شرکت کے کاروبار میں نفع نقصان کا تناسب طے کرنا / چھوٹے پیشے والوں کو حقیر مت سمجھئے

شرکت کے کاروبار میں نفع نقصان کا تناسب طے کرنا

سوال: کیا فرماتے ہیں عُلَمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تین اشخاص (سیّد سلمان زیدی، سیّد جنید علی اور ملک زید) شراکت کے ساتھ موبائل اسیسریز(Accessories) کا کاروبار کرنا چاہ رہے ہیں جس کی شرائط وضوابط درج ذیل ہیں: (1)سیّد سلمان زیدی چار لاکھ روپے، سیّد جنید علی ایک لاکھ 35 ہزار روپےاور ملک زید 50 ہزار روپے انویسٹ کرے گا، اورتمام تر کام ملک زید کرے گا۔ (2)35 دن بعد حساب ہوا کرے گا۔ (3)کاروبار میں جو نفع نقصان ہوگا، تینوں شریک اس کے ذمہ دار ہوں گے ۔ (4)نفع میں تینوں برابر کے شریک ہوں گے، اسی طرح نقصان کے بھی تینوں برابر کے ذمہ دار ہوں گے۔ (5)کام چھوڑنے کی صورت میں جس جس شریک کی جتنی جتنی رقم انویسٹ ہے پہلے وہ سب کو واپس کی جائے گی اور پھر باقی جو رقم بچے گی وہ تینوں میں برابر تقسیم کی جائے گی۔ (6)تینوں کی رضا مندی کے ساتھ منافع کا 10 فیصد حصّہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے گا۔

ہماری راہنمائی فرمائی جائے کہ کیا یہ شرائط درست ہیں؟ اگر ان میں کوئی خامی ہو تو بتائی جائے تاکہ اس کو درست کرکے ہی معاہدہ کیا جائے۔ سائل: سید جنید علی (مدینۃ الاولیاء ملتان روڈ،لاہور)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں مذکور کاروبار کے طریقہ میں شرط نمبر 4 کا یہ حصّہ ’’نقصان کے بھی تینوں برابر کے ذمّہ دار ہوں گے ‘‘درست نہیں ہے کیونکہ نفع کی مقدار تو برابر رکھی جاسکتی ہے لیکن نقصان تینوں شرکاء کے اصل سرمایہ کے تناسب کے لحاظ سے ہوگا یعنی جس نے زیادہ پیسے لگائے ہیں اس کا نقصان بھی زیادہ ہوگا اور جس نے کم پیسے لگائے ہیں اس کا نقصان بھی کم ہوگا۔اس کے علاوہ باقی شرائط درست ہیں۔

اَلْاِخْتِیَار لِتَعْلِیْلِ الْمُخْتَار میں ہے :ترجمہ: جب دونوں کے مال برابر ہوں اور دونوں نفع و نقصان میں کمی زیادتی کی شرط لگائیں تو نفع ان کے طے شدہ حساب سے ہوگا اور نقصان دونوں مالوں کی مقدار کے لحاظ سے ہوگا۔ حضور علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے ارشاد فرمایا: نفع دونوں کے طے شدہ حساب سے اور نقصان دونوں مالوں کی مقدار سے ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار،ج 3،ص16)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:ترجمہ: اگر ان میں سے ایک کا رأس المال (سرمایہ) کم ہو اور دوسرے کا زیادہ اور دونوں نے آپس میں نفع کی برابری یا زیادہ کی شرط لگائی تو نفع ان کے درمیان طے شدہ حساب سے ہوگا اور نقصان ان کے مالوں کی مقدار کے لحاظ سے ڈالا جائے گا جیسا کہ سراج الوھاج میں ہے۔ (فتاویٰ ہندیہ ،ج 2،ص320)

بہارِشریعت میں ہے: ’’نفع میں کم و بیش کے ساتھ بھی شرکت ہوسکتی ہے مثلاً ایک کی ایک تہائی اور دوسرے کی دو تہائیاں اور نقصان جو کچھ ہوگا وہ رأس المال(سرمائے) کے حساب سے ہوگا اسکے خلاف شرط کرنا باطل ہے۔‘‘(بہارشریعت، حصہ: 10،ج2 ،ص491)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

شرکت کے کاروبار میں ایسے شخص کو شریک کرنا جو وقتِ عقد نہ ہو

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر شرکت پر کاروبار کیا ہے، ہم دونوں نے برابر روپے ملاکر اَچار خریدا ہے اور ہمارے درمیان نفع آدھا آدھا طے ہوا ہے، ابھی سامان بیچنا شروع نہیں کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے حصّے میں سے آدھے میں اپنے بھائی کو شریک کرلوں یعنی آدھے سامان کا مالک میرا دوست رہے بقیہ ایک چوتھائی کا میں مالک رہوں اور ایک چوتھائی کا میرا بھائی مالک ہوجائے، دوست بھی اس پر راضی ہے اور ہم میں نفع بھی اسی حساب سے تقسیم ہوجائے تو اس کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟

