* پرسنل لائف کو خوبصورت اور اپنے مولائے کریم ربُّ العزّت کی پسندیدہ بنانے کے لئے بھی ایمان کی کاملیت کی بہت اہمیت ہے۔ حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا کہ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ایمان کیا ہے؟ تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب تمہاری نیکی تمہیں خوش کرے اور تمہاری بُرائی تمہیں غمگین کرے تو تم مؤمن ہو۔ پھر انہوں نے عرض كی کہ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! گناہ کیا ہے؟ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب تمہارے دل میں کوئی چیز کھٹکے تو تم اس چیز کو چھوڑ دو۔ ([i])
* باہمی اُلفت ، ہم آہنگی اور آپسی ماحول کی خوشگواری بھی اللہ کریم کی ایک بڑی نعمت ہے ، اس نعمت کے ہوتے ہوئے ڈپریشن (Depression) ، ذہنی تناؤ ، بِلاوجہ کے غصّے اوربداَخلاقی جیسی آزمائشوں سے بچت رہتی ہے۔ دونوں جہاں کے سلطان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک حکمتِ عمَلی اور فکرِ کامل پر قربان جائیے کہ اوصافِ مؤمن کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ “ بے شک مؤمن اُلفت کرنے والا ہوتا ہے۔ اور اس شخص کے اندر کوئی بھلائی نہیں جو دوسروں سے اُلفت نہیں کرتا اور نہ ہی اس سے اُلفت کی جاتی ہے۔ “ ([ii])
* مسلمانوں کی باہمی مَحبّت ، فریادرَسی ، دُکھ تکلیف ، ایک دوسرے کا احساس کرنے کو بھی اوصافِ ایمان میں شامل کیا گیا ہے ، حدیثِ پاک میں ایک دوسرے پر رحم کرنے ، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہَرہ کرنے میں مؤمنین کو ایک جسم کی مانند فرمایا گیا ہے کہ “ جب جسم کے کسی حصّہ کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس درد میں شریک ہوتا ہے۔ “ ([iii])
* تواضُع اور عاجزی مؤمن کے لئے ایسا ہتھیار ہے کہ دنیا کی جہالت ، تکبّر ، غرور جیسی آندھیوں میں بہت کام آتا ہے۔ مؤمن سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ والا نہیں ہوتا بلکہ نرم پودے کی طرح لچکدار ہوتا ہے۔ اللہ کریم کے پیارے حبیب جنابِ محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بات کو بڑی ہی پیاری مثال سے سمجھایا کہ “ مؤمن کی مثال کھیت کے نرم پودے کی طرح ہے کہ جدھر سے بھی ہوا چلتی ہے اس کے پتے جھک جاتے ہیں اور جب ہوا رُک جاتی ہے تو اس کے پتے بھی معتدل ہوجاتے ہیں اسی طرح مؤمن کو آزمائشوں میں بچا لیا جاتا ہے لیکن کافر کی مثال شمشاد کے سخت درخت کی طرح ہے جو ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے حتی کہ اللہ پاک جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ دیتا ہے۔ “ ([iv])
پیارے اسلامی بھائیو! یہاں جن احادیثِ کریمہ کی روشنی میں مؤمنِ کامل کے اوصاف کا ذِکْر ہوا ، اسے اِجمالی طور پر یوں سمجھئے کہ اللہ و رسول پر ایمان لانے کے بعد ہر شے یہاں تک کہ والدین ، اولاد اور اپنی جان سے بھی بڑھ کر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مَحبّت کرنا ، اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو محفوظ رکھنا ، دوسروں کو کھانا کھلانا ، ہر جاننے والے اور نہ جاننے والے کو سلام کرنا ، اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی اچّھی چیز پسند کرنا ، شرم و حیا سے کام لینا ، پڑوسی اور مہمان کی عزّت کرنا ، حُسنِ اَخلاق سے کام لینا ، بُرائی کو بُرا سمجھنا ، باہم اُلفت و مَحبّت سے رہنا اور عاجزی و اِنکساری اختیار کرنا وہ عظیم اوصاف ہیں جو ہمیں مؤمن سے مؤمنِ کامل بناسکتے ہیں۔
ان تمام اوصاف پر اگر غور کیا جائے تو ایک بات ہر وصف میں یکساں نظر آتی ہے وہ یہ کہ زندگی میں دوسروں کے ساتھ کئی معاملات میں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ہمارا یہ تعلّق و واسطہ شدّت یا نرمی کے رویّہ پر مبنی ہوتا ہے۔ بندے کی دوسروں کے ساتھ شدّت و نرمی کی ایک وجہ باہم بندوں کے معاملات کو اہمیت دینا یا نہ دینا بھی ہے ، مؤمن کامل بندوں کے معاملات کو اپنے جیسا نہیں بلکہ اللہ کے بندوں کا معاملہ سمجھے تو رزلٹ بہت مثبت آئے گا۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ مؤمنِ کامل کے اوصاف کو اپنائیں اور ان کو اپنی عملی زندگی کا حصّہ بنانے کے لئے مخلوقِ خدا کے ساتھ ہر معاملے کو اللہ ربُّ العزّت کی مخلوق کا مُعاملہ سمجھیں تاکہ ہم غرور و تکبّر اور بِلاوجہ کی شدّت سے بچ سکیں اور مؤمنِ کامل بن سکیں۔ اللہ کریم ہمیں مؤمنِ کامل بنائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…ناظم ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments