ڈر نہ پھیلائیں!

گزشتہ کچھ ماہ سےپھیلے ہوئے کرونا وائرس(Covid-19) کے سبب پوری دنیا ایک عجیب خوف اور ڈر میں مبتلا ہے۔ دنیا کے حالات و حالیہ سنسنی خیزصورتِ حال سے واقف ہر شخص کسی نہ کسی حد تک متأثر نظر آرہا ہے۔ کوئی ڈرا ہوا ہے ، کوئی ڈرا رہا ہے ، کوئی ڈرنے اور ڈرانے والوں کو کوس رہا ہے جبکہ کہیں اس صورتِ حال پرطرح طرح کے تبصرے جاری ہیں ۔ میڈیا کے بعض ذرائع اور عوامی بیٹھکوں میں تو لوگوں نے ڈر اور خوف پھیلانے کو نہ جانے اپنی اولین ذمہ داری سمجھ رکھا ہے ، کیسی کیسی بے بنیاد ، جھوٹی خبریں سنسنی انداز میں پھیلائی جاتی ہیں اور کہیں اگرکوئی سچی خبر بھی ہوتی ہے تو اس میں اس انداز سے ڈر بھر دیا جاتاہے کہ اچھے بھلے سمجھ دار لوگ بھی خوف کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ دنیا میں کرونا وائرس سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ، مہلک اورتکلیف دہ بیماریاں موجود ہیں ، ماضی میں بھی سینکڑوں ایسے امراض آئے اورچلے گئے جن سے اموات بھی ہوئیں اور نقصان بھی ہوا۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہر آدھے گھنٹے یا گھنٹے بعد سنسنی خیز خبریں دینے اور سننے سے کرونا وائرس کنٹرول ہوجائے گا! کیا ہر ملنے والے سے اس جملے “ ارے یار حالات بہت خراب ہو گئے ہیں “

 کا اظہار اس وائرس کا اینٹی ڈوٹ (antidote)ہے! نہیں! ہرگز نہیں!

 لیکن یاد رکھئے کہ اس انداز سے ہم خود کو اور اپنے چاہنے والوں اور پیاروں کو بلاوجہ انجانے خوف میں مبتلا کررہے ہیں۔

اے عاشقانِ رسول !ڈر اور خوف ایسی کیفیت ہے کہ اس سےاچھے بھلے صحت مند انسان کی بھی جان جاسکتی ہے جبکہ کسی بھی مرض یا حادثے سے بے خوف ہونا اور حوصلہ مند رہنا بہت مفید ثابت ہوتاہے۔

دوحیرت انگیز واقعات: (1)کہتے ہیں کہ ایک مجرم کو سزائے موت سنائی گئی ، اسے بولا گیا کہ تمہیں “ کوبرا “ سانپ سے ڈسوائیں گے۔ اس کے دل میں یہ خوف بیٹھا ہوا تھا کہ اگر کوبرا سانپ کاٹ لے تو بندہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسے کوبرا سانپ دکھاکر ، آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور کہا گیا کہ تھوڑی دیر بعد تجھے یہ سانپ ڈَسے گا جس سے تُو مر جائے گا ۔ اب مجرم نے یہ‌ذہن بنالیا کہ جیسے ہی سانپ نے مجھے ڈسنا ہے ، میری موت واقع ہوجانی ہے۔ کچھ دیر بعد اس کے بدن پر سُوئی (Needle)چبھوئی گئی ، وہ زورسے چِلّایا اوردم توڑ گیا۔ میڈیکل رپورٹ میں آیا کہ اس کی موت ڈر کے باعث ہونے والا ہارٹ اَٹیک ہے۔ (2)گجرات(پاکستان) کے ایک عالمِ دین نے لکھا کہ ہمارے ہمسائے(Neighbor) کا اتنا سخت ایکسیڈنٹ(Accident)  ہوا تھا کہ آنتیں تک باہر نکل آئی تھیں۔ وہ تقریباًدو ماہ تک قومے کی حالت میں رہا اور 6ماہ تک زیرِ علاج رہا ، لیکن آج میں نے اسے ٹھیک ٹھاک گاڑی چلاتے دیکھاہے ۔

پیارے اسلامی بھائیو!ظاہری حقیقت تو یہ ہے کہ سُوئی چبھنے سے کوئی مرتا نہیں ، جبکہ ایکسیڈنٹ موت کا سبب بنتے رہتے ہیں ، لیکن مذکورہ دو واقعات اس حقیقت کے عَین اُلٹ ہیں۔ اس کا ظاہری سبب یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے اوپر سانپ کا خوف مسلط کرلیا وہ ڈَنک کے بغیر ہی‌ہلاک ہوگیا ، اورجو خوف میں مبتلا نہیں ہواوہ ایکسیڈنٹ کے باوجود بھی بچ گیا ۔ اللہ کریم ہمیں عافیت عطافرمائے !

