نگاہِ مصطفےٰصلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دیکھنے کی غیر معمولی طاقت: اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدّس آنکھوں کی یہ شان ہے کہ آپ آگے پیچھے ، دائیں بائیں ، اُوپر نیچے ، دن رات ، اندھیرے اُجالےمیں یکساں (Equally) دیکھتے ہیں۔             (انموذج اللبیب ، ص211 ، زرقانی علی المواھب ، 5 / 263 تا 265 ، سیرتِ مصطفیٰ ، ص571)

اے عاشقانِ رسول! سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غیرمعمولی قوتِ بَصارت(یعنی دیکھنے کی طاقت) سے متعلق کچھ تفصیل ملاحظہ فرماکر اپنا ایمان تازہ کیجئے :

پیٹھ مبارک کے پیچھے دیکھنا: 2فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : (1)اِنِّيْ وَاللَّهِ لَاُبْصِرُ مِنْ وَّرَائِيْ كَمَا اُبْصِرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ یعنی خدا کی قسم!بے شک میں اپنی  پیٹھ کے پیچھے بھی ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسے اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔ (مسلم ، ص180 ، حدیث : 957) (2)هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِيْ هَاهُنَا فَوَاللَّهِ مَا يَخْفٰى عَلَيَّ خُشُوعُكُمْ وَلَا رُكُوعُكُمْ  اِنِّيْ لَاَرَاکُمْ مِنْ وَّرَاءِ ظَهْرِي یعنی کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں صرف سامنے دیکھتا ہوں۔ اللہ کی قسم! نہ مجھ پر تمہارا خُشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارے رُکوع مجھ سے چُھپے ہوئے ہیں۔ بے شک میں تمہیں پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔                              (بخاری ، 1 / 161 ، حدیث : 418)

حضرت علامہ بدرُالدین محمود بن احمد عَیْنی رحمۃ اللہ علیہ دوسری حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : جَمہُور(یعنی اکثر) علمائے کرام کا موقف(Point of View) یہ ہے اور یہی موقف درست ہے کہ خلافِ عادت طریقے سے پیٹھ پیچھے بھی حقیقی طور پر دیکھنا رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خصوصیت (Speciality)ہے ، اسی لئے امام بُخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیثِ پاک کو نبوّت کی نشانیوں کے باب (Chapter) میں ذکر فرمایا ہے۔

تابعی بزرگ حضرت سیّدنا مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول  ہے کہ سیدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پیٹھ پیچھے دیکھنا (نماز کے ساتھ خاص نہیں تھا بلکہ)تمام اوقات میں تھا۔               (عمدۃ القاری ، 3 / 404)

بینائی کی دُھوم: شیخِ محقق شیخ عبدالحق محدِّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےحق میں 6 جِہات (Six Directions یعنی دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے) ایک جہت کے حکم میں کردی گئی ہیں(کہ آپ ایک ہی  وقت میں تمام جہات کا مشاہدہ فرماتے ہیں)۔   (مدارج النبوۃ ، 1 / 7)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے  ہیں :

شَشْ جہت سَمتِ مقابِل شب و روز ایک ہی حال

دُھوم وَالنَّجْم  میں    ہے  آپ  کی بینائی  کی

(حدائقِ بخشش ، ص154)

یعنی یارسول اللہ!دن ہویا رات آپ کے لئے دائیں ، بائیں ، آگے ، پیچھے ، اُوپر  اور نیچےکی 6 جہتیں (Directions)  دیکھنے کے معاملے میں ایسی ہیں جیسے سامنے کا حصہ۔ آپ کی مبارک آنکھوں کی یہ شان کیوں نہ ہو کہ سورۂ نَجْم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :  مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷)یعنی (اللہ کریم کے دیدار کے وقت) محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھ نہ کسی طرف پھر ی اور نہ حد سے بڑھی۔ (پ27 ، النجم : 17 ، صراط الجنان ، ص557 ملخصاً)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دُور ونزدیک سے برابر دیکھنا: سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے2فرامین : (1)اِنِّي وَاللَّهِ لَاَ نْظُرُ  اِلٰی حَوْضِيْ اَلْاٰنَ یعنی بے شک خدا کی قسم! میں اس وقت اپنے حوضِ کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔

 (بخاری ، 2 / 499 ، حدیث : 3596)

اے عاشقانِ رسول ! حوضِ کوثر جنّت میں ہے اور جنّت ساتوں آسمانوں سے بھی اُوپر واقع ہے ۔ حضرت سیّدنا اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ جنّت کہاں ہے؟ ارشاد فرمایا :  فَوْقَ السَّمٰوَاتِ تَحْتَ الْعَرْشِ یعنی جنّت آسمانوں کے اُوپر جبکہ عرش سے نیچے واقع ہے۔ (تفسیر خازن ، 1 / 301) مفتی احمد  یا ر خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)مدینۂ منوّرہ میں کھڑے ہوئے اس حوضِ کوثر کو دیکھ رہے ہیں جو جنّت میں ہے اور جنّت ساتوں آسمان سے اُوپر ہے۔ جس کی نگاہ مدینہ سے جنّت تک کو دیکھ سکتی ہے اس کی نظر ساری رُوئے زمین کو ، یہاں کے رہنے والوں کو بھی دیکھ سکتی ہے۔                (مراٰۃ المناجیح ، 8 / 287)

