کوئی پہنچانہ نبی رُتبۂ عالی کو ترے
مرحباخُلد کی زنجیر ہِلانے والے ([1])
الفاظ و معانی:رُتبہ : عزت ، حُرمت ، درجہ ، مقام۔ عالی : اُونچا ، بلند۔ مرحبا : کلمۂ تَحسین ، واہ وا۔ خُلد : جنّت۔
شرح:مجدِّدِاَعظم ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر کے پہلے مِصرعے میں ایک اسلامی عقیدہ اور دوسرے مِصرعے میں سرکارِدوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک خصوصیت کا ذکر فرمایا ہے۔ گویا امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ عرض کرتے ہیں کہ یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! اللہ رب العزّت نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس قَدر عظمت و بلند مقام عطا فرمایا ہے کہ اَفضل تَرین مخلوق اَنبیائے کرام علیہمُ السَّلام میں سے کوئی نبی علیہ السَّلام بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بلند و بالا مقام اور مرتبے تک نہ پہنچا۔ مرحبا اے میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آپ ہی تو وہ مُحسنِ اَعظم ہیں جو قِیامت کے دن جنّت کی زنجیر (chain) ہِلا کر ، اُس کا دروازہ کُھلوا کر اپنے غلاموں کو جنّت میں داخل کروائیں گے۔ اِن دونوں باتوں سے متعلق دو روایتیں ملاحظہ ہوں :
(1)مخلوق میں سب سے افضل ذات: حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن سَلام رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : اِنَّ اَکْرَمَ خَلِیْقَۃِ اللّٰہِ عَلَی اللّٰہِ اَبُوالْقَاسِم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم یعنی بےشک اللہ پاک کے نزدیک ساری مخلوق سے زیادہ مرتبے اور وَجاہت والے ابو القاسم (یعنی
رسولِ مکرَّم) صلَّی اللہ علیہ وسلَّم ہیں۔ ([2])
(2)جنّت کی زنجیر:محبوبِِ خُدا ، بزمِ جنّت کےدُولہا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی شان کو یوں بیان فرماتےہیں : اَنَا اَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حلَقَ الجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللّٰهُ لِيْ فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلاَ فَخْرَ یعنی میں وہ پہلا ہوں جو جنّت کی زنجیر ہلائے گا ، تب اللہ کریم میرے لئے اُسے کھولے گا پھر اُس میں مجھے داخل کرے گا اور میرے ساتھ فُقرا مسلمان ہوں گے ، یہ بات فخریہ نہیں کہتا۔ ([3])
شرحِ حدیث:حکیمُ الاُمّت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس فرمانِ رسالت کی تشریح فرماتے ہیں کہ سارے نبی اور اُن کی اُمتیں جنّت کے دروازے پر حُضورِ اَنور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) سے پہلے پہنچ جائیں گے ، حُضورِ اَنور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) اپنے گنہگاروں کو بخشوانے ، نیکوں کےہلکےپَلے بھاری کرانے ، (پُل) صِراط پر گِرتوں کو سنبھالنے میں مصروف ہوں گے مگر دروازۂ جنّت بند ہوگا۔ داروغۂ جنّت (جنّت کا نگران) دروازے کے اندر ہوگا ، کسی کو زنجیر ہِلانے بجانے کی جرأت نہ ہوگی ، ہمت و جرأت والےنبی کاانتظارہوگا۔ حُضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پہنچ کر دروازہ کُھلوائیں گے۔ ([4])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*…مُدَرِّس جامعۃالمدینہ فیضانِ اولیا ، کراچی
[1] حدائقِ بخشش ، ص484
[2] الخصائص الکبریٰ ، 2 / 341
[3] ترمذی ، 5 / 355 ، حدیث : 3636
[4] مراٰۃالمناجیح ، 8 / 27
Comments