جانوروں کی سبق آموز کہانیاں
جنگلی پڑوسی ( دوسری اور آخری قسط)
* مولانا ابو معاویہ عطاری مدنی
ماہنامہ مئی 2021ء
کچھ دیر بعد دونوں سفید کتے اپنے پڑوسی زیبرے کے گھر پر تھے ، ان دونوں کے اُترے ہوئے چہرے دیکھ کر بڑے زیبرے نے پوچھا : بھائیو! خیریت تو ہے آپ دونوں پریشان نظر آرہے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ کسی سے ڈرے ہوئے ہو؟
ہاں بھائی! آپ نے دُرست اندازہ لگایا ہے ، یہ کہتے ہوئے بڑے کتے نے چھوٹے چیتے والی ساری کہانی سنا دی۔
او ہو! بالکل غلط کیا انہوں نے ، بڑے زیبرے نے افسوس کا اظہار کیا۔
لیکن! اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں ، یہ تو تمہارا اور چیتوں کا مسئلہ ہے ، چھوٹے زیبرے نے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔
چُپ کرو تم! بڑے نے ڈانٹتے ہوئے روکا ، پھر سمجھاتے ہوئے کہنے لگا : یہ بات بالکل بھی ہمیں زیب نہیں دیتی ، یہ دونوں سفید کتے ہمارے پڑوسی ہیں ، ہماری ذمّہ داری بنتی ہے کہ مشکل وقت میں ان کی مدد کریں اور انہیں اکیلا نہ چھوڑیں۔ ورنہ آج ان کی باری ہے تو کل ہماری باری ہوگی۔
سوری بھیّا! غلطی ہوگئی ، مگر! ہم کر بھی کیا سکتے ہیں؟ غلطی کو ماننے کے بعد چھوٹے نے پریشانی بتاتے ہوئے کہا۔
چھوٹے کتے نے دُکھ بھرے انداز میں کہا : ہم تو ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، وہ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں۔
تسلی دیتے ہوئے بڑے زیبرے نے کہا : پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، وہ اگرچہ طاقتور ہیں لیکن تعداد میں ہم سے کم ہیں ، اور مقابلے میں طاقت نہیں جذبے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہاں! پہلے ہم ان سے بات کریں گے اور سمجھانے کی کوشش کریں گے ، اگر وہ نہیں مانے تو پھر جو ضروری ہوگا وہ کریں گے۔
بڑے کتے نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی ، پریشانی کے وقت آپ نے ہمارا ساتھ دیا۔
********************
شام کا وقت ہوا تھا ، چیتوں کے گھر دستک ہوئی تو چھوٹا چیتا اٹھ کر دروازے پر گیا۔
تم سب یہاں! کیا کام ہے جو اِدھر جمع ہوئے ہو؟
بڑے کتےنے غصے سے کہا : آج صبح جو تم نے حرکت کی ہے ، اس کی وجہ سے ہم سب یہاں ہیں ، پہلے اپنے بڑے بھائی کو باہر بلاؤ پھر ہم بات کریں گے۔
آوازیں سُن کر بڑا چیتا بھی باہر آگیا ، اور سارے پڑوسیوں
کو ایک ساتھ دیکھ کر کہنے لگا : کیا مسئلہ ہے؟ کیوں سب نے ہمارے دروازے پر رَش لگایا ہوا ہے؟
بڑےزیبرے نے حوصلے کے ساتھ کہا : ہم تمہارے پڑوسی ہیں ، دُکھ درد میں کام آنے والے ہیں ، پریشانی میں تمہارا ساتھ دیتے ہیں ، پچھلی سردیوں میں جب تم زخمی ہوگئے تھے تو تمہارا علاج بھی ہم نے مل کر کیا تھا ، آج جب تندرست ہو! جان واپس آگئی ہے تو اپنے ہی پڑوسیوں کو دھمکا رہے ہو۔
چھوٹے کتے نے بھی بات بڑھاتے ہوئے کہا : یہ تو احسان کا صِلہ نہیں تھا ، پڑوسی کے ساتھ یہ انداز بالکل بھی مناسب نہیں ہے۔
پڑوسیوں کی باتوں سے بڑے چیتے کو سمجھ آگیا کہ وہ دونوں غلطی پر تھے ، انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا ، اس لئے اس نے نرم انداز میں کہنا شروع کیا :
بھائیو! ہم لالچ میں آگئے تھے ، اور خود کے فائدے کی وجہ سے اپنے ہی مددگاروں کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ کر بیٹھے تھے۔ بہتر ہوگا کہ آپ ہمیں مُعاف کردیں اور ہم پہلے کی طرح مِل کر چین و سکون سے رہیں۔
بڑے زیبرے نے بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا : ہم بھی یہی چاہتے ہیں سب مل کر رہیں ، کسی کو مصیبت و تکلیف دینے کا سبب نہ بنیں۔
پھر صلح صفائی ہوئی ، معافی تلافی کے بعد دوبارہ سارے مل کر خوشی سے رہنے لگے۔
پیارے بچّو! معلوم ہوا کہ مشکل وقت میں اپنے پڑوسیوں ، دوستوں کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ ان کے ساتھ مل کر اس پریشانی کو حل کرنا چاہئے کہ ساتھ مل کر کرنے کی برکت سے وہ کام بھی ہوجاتا ہے اور مسلمان کی مدد کرنے کا ثواب بھی مل جاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ بچوں کی دنیا (کڈز لٹریچر) المدینۃ العلمیہ ، کراچی
Comments