(2)اِنَّ اللہَ زَوٰى لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَيْتُ مَشَارِقَهَا وَ مَغَارِبَهَا یعنی بے شک  اللہ پاک نے میرے لئے زمین سمیٹ دی  اور میں نے اس کے مشارق و مغارب دیکھ لئے۔ (مسلم ، ص1182 ، حدیث : 7258) یعنی ساری زمین مجھے مختصر کرکے دکھادی گئی ، میرے سامنے رکھ دی گئی۔ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان ، مشرق و مغرب حضورِ انور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی نظر میں بھی ہیں اور تَصَرُّف میں بھی۔         (مراٰۃ المناجیح ، 8 / 11)

صدرُ العلماء  شارحِ بخاری  مولانا سیّد غلام جیلانی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے جو لاکھوں مِیل کی مَسافت (Distance) پرآسمانی حجابات میں پوشیدہ ہیں۔  (نظامِ شریعت ، ص38)

کسی چیز کو دیکھنے کی دو شرطیں : صدرُ العلماء مزید لکھتے ہیں : آنکھوں سے کسی چیز کو دیکھنے کے لئے دو شرطیں (Conditions)  ہیں : ایک یہ کہ روشنی ہو ، تاریکی میں آنکھوں سے کوئی چیز نظر نہ آئے گی۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ آنکھوں کے سامنے ہو ، اگر سامنے نہیں پسِ پشت (یعنی پیٹھ کے پیچھے)ہے ہر گز نظر نہ آئے گی۔ مگر محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کے واسطے ان میں سے کوئی شرط نہ تھی۔ ان خدا بھاتی آنکھوں کی اعلیٰ درجہ کی خصوصیت(Speciality) یہ ہے جو کسی آنکھ کو نصیب نہ ہوئی اور نہ تاقیامت نصیب ہو کہ انہوں نے شبِ معراج میں ذاتِ الٰہی کو دیکھا جس کے دیکھنے کی تاب و طاقت آخرت سے پہلے کسی مخلوق کو نہیں دی گئی۔          (نظامِ شریعت ، ص38)

اندھیرے اُجالے میں یکساں دیکھنا: اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  يَرىٰ فِي الظَّلْمَاءِ كَمَا يَرىٰ فِي الضَّوْ ءِ یعنی رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اندھیرے میں بھی اسی طرح دیکھتے تھے جیسے روشنی میں دیکھتے تھے۔       (دلائل النبوۃ ، 6 / 74)

پوری دنیا کو ہتھیلی کی طرح دیکھنا: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنَّ اللهَ قَدْ رَفَعَ لِيَ الدُّنْيَا فَاَنَا اَنْظُرُ اِلَيْهَا وَاِلٰى مَا هُوَ  كَائِنٌ فِيْهَا اِلٰى  يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَاَنَّمَا اَنْظُرُ  اِلٰى كَفِّيْ هٰذِهٖ  یعنی بے شک اللہ  پاک  نے دنیا کو میرے سامنے پیش فرمادیا ہے تو میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھتا ہوں۔  (مجمع الزوائد ، 8 / 510 ، حدیث : 14067)

امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : (رحمتِ عالم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)تمام دنیا بھر اور جو کچھ ا س میں قیامت تک ہونے والا ہے ، سب کو ایسا دیکھ رہے ہیں  جیسا اپنی اس ہتھیلی کو ، آسمانوں  اور زمینوں  میں  کوئی ذرّہ ان کی نگاہ سے مخفی(یعنی چھپا ہوا) نہیں۔              (فتاویٰ رضویہ ، 15 / 74)

رُوبرو مِثْلِ کفِ دَست ہیں دونوں عالَم

کیسی پُرنور ہیں چشمانِ رسولِ عربی

(قبالہ بخشش ، ص284)

ہر چیز کو دیکھنا: رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک فرمان ہے : اِنِّي اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ وَاَسْمَعُ مَا لَا تَسْمَعُونَ یعنی میں ہر اس چیز کو دیکھتا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے  اور ہر اس آواز کو سنتا ہوں جسے تم نہیں سنتے۔      (ابن ماجہ ، 4 / 464 ، حدیث : 4190)

شِہابُ الملّۃ وَالدِّین حضرت علّامہ احمد بن محمد خَفاجی مصریرحمۃ اللہ علیہاس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :     ’’مَا‘‘ سے مراد وہ غیبی معاملات ہیں جن پر اللہ پاک نے اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مُطَّلِع (Inform) فرمایا اور کوئی دوسرا انہیں نہیں دیکھتا ، مثلاً : فرشتوں ، جنّت ، دوزخ اور عذابِ قبر کو دیکھ لینا ، مُردوں اور قبروں کے معاملات کی خبر ہوجانا ، اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قبر میں ہونے والے عذاب کی نیز آسمان کے چَرچَرانے کی آواز سُن لینا بھی اسی میں شامل ہے۔     (نسیم الریاض ، 2 / 420)

سب مِثلِ ہتھیلی پیشِ نظر ہر غیب عیاں ہے سینے پر                                                    یہ نورِ نظر یہ چشمِ بصر یہ علم و حکمت کیا کہنا

(قبالۂ بخشش ، ص86)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share