مرنے کے بعد اٹھنے کے سائنسی انکار کی حقیقت

خدا اور قِیامت کے مُنکر دہریے کہتے ہیں کہ سائنسی اور عقلی دلائل کے ہوتے ہوئے ایک آدمی موت کے بعد کی زندگی کو کیسے مان سکتا ہے؟یہ ممکن ہی نہیں کہ مرنے کے بعد ریزہ ریزہ ہوجانے کے باوجود کسی کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔

جواب : اس قسم کے سوالات کے جواب میں ایک سادہ سی بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ وہ مشہور چورن ہے جو ہر جگہ بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جہاں اسلام ، دین ، قرآن کی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو وہاں پر سائنس اور عقل کا حوالہ دے دیا جائے کہ جناب سائنس اور عقل کی روشنی میں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ایک جملہ ہے جسے موقع ، بے موقع جوڑ کر اس کے بعد جو مرضی بول دیا جاتا ہے اور غیب اور مابعد الطبعیات کے معاملات  میں ہمیشہ اس کا استعمال غلط ہوتا ہے۔

اس کا تفصیلی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں قیامت کے حوالے سے اتنی تفصیل سے اور اتنے دلائل سے کلام فرمایا ہے کہ کوئی ذی شعور آدمی اس کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اسے چند مراحل میں عرض کرتا ہوں :

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ غلط عقیدہ کہ “ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ جب ایک مرتبہ مرگئے تو سب ختم ہوگیا ، “ یہ عقیدہ آج کا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے جو بھی انبیا اور رُسل آتے تھے اور اپنی قوموں کو قیامت کے بارے میں سمجھاتے تھے تو وہ قومیں آگے سے یہی جواب دیتی تھیں۔ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ جملہ کہا :  وَ قَالُوْا مَا هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَ مَا یُهْلِكُنَاۤ اِلَّا الدَّهْرُۚ-  “ اور انہوں نے کہا : زندگی تو صرف ہماری دنیاوی زندگی ہی ہے ، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے “ (پ25 ، الجاثیۃ : 24)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  یہ کفار کا دعویٰ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر فرمایا :  وَ مَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍۚ-   اور انہیں اس کا کچھ علم نہیں “ (پ25 ، الجاثیۃ : 24)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   کہ بس یہی زندگی ہے اور دوسری زندگی نہیں ہے اور ان کا یہ کہنا کہ زمانہ ہمیں ہلاک کردیتا ہے اور دوسرا کوئی نہیں ہے جو موت دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  اِنْ هُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ(۲۴) “ وہ صرف گمان دوڑاتے ہیں “ (پ25 ، الجاثیۃ : 24)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)      کیونکہ انہیں کس نے بتایا کہ زمانہ انہیں موت دیتا ہے اور ان کے پاس کیا دلیل ہے کہ خدا موت نہیں دیتا۔ ذرا اس کی دلیل تو دو۔ چنانچہ فرمایا : قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۶۴) “ تم فرماؤ : اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو “ (پ20 ، النمل : 64)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   کہ تمہیں زمانے نے مارا ہے اور خدا نے موت نہیں دی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت میں دوبارہ  زندگی ہوگی۔ اس پر سوال ہے کہ کیسے ہوگی کیونکہ لوگ تو مر کر مٹی میں مل جائیں گے ، ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ، ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی ، سارا وُجود بکھر جائے گا تو یہ دوبارہ سب کیسے وجود میں آئے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو خود قرآن میں بیان کیا قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ هِیَ رَمِیْمٌ(۷۸) “ کہنے لگا : ایسا کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کر دے جبکہ وہ بالکل گلی ہوئی ہوں “ (پ23 ، یٰسٓ : 78)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍؕ-وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُۙﰳ(۷۹) “ تم فرماؤ : ان ہڈیوں کو وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں بنایا اور وہ ہر پیدائش کو جاننے والا ہے “ (پ23 ، یٰسٓ : 79)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  ایک قطرے سے پیدا کرنا ہے یا ہڈیوں سے پیدا کرنا ہے یا ہڈیوں میں موجود کسی خلیے سے پیدا کرنا ہے ، خدا سب جانتا ہے۔ جو خدا ایک قطرے سے پیدا کرسکتا ہے ، تو وہ انہی ذرات کو جوڑ کر دوبارہ کیوں نہیں پیدا کرسکتا؟ یہ ہے دلیل۔ اس کے مقابلے میں اے منکرو! تم کہتے ہو کہ “ زمانہ مار دیتا ہے۔ “ یہ تو دعویٰ ہوا ، دلیل کدھر ہے؟ وہ بتاؤ ، کس مستند جگہ پڑھا یا مشاہدہ کیا کہ زمانہ مار دیتا ہے؟ اللہ تعالیٰ تو دعویٰ فرماتا ہے اور اس پر دلیل دے رہا ہے کہ جس نے پہلے پیدا کیا وہی دوبارہ پیدا کردے گا ، وہ تخلیق کے ہر طریقے کو جانتا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرت بیان فرماتا ہے :  مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ- “ تم سب کا پیدا کرنا اور قیامت میں اٹھانا ایسا ہی ہے جیسا ایک جان کا “ (پ21 ، لقمٰن : 28)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  یہ اربوں کھربوں انسان پہلی مرتبہ پیدا کرنا یا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دینا تمہیں مشکل یا ناممکن لگتا ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے ہے جیسے ایک بندے کو بنانا ، یہ اس کی قدرت ہے اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۷۷) “ بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ “ (پ14 ، النحل : 77)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک اور دلیل بیان فرماتا ہے اور وہ بندے کی عقل میں آئے گی ، کفار نے کیا کہا تھا ، وَ قَالُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا(۴۹) “ اور انہوں نے کہا : کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہمیں نئے سِرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟ “ (پ15 ، بنیٓ اسرآءیل : 49)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ ان کا تعجب اور ان کی حیرت تھی کہ ہڈیاں ہوں گی ، ریزہ ریزہ ہوں گے ، دوبارہ کیسے اٹھایا جائے گا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس قادرِ مطلق کی قدرت پر ایک مرتبہ نظر تو ڈالو کہ وہ کتنی عظیم ہے ، فرمایا : اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ قَادِرٌ عَلٰۤى اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ “ اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ وہ اللہ جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں وہ اس پر قادر ہے کہ ان لوگوں کی مثل اور پیدا کر دے “ (پ15 ، بنیٓ اسرآءیل : 99)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تو جس نے آسمان بنا دیئے ، زمین بنا دی ، اتنا بڑا نظام بنا دیا ، انسان کا وجود اس کے سامنے کیا ہے ، ریت کے ایک ذرہ کے برابر نہیں۔ جس خدا نے اتنی بڑی دنیا بنا دی ہے چھ فٹ کا انسان کا وجود بنانا اس کے لئے کیا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  بَلٰىۗ-وَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(۸۱) “ کیوں نہیں! اور وہی بڑا پیدا کرنے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے “ (پ23 ، یٰسٓ : 81)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  ،  اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(۸۲) “ اس کا کام تو یہی ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے فرماتا ہے ، “ ہو جا “ تو وہ ہوجاتی ہے “ (پ23 ، یٰسٓ : 82)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

