روزے میں ایک دو قطرے آنسو منہ میں چلے گئے تو؟

1۔روزے میں ایک دو قطرے آنسو منہ میں چلے گئے تو؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ روزے کے دوران اگر قطرہ دو قطرہ آنسو منہ میں چلا گیا اور نمکینی پورے منہ میں محسوس ہوئی توفقط اس نمکینی کے محسوس ہونے سے روزہ ٹُوٹ جائے گا؟ یا حلق سے نیچے اُترنے پر ٹُوٹے گا؟ بہارِ شریعت کی عبارت سے ایسا لگتا ہے کہ نمکینی پورے منہ میں محسوس ہونے سے ہی روزہ ٹُوٹ جائے گا۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فقط آنسو کی نمکینی پورے منہ میں پھیل جانے سے روزہ نہیں ٹُوٹے گا بلکہ روزہ کے ٹُوٹنے کا حکم پورے منہ میں محسوس ہونے والی اس نمکین رطُوبت کے حلق سے نیچے اُترنے کی صورت میں ہے۔ کتبِ فقہ وفتاویٰ میں حلق سے نیچے اُترنے کی صورت ہی میں روزے کا ٹُوٹنا بیان کیا گیا ہے۔

جیساکہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے “ الدموع اذا دخلت فم الصائم ان كان قليلا كالقطرة والقطرتين او نحوها لا يفسد صومه وان كان كثيرا حتى وجد ملوحته في جميع فمه ، واجتمع  شيء كثير فابتلعه يفسد صومه ، وكذا عرق الوجه اذا دخل فم الصائم كذا في الخلاصة۔ “ یعنی آنسو روزہ دار کے منہ میں گئے اگر قلیل مقدار میں تھے مثلاً ایک دو قطرے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اور اگر کثیر مقدار میں تھے یہاں تک کہ پورے منہ میں اس کی نمکینی محسوس ہوئی اورکثیر لعاب جمع ہونے پر اس کو نگل لیا تو روزہ ٹوٹ جائے

گا۔ یہی حکم پسینہ کے منہ میں داخل ہونے کا ہے۔           (فتاوٰی عالمگیری ، 1 / 203)

اسی طرح خلاصہ کے حوالے سے درمختارمیں مذکور ہے۔ علّامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی اس مقام پر ارشاد فرماتے ہیں : “ وفي الامداد عن خط المقدسي أن القطرة لقلتها لا يجد طعمها في الحلق لتلاشيها قبل الوصول ، ويشهد لذلك مافي الواقعات للصدر الشهيد : إذا دخل الدمع في فم الصائم إن كان قليلا نحو القطرة أو القطرتين لا يفسد صومه لان التحرز عنه غير ممكن ،  وإن كان كثيرا حتى وجد ملوحته في جميع فمه وابتلعه فسد صومه ،  وكذا الجواب في عرق الوجه اه. ملخصا۔ یعنی ایک قطرہ کا ذائقہ ا س کی قلت کی وجہ سے محسوس نہیں ہوتا اور وہ حلق تک پہنچنے سے پہلے ہی کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس کی تائید صدر الشہید کی واقعات سے بھی ہوجاتی ہے کہ اس میں ہے “ جب آنسو روزہ دار کے منہ میں داخل ہوجائے اگر وہ قلیل ہو یعنی ایک دو قطرے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر زیادہ ہو حتی کہ اس کی نمکینی پورے منہ میں محسوس ہو اور وہ اس کو نگل لے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ یہی جواب چہرے کے پسینے کے بارے میں ہے۔ “                (درمختار معہ رد المحتار ، 3 / 434)