پیارے اسلامی بھائیو! یادرکھئے  کوئی بھی بیماری ، فتنہ یا آزمائش وغیرہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو ، اِس کا خوف بلاوجہ خود پر مُسَلَّط کرلینا نادانی ہے۔ جس کی موت جس حال میں لکھی جا چکی ہے وہ ویسے ہی مرے گا ، چاہے ڈرے یا نہ ڈرے ۔ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنی سچی بات ارشاد فرمائی ہے کہ “ جو کچھ تیرے ساتھ ہونے والا ہے ، اسے لکھ کر قلم خشک ہوگیا۔ “ ([i]) اس لئے اپنے کرم والے رب سےامید رکھیں وہ بہتر ہی کرے گا۔ بیماریوں اوروباؤں کےسبب خود کونفسیاتی مریض بنانےکے بجائے قیامت کےدن کی ہولناکیوں کو یاد کرکے اپنے آپ کو آخرت کی تیاری میں لگادیناچاہئے اور صرف اللہ کریم سے ڈرنا چاہئے۔

وہ ایک خوف جو ہر خوف کو مٹا دے گا:قراٰنِ کریم میں کئی مقامات پر صرف اللہ کریم ہی سے ڈرنے کا فرمایا گیا ہے۔ لہذاہرایک کو صرف خداسےہی ڈرناچاہئے ، جواللہ پاک سے ڈرتاہےاللہ کریم اسےدنیامیں ہرچیز کےخوف سےبےنیاز کردیتاہے اورآخرت میں بھی اسے امن نصیب ہوتاہے۔ اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے ، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو اللہ کے سواکسی سے ڈرتا ہے تو اللہ اسے ہر شے سے خوف زدہ کرتا ہے ۔ ([ii])

ایک حدیثِ قُدْسِی میں ہے کہ اللہ کریم فرماتا ہے ، “ مجھے

اپنی عزّت وجَلال کی قسم ! میں اپنے بندے پر دو خوف جمع نہیں

 کروں گا اور نہ اس کے لئے دو امن جمع کروں گا ، اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلا کروں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا ۔ “ ([iii])

اگر کوئی خطرناک بیماری آبھی جائے تو مسلمانوں کو سنّت کی نیت سے اس کا علاج کرنا چاہیے ، اپنے اوپر اس کا ڈر مسلط نہیں کرلینا چاہیے۔ موت کا خوف اس لئے نہیں ہونا چاہئے کہ “ ہائے میں مرجاؤں گا تو پیچھے والوں کا کیا ہوگا! “ بلکہ موت کا خوف اس لئے ہونا چاہئے کہ “ میں مرگیا تو قبر و حشر میں میراکیا بنے گا! “ مؤمن کو یہ ذہن بھی بنانا چاہئے کہ موت اللہ پاک کے دیدار اور پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کا سبب بنے گی۔

بڑوں کی بڑی بات ہوتی ہے :شیخُ المحدثین علامہ سیّد دیدار علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ میت سے پوچھے جانے والے سوالات والی حدیث پاک پڑھارہے تھے ، اس میں : “ ماکنت تقول فی ھذالرجل

 (تم اس شخص کے بارے میں  کیا کہا کرتے تھے ؟)آیا ، تو روپڑے اور فرمانے لگے : “ جب میں یہ حدیث پڑھتا یاسنتا ہوں ، تومیرا مرجانے کو دل چاہتا ہے۔ “ تاکہ حضور کا دیدار ہوجائے۔ ([iv])

رُوح نہ کیوں ہو مُضطَرِب موت کے اِنتِظار میں

سُنتا ہوں مجھ کو دیکھنے ، آئیں گے وہ مَزار میں!

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ رمضانُ المبارک کے مقدس مہینے میں پابندی سے روزے رکھئے ، نمازیں پڑھئے ، ڈر صرف اللہ کا رکھئے اور بیماریوں ، مصیبتوں ، بلاؤں سے حفاظت کیلئے دوا ، علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ دونوں جہاں کے  رب کی بارگاہ میں دعا اور توبہ و استغفار کرتے رہئے۔ اللہ کریم ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ اٰمین



([i] ) بخاری‌ ، 3 / 425 ، حدیث : 5076

([ii] ) شعب الایمان ، 1 / 541 ، رقم : 984

([iii] ) شعب الایمان ، 1 / 483 ، حدیث : 777

([iv] ) سنّی علما کی حکایات ، ص177ماخوذاً.


Share