لہٰذا دوبارہ پیدا کرنے میں کیا اشکال ہیں۔ یہ جو بات سوال میں کی گئی کہ “ عقلی اور سائنسی دلائل سے ثابت ہو گیا “ کیا ثابت ہوگیا؟ کچھ بھی نہیں۔ سائنس یہ تو کہہ سکتی ہے کہ ابھی تک میں جاہل ہوں ، ابھی تک اندھی ہوں اور ابھی اس دلیل تک پہنچ نہیں سکی کہ انسان دوبارہ زندہ کئے جا سکتے ہیں ، لیکن یہ نہیں کہہ سکتی کہ انسان دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ کتنی چیزیں تھیں جنہیں پہلے سمجھا جاتا تھا کہ نہیں ہو سکتیں جیسے “ ایک ہزار ٹن لوہا ہَوا میں اُڑتا ہوا سات ہزار کلومیٹر طے کرجائے ، “ کیا لوگ یہ مانتے تھے؟ نہیں ، لیکن جہاز بن کر ایسا ہو گیا۔ تو پہلے سائنس کی جہالت تھی ، سائنس اِدراک نہیں کرسکی تھی ، عقل وہاں تک پہنچ نہیں سکی تھی ، لیکن پھر کیا ہوا؟ اِدراک ہو گیا اور شے کی سمجھ آ گئی۔ لہٰذا عقل اور سائنس اپنے اِدراک کی نفی کر سکتی ہیں ، اپنی جہالت کا اِقرار و اِعتراف کر سکتی ہیں ، یہ نہیں کہہ سکتی کہ خدا دوبارہ لوگوں کو پیدا نہیں کرسکتا۔ وہ پیدا فرمائے گا ، اس نے فرمایا اور بَرحق فرمایا اور اس پر دلائل دے دیئے کہ جس نے تمہیں ایک قطرے سے پیدا کر دیا اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ جس نے تمہیں پہلے پیدا کیا وہ دوبارہ پیدا کیوں نہیں کرسکتا؟ جس نے سارے زمین و آسمان بنا دیئے کیا اس کی اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کر دے؟ لہٰذا اس کی قدرت ثابت ہے۔