اور یہی مفہوم بہارِشریعت کی عبارت سے بھی ظاہر ہے جس کی تفصیل ووضاحت یہ ہےکہ بہارِ شریعت میں مسئلہ بیان کرتے ہوئے اولاً اس بات کو متعین  کرلیا گیا کہ آنسو منہ میں جانے کے بعد حلق سے نیچے اتر گیا۔ جیساکہ بہارِ شریعت میں اس مسئلے کی ابتداءمیں مذکور ہے “ آنسو مونھ میں چلا گیا اور نگل لیا “ پھر آگے اس کی دو صورتیں بیان کی گئیں (1)قلیل آنسو ، جسے قطرہ دو قطرے سے تعبیر کیا (2)کثیر آنسو ، جسے پورے منہ میں نمکینی محسوس ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پہلی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا جبکہ دوسری صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گاجیساکہ بہارِ شریعت کا مکمل مسئلہ درج ذیل ہے : “ آنسو مونھ میں چلا گیا اور نگل لیا ، اگر قطرہ دو قطرہ ہے تو روزہ نہ گیا اور زیادہ تھا کہ اس کی نمکینی پورے مونھ میں محسوس ہوئی تو جاتا رہا۔ پسینہ کا بھی یہی حکم ہے۔ “

       (بہارِ شریعت ، 1 / 988)

یعنی مذکورہ بالا مسئلے کی یہ عبارت “ اور زیادہ تھا کہ اس کی نمکینی پورے مونھ میں محسوس ہوئی تو جاتا رہا “ جداگانہ مستقل ایک نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آنسو کے منہ میں جاکر حلق سے اترنے کی تفصیل کی دوسری شق وصورت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بہارِشریعت میں مذکور مسئلہ کتبِ فقہ وفتاوٰی کے موافق ہی ہے ، مخالف نہیں۔ اسے مخالف سمجھنا قاری کے عبارت میں غوروخوض نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

           مُجِیْب                                                                                                                                                                            مُصَدِّق

ابو الحسن جمیل احمد غوری عطاری                 مفتی فضیل رضا عطاری

سجدۂ تعظیمی کی شرعی حیثیت

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سجدۂ تعظیمی کی شرعی حیثیت کیاہے؟شرعاًجائزہے یانہیں؟قرآن و سنّت کی روشنی میں بیان فرمائیں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سجدہ کی دوقسمیں ہیں : (1)سجدۂ عبادت(2)سجدۂ تعظیمی

سجدۂ عبادت اللہ کاحق ہے جوغیرِخداکےلئےکسی بھی شریعت میں لمحہ بھر کے لئے بھی جائز نہیں ہوا اگر غیرِ خدا کو سجدۂ عبادت کسی نے کیا تو واضح طور پر کافر ہوجائے گا۔ جبکہ سجدۂ تعظیمی (یعنی اللہ کی طرف سے کسی کو ملنے والی عظمت کے اظہار کے لئے سجدہ کرنا) پچھلی شریعتوں میں جائز تھا جیسے حضرت آدم علیہ السَّلام کو فرشتوں نے اور حضرت یوسف علیہ السَّلام کو آپ کے بھائیوں اور آپ کے والدین نے سجدہ کیا۔ لیکن ہماری شریعت میں یہ سجدۂ تعظیمی منسوخ ہوچکا ہے لہٰذا شریعتِ محمدیہ میں تاقیامت غیرِخدا کے لئے سجدۂ تعظیمی سخت ناجائز و حرام ہے اور تعظیماً سجدہ کرنے والا سخت گنہگار اور عذابِِ نار کا حقدار ہوگا۔ ہاں!  کافر نہ ہوگا ، کسی قسم کا حکمِ کفر اس پر عائد نہ ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضا عطاری

عشر نکالنے کا طریقۂ  کار

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بیان میں کہ بعض اوقات بیج ، کھاد ، زرعی ادویات اور پانی وغیرہ کے اخراجات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ اخراجات نکالے جائیں تو تمام کی تمام پیداوار ان خرچوں میں پوری ہو جاتی ہے بلکہ بعض اوقات نقصان بھی ہو جاتا ہے اور زمیندار اور ہاری (کسان) کو کچھ نہیں بچتا۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس صورت میں بھی عشر لازم ہو گا؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عشر مصارف و اخراجات نکالے بغیر پوری پیداوار پر ہوتا ہے ، لہٰذا بیج ، کھاد و ادویات وغیرہ اخراجات چاہے پیداوار سے بڑھ جائیں اور زمیندار و کسان کو کچھ نہ بچے ، تب بھی پوری پیداوار پر عشر ہوگا ، اخراجات مِنْہَا کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کتبــــــــــــــــــــــہ

مفتی فضیل رضا عطاری


Share