نوٹ: ہمارے درمیان یہ طے ہے کہ اچار خرید کر وہ دوست لائے گا اور اچار بیچنے کے لئے جو اسٹال لگائیں گے اس پر ہم دونوں باری باری بیٹھیں گے یعنی بیچنے میں دونوں کام کریں، اسی طرح اگر تیسرے کو شریک کرتے ہیں تو پھر بھی یہی ہوگا کہ خریداری کا کام صرف میرا دوست کرے گا لیکن بیچنے کا کام ہم تینوں باری باری کریں گے۔سائل:محمد وقاص (بادامی باغ،مرکزالاولیاء لاہور)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

تیسرے شخص (یعنی بھائی) کو اپنے ساتھ شریک کرنے کا آسان طریقہ تو یہ ہے کہ آپ سارا اچار بیچ لیں، جب رقم کی صورت میں مال آجائے تو آپ دونوں تیسرے شریک کو شامل کرلیں اور جس تناسب سے رقم ملانا چاہیں ملالیں اور پھر اس مکمل رقم سے کاروبار کرلیں۔ اور آپس میں نفع کا تناسب طے کرلیں۔

اور اگر آپ اسی حالت میں اپنے بھائی کو شریک کرنا چاہیں تو ا س کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس اَچار میں اپنے حصے میں سےآدھا حصہ اسے بیچ کر اس سے قیمت لے لیں، مثلاً آپ اس طرح کہیں: میں نے اس اچار میں اپنے حصے میں سے آدھا حصہ آپ کو اتنے روپے کے بدلے بیچا۔ وہ کہے: میں نے قبول کیا۔ اس کے بعد آدھے سامان کا مالک آپ کا دوست ہوگا، ایک چوتھائی کے آپ مالک ہوں گے اور ایک چوتھائی کا مالک آپ کا بھائی ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس نئے شریک کے ساتھ عقدِ شرکت کرلیں اور ایک چوتھائی نفع اس کے لیے مقرّر کردیں (جیساکہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے) اگر کبھی نقصان ہوا تو وہ ہر ایک کا اس کی ملکیت کے تناسب کے لحاظ سے ہوگا۔

درمختار میں ہے ’’لا یملک الشریک (الشرکۃ) الا باذن شریکہ۔

جوہرۃ‘‘ ترجمہ: شریک مزید کسی کے ساتھ شرکت کا مالک نہیں مگر دوسرےشریک کی اجازت کے ساتھ۔ جوہرہ(یہ کتاب کا نام ہے۔)(در مختار مع رد المحتار،ج6،ص487)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے،ترجمہ: جب گندم یا وزنی چیز دو شخصوں کے درمیان مشترک ہو پھر ان میں سے ایک نے اپنا حصّہ اپنے شریک یا اجنبی کو بیچا تو ہم کہتے ہیں کہ جب شرکت میراث یا خریداری یا ہبہ کے سبب ہو تو ان میں سے ایک کا اپنا حصّہ شریک کو بیچنا اور شریک کی اجازت کےساتھ اجنبی کو بیچنا جائز ہے اور یہ شریک کے حصّے میں تصرّف کا مالک نہیں ہے، فتاویٰ صغریٰ میں اسی طرح ہے۔(فتاویٰ عالمگیری،ج3،ص155 )

درمختار میں ہےترجمہ: اگر کسی نے کہا مجھے اس (میں) شریک کرلو اس نے کہا: کرلیا پھر دوسرا شخص ملا اور اس نے بھی اس طرح کہا اور اسے بھی نَعَم (یعنی ہاں)کے ساتھ جواب دیا گیا،اگر تو یہ دوسرا قائل پہلی شرکت کو جانتا ہے تو اس کا چوتھائی ہوگا اور اگر نہیں جانتا تو اس کا نصف ہوگا کیونکہ اسے مکمّل شے میں شرکت مطلوب ہے اور اس وقت غلام پہلے شخص کی ملکیت سے نکل جائے گا۔ (درمختار ،ج6،ص502)بہارِ شریعت میں ہے: ’’ایک شخص نے کوئی چیز خریدی ہے دوسرے نے کہا مجھے اس میں شریک کرلے اُس نے منظور کرلیا پھر تیسرا شخص اُسے ملا اس نے بھی کہا مجھے اس میں شریک کرلے اور اس کو شریک کرنا بھی منظور کیا تو اگر اس تیسرے کو معلوم تھا کہ ایک شخص کی شرکت ہوچکی ہے تو تیسرا ایک چوتھائی کا شریک ہے اور دوسرا نصف کا اور اگر معلوم نہ تھا تو یہ بھی نصف کا شریک ہوگیا یعنی دوسرا اور تیسرا دونوں شریک ہیں اور پہلا شخص اب اُس چیز کا مالک نہ رہا اور یہ شرکت شرکتِ ملک ہے۔‘‘ (بہار شریعت ، حصہ: 10،ج 2،ص515)

