دشمن بنے دوست

جانوروں کی سبق آموز کہانیاں

دشمن  بنےدوست

*مولانا سیّد عدیل ذاکر چشتی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2022

 گرمی کا موسم تھا ، ایک گھنے درخت کے سائے میں نیولا آرام کررہا تھا۔

موتی سردار !  موتی سردار !  نیولے کےکانوں میں آواز گونجی۔ موتی سردار اٹھو !  اٹھوموتی سردار !  

موتی سردار نے چِلّاتے ہوئے کہا :  کیا ہے !  کیوں تنگ کررہے ہو چھوٹے ؟  سونے کیوں نہیں دیتے۔

 وہ۔۔۔وہ۔۔۔ ! چھوٹے چوہے کا سانس پھول رہا تھا  ۔

موتی نیولے نے کہا :  وہ  ،  وہ  کیا کررہےہو ؟  جلدی بولو کیا ہوا ؟

چھوٹا چوہافرفر بولا  : سردار وہ آپ کا دشمن ،  کَلُّو سانپ !  اسے میں نے دیکھا ہے ،   اسی لئے بھاگتا ہوا آپ کے پاس آیا ہوں۔

موتی نیولے نے سرہلاتے ہوئے کہا :  اچھا !  تو یہ بات ہے۔ آج وہ موتی کے علاقے میں آہی گیا۔

چھوٹے چوہے نے کہا :  سردار !  میں تو کہتا ہوں ،  آج اس کا کام تمام کر ہی دیں۔

درخت پر بیٹھی ماسی چڑیا نے یہ باتیں سنیں تو کہا :  بیٹا نیولے !  یہ چھوٹا تمہیں غلط مشورہ دے رہا ہے۔ لڑنا جھگڑنابری بات ہے ۔ ہم سب جانوروں کو مل جل کر رہنا چاہئے۔ تم ایسا  کوئی  کام نہیں کرنا۔موتی نیولے نے ماسی چڑیا سے کہا :  آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں  ، مگر وہ میرا دشمن ہے۔مجھے اس سے نفرت ہے۔

چھوٹےچوہے نے کہا : سوچ کیا رہے ہو سردار !  بہت اچھا موقع ہے ، ایسا موقع بار بار ہاتھ نہیں آتا۔ ماسی چڑیا کی بات نہیں مانو۔ کَلُّوسانپ ایک بار ہاتھ سے نکل گیا تو بعد میں افسوس کرنا  پڑے گا۔

موتی نے کہا :  دیکھو چھوٹا !  تمہارا دماغ تو ٹھیک کام کرتا نہیں ،  مگر تم نے یہ بات صحیح بولی ہے۔ چھوٹا دانت نکال کے ہنسا۔

موتی نے اِتراتے ہوئے کہا :  میں ابھی اس کَلُّو کا کام تمام کردیتا ہوں۔

چلو چھوٹا۔۔۔چلو ،  اس کَلُّو کو آج سبق سِکھا ہی دیتا ہوں۔

کَلُّو سانپ اپنے بچّوں کو آئس کریم کھلانے کے لئے گھر سے نکلا ،  آئس کریم کی دکان موتی کے علاقے میں تھی۔کَلُّو اپنے بچوں کی خوشی کے لئے انہیں موتی کے علاقے میں لے  آیا۔

چنّو  نے کہا :   پاپا !  پاپا !  میں تو اسٹابری والی آئس کریم کھاؤں گا۔ مُنِّی نے کَلُّوپاپا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :  اور میں ۔۔۔میں تو چاکلیٹ والی۔۔۔مُنِّی نے پھر سوچتے ہوئے کہا :  نہیں  پاپا نہیں بلکہ میں ۔ ۔ ۔ مینگو والی کھاؤں گی ،  مجھے مینگو بہت پسند ہے۔

موتی نیولے نے چلاتے ہوئے کہا : آج تو تمہارا کام ختم کرکے ہی رہوں گا کَلُّو !  کَلُّو سانپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو موتی نیولا بھاگتے ہوئے اس کےپاس آرہا تھا۔

کَلُّو نے جلدی سے اپنے بچّوں کو کہا :  تم دونوں فوراً درخت کےپیچھے چھپ جاؤ۔ اور جب تک میں نہ کہوں باہر مت آنا۔

