جانوروں کی سبق آموزکہانیاں
مظلوم پرندے
* مولانا شاہ زیب عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء
ایک بڑا درخت تھا ، جس پر تین فیملیاں رہتی تھیں ، اوپر نیچے ان کے گھر تھے۔
سب سے نیچے چڑیا کی فیملی رہتی تھی ، درمیان میں میَنْا اور اس کے تین بچّے ، جبکہ سب سے اوپر کبوتری اور اس کے دو بچّے رہتے تھے۔
یہ سب ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھتےتھے۔
روزانہ شام کے وقت اوپر والے فلور پر بڑے بیٹھ کر آپس میں باتیں کرتے ، جبکہ بچے درخت کے نیچے زمین پر کھیلتے کُودتے تھے۔
ایک بار ان کی ہنستی مسکراتی زندگی میں اچانک سے ایک مصیبت آپڑی ، ہُوا کچھ یوں کہ سردی کا موسم تھا ، روزانہ کی طرح بڑے باتیں کررہے تھے اور بچّے کھیل رہے تھے کہ کوّوں کا ایک جُھنْڈ بڑے درخت کے پاس آنکلا ، ایک بڑا اور موٹا کوّا جھنڈ کے بیچ میں سے آگے بڑھا اور دھمکاتے ہوئے کہنے لگا : “ اس درخت پر جتنے دن گزار لئے ، گزار لئے ، کل سے یہاں ہم رہیں گے ، تم سب اپنا بندوبست کرلو۔ “
چڑیا نے فوراً کہا : پاس ہی دوسرے درخت ہیں ، وہاں کوئی نہیں رہتا ، تم سب اپنے گھر وہاں جاکر بناؤ۔
ہاں ہاں! یہ بھی کوئی انصاف ہے کہ اپنا گھر بناؤ دوسرے کا اجاڑو! مَینا اور کبوتری نے بھی چڑیا کی ہاں میں ہاں ملائی۔
مجھے کچھ نہیں پتا ، بڑے کوّے نے غصے سے کہا : تمہارے پاس کل شام تک کا ٹائم ہے ، اپنا بندوبست کرلو ورنہ گھر تو کیا ، سر بھی نہیں بچے گا ، یہ کہتے ہوئے بڑا کوّا اپنے جھنڈ کے ساتھ وہاں سے اُڑتا بنا۔
شام سے رات ہوگئی ، اجالے سے اندھیرا ہوگیا تھا ، بچّے بےخبر تھے ، اس لئے پُرسکون ہوکر سو رہے تھے ، لیکن والدین پریشان تھے ، بڑے پریشان اپنے لئے ، اپنے بچّوں کے لئے ، اپنے گھر کے لئے ، اس لئے جاگ رہے تھے۔
بتاؤ! اب کیا کرنا ہے ، چڑیا نے کہا ، میرے تو بچے بھی چھوٹے ہیں اور گھر بناتے بناتے ایک ہفتہ لگ جائے گا۔
یہاں رُکے تو کوّوں کے ہاتھوں مَریں گے ، چلے گئے تو سردی کی وجہ سے مریں گے ، مینا نے روتے ہوئے کہا۔
لیکن! یہ کبوتری کہاں ہے؟ مَینا نے سوال کیا ، کہیں وہ یہ گھر اور ہمیں چھوڑ کر چلی تو نہیں گئی؟
پتا نہیں! مگر اس کے بچّے یہیں پر ہیں۔ چڑیا نے جواب دیا۔
اگلےدن شام کوکبوتری واپس لوٹ چکی تھی اور اس کے آنے کے کچھ ہی دیر بعد ساتھ ہی کوّوں کاجھنڈ پھر آنکلا ، دیکھو تو سہی! یہ لوگ ابھی تک یہاں پر ہیں ، موٹے کوّے نے حیرت سے کہا ، لگتا ہے تمہیں جینے سے زیادہ مرنے کا شوق ہے۔
ہاہاہاہا ، سردار کی بات سُن کر سارے کوّے زور زور سے ہنسنے لگے ، ہاہاہاہا
لیکن! یہ کیا؟ کبوتری اور اس کے پڑوسیوں کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
کبوتری مسکراتے ہوئے کہنے لگی : ہم نہ مریں گے اور نہ یہاں سے جائیں گے۔
تم نے کیا سمجھا تھا کہ ہم اکیلے ہیں ، کمزور ہیں تو ہم پر ظلم کرو گےاور ہمارے گھروں پر قبضہ کروگے ، یہ دیکھو ہمارے دوست یہاں موجود ہیں ، ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ اس کے بعد چاروں طرف سے شاہین نکل آئے اور درخت پر آکر بیٹھ گئے۔
کیا مسئلہ ہے؟ کمزور کیا دیکھے کہ حملہ کردیا ، اب ہم تمہیں بتائیں طاقت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ سردار شاہین کی آواز بھاری ہوچکی تھی اور وہ بہت غصے میں آچکا تھا۔
نہیں نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ، موٹے کوّے نے اپنی جان بچاتے ہوئے کہا ، ہم تو بس ایسے ہی مذاق کر رہے تھے ، یہ رہیں ، گھر ان کا ہے ، درخت ان کا ہے ، ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں ، بس آپ غصہ نہ ہوں۔
کوّوں کی طرف سےپہنچنےوالی مصیبت کو دور کرنے پر تمام شاہینوں کا کبوتری اور اس کے پڑوسیوں نے شکریہ ادا کیا اور ان کے لئے تین دن بعد بہت مزے کی دعوت کی ۔
پیارے بچّو!اس کہانی سے ہمیں سیکھنے کو ملا :
کسی کمزور پر ظلم نہ کریں اور اگر کوئی ظلم کر رہا ہو تو ظالم کو ظلم کرنے سے روکیں اور کمزور کی مدد کریں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ بچوں کی دنیا (چلڈرنزلڑریچر)المدینۃ العلمیہ ، کراچی
Comments