یہاں ایک اور عقلی دلیل عرض کرتا ہوں ، وہ یہ کہ اگر دوبارہ زندگی نہیں ہے تو بتائیں کہ اگر ایک بندہ ایک لاکھ انسانوں کو قتل کر دے ، کیا اس قاتل سے ایک لاکھ لوگوں کے قتل کا پورا بدلہ لیا جا سکتا ہے؟ کیا اس کو ایک لاکھ مرتبہ پھانسی دیں گے یا اس کو ایک لاکھ مرتبہ عمر قید کی سزا دیں گے؟ کیا ایک لاکھ مرتبہ اس کو زہر کا انجکشن لگائیں گے؟ نہیں ، یہ ممکن نہیں۔ جس شخص نے گیس چیمبرز میں لاکھوں لوگوں کو مار دیا اور بعد میں خودکشی کر کے مر گیا ، اسے کیا سزا ملی؟ کچھ بھی نہیں۔ خودکشی تو اس نے خود کی تھی۔ اب وہ کیا صورت ہے کہ اسے اس کے گناہوں کا پورا پورا بدلہ دیا جا سکے؟ وہ  صورت موت کے بعد زندگی ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی زندگی دے گا اور بندے کو اس کی نیکیوں کی پوری پوری جزا دے گا اورگناہگار کو اپنے عدل و حکمت سے سزا دے گا۔ اگر قیامت نہ ہو تو اس کا مطلب ہوا کہ ایک انسان کا قتل اور ایک لاکھ کا قتل  دونوں برابر ہیں؟

اس کے بَرعکس اگر ایک شخص نے ایک لاکھ انسانوں کی جان بچائی ، تو اس کو ایک لاکھ کی جان بچانے کا کیا صِلہ ملے گا؟ جس بندے نے پوری دنیا میں خیر پھیلائی ، لاکھوں لوگوں کو راہِ راست پر لے آیا ، ہزاروں لوگوں کو جرائم سے توبہ کروا دی ، بُرائیاں چھڑوا دیں ، اس کو کیا صلہ ملا؟ ایک ہار پہنا دیا ، ایک میڈل گلے میں ڈال دیا ، واہ واہ کر دی ، تالیاں بجا دیں ، تھوڑا سا کرسی پر اونچا کر کے بٹھا دیا ، کچھ رقم انعام میں دیدی۔ یہ صلہ تو چھوٹے سے کاموں پر بھی مل جاتا ہےکہ یہاں کرکٹ ، فٹ بال کا میچ جیتنے پر اس سے زیادہ صلہ و انعام ملتا ہے۔ پھر فرق کیا ہوا؟ کیا دونوں برابر ہیں؟ ہرگز نہیں۔ جب برابر نہیں تو صلہ و انعام بھی کما حقہ  ہونا چاہیے۔ بلکہ میں کہوں گا کہ دنیا میں خیر کا سرچشمہ بننے والے کو پورا صلہ مل ہی نہیں سکتا کہ اگر ڈھیر سارے پیسے بھی دے دیں تو وہ ان کا کیا کرے گا ، کھا تو سکتا نہیں لہٰذا وہ زندگی چاہیے جس میں یہ پورے بدلے سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکے اور وہ آخرت کی زندگی ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ موت کے بعد زندگی نہیں ہے ، تو دنیا میں نہ بھلائی کرنے کا کوئی خاص فائدہ ہے اور نہ بُرائی کرنے کا نقصان۔ جس کا جو مَن چاہے وہ کرے ، کیوں! اس لیے کہ اس کو اچھائی کی پوری جزا نہیں ملنی اور برائی کی پوری سزا نہیں ملنی۔ لہٰذا عقل تقاضا کرتی ہے کہ بندہ اچھائی کرے تو اسے بھر پور صلہ ملے اور برائی کرے تو اسی کے مطابق سزا ملے۔

تو عقل کہتی ہے آخرت کی زندگی ہونی چاہیے۔ اسی لیے اللہتعالیٰ فرماتا ہے : اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) “ تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے۔ “ (پ18 ، المؤمنون : 115)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اللہ تعالیٰ نےدنیا اور زندگی کو بامقصد پیدا فرمایا ہے اور وہ مقصد تبھی پورا ہوتا ہے جب اچھے کو اچھائی کا بدلہ پورا ملے اور برے کو برائی کا بدلہ ملے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*دارالافتاء اہلِ سنّت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ ، کراچی

 


Share

Articles

Comments


Security Code