موتی نے کہا :  آخر تم مل ہی گئے کَلُّو۔ کافی ٹائم سے تمہارا انتظار تھا۔ پچھلی بار تو تم میری آنکھوں میں مٹی پھینک کے بھاگ گئے تھے۔ مگر اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ آج تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

کَلُّو سانپ نے کہا :  دیکھو موتی !  آج میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا ،  میرے ساتھ بچے ہیں۔

ہا ہا ہا  !  ہاہاہا !  موتی نیولے نے کہا : لڑنا نہیں چاہتے ؟  اتنے دنوں بعد ہاتھ آئے ہو تم اور ایسے ہی جانے دوں ؟  پاگل سمجھا ہے کیا ؟  تمہیں تو میں مزہ چکھا کے ہی رہوں گا اور رہے تمہارے بچے ،  انہیں میں اپنا نوکر بنا کے اپنے پاؤں دبواؤں گا۔

کَلُّو نے غصے میں بولا :  میرے زندہ ہوتے ہوئے تم انہیں ہاتھ بھی نہیں لگاسکتے۔

موتی نے کہا :  تو تمہارے مرنے کے بعد ہی سہی !  یہ کہتے ہی  موتی نیولے نے سانپ پر حملہ کردیا ۔لڑتے لڑتے اچانک موتی نیولا کانٹوں میں پھنس گیا۔اس نےباہر نکلنے کی کوشش کی مگر وہ اور زخمی ہوگیااورہمت ہارگیا۔آخر کار موتی اپنے دشمن کلو سانپ کی طرف  یوں دیکھنے لگا کہ شاید کلو سانپ اس کی مدد کردے لیکن جب کلو سانپ اس سے منہ پھیر کر جانے لگا تو موتی نے کہا :  کَلُّو مجھے بچالو !  ورنہ میں  مرجاؤں گا۔کَلُّو نے غصے سے کہا :  نہیں ،  نہیں بچاؤں گا۔

موتی نے معافی مانگتے ہوئے کہا :  مجھے بچا لوکَلُّو !  میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میرے بعد ان کا کیا ہوگا ؟

ماسی چڑیا جو یہ سب دیکھ رہی تھی ،  اس نے کَلُّو سے کہا :  بیٹا کَلُّو !  جب کوئی پریشان ہو ،  مصیبت میں ہو ،  اس کی مدد کرنا چاہئے ،  چاہے وہ  دشمن ہی کیوں نہ ہو۔

کَلُّو نے ماسی چڑیا کی بات سُن کر دل ہی دل میں کہا :  ماسی صحیح کہتی ہیں۔ میرے بھی چھوٹے بچے ہیں ،  اگر موتی مجھے مار دیتا تو میرے بچّوں کا کیا ہوتا۔ موتی میرا دشمن ہی سہی مگر میں مصیبت میں اس کی مدد کروں گا  ،  میں اسے مرنے نہیں دوں گا۔

کَلُّو نے بڑی مشکل سے موتی کو باہر نکالا۔ موتی نیولے نے کہا :  کَلُّو بھائی  !  مجھے معاف کردو ،  میں تمہیں مارنا چاہتا تھا ،  مگر تم نے میری جان بچائی۔

ماسی چڑیا نے کہا :  موتی بیٹا !  میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی ،  لڑنا جھگڑنا اچھی بات نہیں۔ اس میں کسی کا فائدہ نہیں،  نقصان ہی ہوتا ہے۔ تم پہلے ہی میری بات مان جاتے تو اتنے زخمی نہیں ہوتے۔

موتی نے کَلُّو کو گلے لگاتے ہوئے کہا :  میں آج سے یہ  دشمنی  ختم کرتا ہوں اور تمہارا دوست بنتا ہوں۔ یہ لو تم بھی آئسکریم کھاؤ ، اوراپنے بچّوں کے لئے بھی آئسکریم لے جاؤ۔اور پھر دونوں خوشی خوشی اپنے اپنے گھر چلے گئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ بچوں کی دنیا(چلڈرنز لٹریچر) المدینۃ العلمیہ ،  کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code