مسلم، ص82، حدیث:386) ہدایت و فلاح کی حقیقی راہ صرف ’’اِسلام‘‘ ہے، اس کے علاوہ دیگر تمام راستے حق و حقانیت سے دور ہیں۔
دین کی ضرورت انسانی تخلیق کے اصل مقصد سے وابستہ ہے۔ تخلیق انسانی کامقصد کیا ہے؟ یہ بڑا بنیادی سوال ہے جس پر عموماً فلسفے کی کتابوں میں بحث کی جاتی ہے،یہاں اس کے جواب سے پہلے عمومی حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس فانی دنیا کی عیش و عشرت سے لطف اندوز ہوناہی مقصدِ حیات سمجھ رکھا ہے، وہ دین، ایمان، خدااور مذہب کوئی بات تسلیم نہیں کرتے۔ اُن کی نظر میں زندگی کی حقیقت یہی ساٹھ سترسال کا عرصہ کھانے، پینے، عیش و مستی میں گزار دینا ہےحالانکہ یہ صرف جسمانی تقاضے ہیں جوجانوروں میں بھی موجود ہیں بلکہ بعض اوقات انسانوں سے بڑھ کر پائے جاتے ہیں۔ اسے مقصد قرار دینے کی صورت میں توجانور، انسانوں سے بڑھ کر مقصد ِ زندگی پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ اس نظریۂ ِ حیات میں انسان کا اخلاقی اور روحانی وجود بالکل فراموش ہے، نیز زندگی کے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا کا کوئی تصور نہیں۔ یہ تصورِ حیات انسانیت کی تحقیراور جانوروں کا انسانوں سے بہتر ہونا ظاہر کرتا ہے۔
جسمانی لذات و خواہشات پر اکتفا کرنے والی اس طرز ِ حیات کا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی اپنی تخلیق کے مقصد کی طرف توجہ کرنا گوارا ہی نہیں کرتا تو زندگی آہستہ آہستہ حیوانیت کی سمت بڑھنا شروع ہوجاتی ہےاورخواہشات کی تکمیل کے طریقے سوچنا، منصوبے بنانا اورانہیں اپنانا ہی حاصل ِ زندگی بن جاتاہے۔ یہ بہت کم ترمقصد ِ حیات ہے جو عظمت و شرف ِ انسانی کے منافی ہے۔ اس میں انسانی وجود اور صلاحیتوں کے صحیح استعمال کی کوئی حقیقی ترغیب موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے نظام ِ زندگی میں اگر قانون کا ڈنڈایاہمہ جہت اخلاقی تربیت ہوگی تو لوگ امن و سکون سے رہیں گے ورنہ جہاں قانون کمزور اور نظام ِ تربیت مفقود ہوا، وہاں شر کو خیر پر غلبہ پانے اور انسان میں موجود حیوانیت و بہیمیت ظاہر ہونے میں کچھ دیر نہیں لگے گی۔ اس لئےصرف قانون اور اخلاقی تربیت کے ستونوں پر پوری انسانی زندگی کی بنیادرکھنا درست نہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاں قانون موجود نہیں وہاں برائی سے رُکنا نہیں پایا جائے اور جہاں تک اخلاقی تربیت کا تعلق ہے تو اُس کی حقیقت ایک خاص انداز پر ذہنی سوچ ڈھال دینا ہے لہٰذا یہ امر بآسانی ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے ذاتی و مادی مفادات کی خاطر اخلاقی قوانین کا اِنکار کردے۔ ایسی صورت میں کوئی اُس کا کیا بگاڑ سکتا ہےاور کون اسے اخلاق کی پیروی پر مجبور کرسکتا ہے؟ دوسری طرف اسلامی نظریہ حیات ہے جو خدا کا وجود تسلیم کرنے اور آخرت میں اعمال کا صلہ پانے پر مبنی ہے، جس میں دنیا کی فانی زندگی، آخرت کی دائمی زندگی کےلئے کھیتی کی مثل قرار دی گئی ہے کہ جو دنیامیں بوئے گا وہی آخرت میں کاٹے گا۔ دونوں نظریہ ِ حیات کا فرق اِس مثال سے یوں سمجھیں کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ اولاد کو ماں باپ کی خدمت کرنی چاہیے۔ یہ اخلاق دو طرح عمل میں آسکتا ہے، ایک تو اسلامی انداز میں کہ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرض ہے لہٰذا اسے پورا کرنا ضروری ہے ورنہ خدا کی بارگاہ میں جواب دینا ہوگا۔ یہ اسلامی سوچ جب تک زندہ ہے تب تک خدمت ِ والدین کےلئے لازمی مُحَرِّک ہو گی اورمسلمان جب تک مسلمان ہے وہ بارگاہِ الٰہی میں اِس کی جواب دہی کا انکار نہیں کرسکتا، اِس کے برعکس ماں باپ کی خدمت صرف اخلاق پر چھوڑ دیں تو لادین معاشرے کے لوگ اپنی لادینیت پر رہتے ہوئے جو کچھ اِس وقت کررہے ہیں، وہ یہ ہے کہ بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ہوم میں داخل کرا کے اور ماہانہ یا سالانہ ملاقات کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں اور بزبانِ حال یہ کہتے ہیں: ’’ہم اپناآرام و سکون اور موج مستی اِن بوڑھوں کی کھانسی اور چڑچڑے پن کی نظر نہیں کرسکتے ۔‘‘ ’’انہوں نے اگرچہ ہمیں پالا ہے، لیکن ہم ان کے پالنے سے معذرت خواہ ہیں۔‘‘ ’’انہوں نے ہماری خاطر راتیں جاگی ہیں، لیکن ہم ان پر اپنی راتوں کے مزے قربان نہیں کرسکتے۔‘‘ ’’انہوں نے کما کرہمیں ضرور کھلایا ہے، لیکن ہمارا پیسہ بیوی، محبوبہ، گرل فرینڈز اور بچوں ہی پر خرچ ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ ہے انکارِ خدا اور خالص مادیت پر مبنی وہ اخلاقی طاقت و تربیت جو ایک لمحے میں ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوجاتی ہے اور یہ ہے وہ طرزِ زندگی جس کا تربیت یافتہ، مہذب، قانون کا پابندکہلانے والے پورے مغربی معاشرے میں مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ ماں باپ کی خدمت میں یہ فرق کہاں سے آتا ہے؟ یہ درحقیقت مسلمان اور غیر مسلم کے نظریہ حیات سے پیدا ہوتا ہے کہ قانون و تربیت کا وجود نہ بھی ہو، تب بھی خدا و آخرت پر سچا ایمان ہی اسے باوقار، بااخلاق، باکردار زندگی گزارنے اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے پر مجبور کردیتا ہے جبکہ دوسری طرف قانون و تربیت جہاں غائب ہوئے وہاں اخلاق و کردار سب ختم ہوجاتے ہیں۔ (دوسری قسط اگلے ماہنامے میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، باب المدینہ کراچی
Comments