درمختار میں ہے:ترجمہ: نقدین (یعنی درہم ودینار) کے علاوہ سامان میں شرکت صحیح ہے اگر ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اپنے سامان کا نصف دوسرے کے سامان کے نصف کے بدلے بیچ دے پھر وہ دونوں اس میں شرکتِ مُفَاوَضَہ یا شرکتِ عِنَان کرلیں۔

رد المحتار میں ہے :ترجمہ: اسی طرح اگر دراہم کے بدلے سامان بیچا پھر اس سامان میں عقدِ شرکت کرلیا تو یہ بھی جائز ہے۔(رد المحتار ،ج6،ص476)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…دارالافتا ء اہل سنت ،مرکز الاولیا ء لاہور


Share

شرکت کے کاروبار میں نفع نقصان کا تناسب طے کرنا / چھوٹے پیشے والوں کو حقیر مت سمجھئے

رزقِ حلال کمانے کے لئے بزرگوں کی ایک کثیر تعداد نے چھوٹا موٹا ذریعۂ آمدنی اپنا کر گزر بسر کا انتظام کیا ہےلیکن آج کے ہمارے اس معاشرے میں بسااوقات چھوٹے پیشے اختیار کرنے والوں کو توہین آمیز اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کےساتھ غصّے، تُو تڑاق،اَبے تَبے اور گالی گلوچ سے پیش آیا جاتا ہے، حالانکہ شریعت میں آدمی کے مقام و مرتبے اوراس کے معزّز و مکرّم ہونے کا تعلق اس کی دین داری، تقویٰ و پرہیزگاری اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّمکی اطاعت و فرمانبرداری سے ہے۔ دین دار اور نیک سیرت پیشہ وَر کو نظرِ حقارت سے دیکھنا اوراسے کمتر جاننا جاہلانہ فعل اور کفار کا طریقہ ہے،چنانچہ قراٰنِ مجید میں اللہ پاک کے پیا رے نبی حضرت سیّدُنا نوح علیہ السلام کے دور کے کفّار کا قول اس طرح مذکورہے:( وَ مَا نَرٰىكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِۚ-)ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے۔(پ12، ھود:27)تفسیر خزائن العرفان میں ہے:کمینوں سے مراد ان کی وہ لوگ تھے جو ان کی نظر میں خَسِیس(بے وقعت) پیشے رکھتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ قول جہلِ خالص تھا۔ آج بنتا ہوں معزّز جو کُھلے حشر میں عیب چھوٹا موٹا پیشہ اختیار کرنے سے آدمی کی عزت کم نہیں ہوتی،جس کسبِ حلال میں دوسروں کا احسان نہ ہو اس میں انسان کی خود داری قائم رہتی ہے لیکن افسوس عزت اور ذِلّت کا معیار اور اس کے پیمانے تبدیل ہو گئے ہیں۔ سودی کاروبار کرنے والے اور ناجائز و حرام ذرائع سے مال بنا نے والے عزت دار سمجھے جاتے ہیں حالانکہ ایسے لوگ اللہ پاک کو سخت ناپسند ہیں اور حشر میں انہیں رُسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن جو بےچارہ، موچی، ریڑھی لگانے والا،قلفی بیچنے والا، چپس کا ٹِھیا لگانے والا، رکشہ،ٹیکسی یا بس چلانے والا وغیرہ ہو اسے بدقسمتی سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے بزرگانِ دین چھوٹے موٹے پیشوں کو اختیار کرنے میں بالکل بھی عار(شرم) محسوس نہیں کرتے تھے، چنانچہ ٭حضرت سیّدُنا سَرِی سَقَطِی رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ قادریہ رضویہ عطاریہ کے بہت بڑے بزرگ، حضرت سیّدُنا معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے مریدِ خاص اور حضرت سیّدُنا جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جیسے صوفیا کے امام کے استاد تھے۔آپ کے نام کے ساتھ’’سَقَطِی‘‘ اس لئے آتا ہے کہ آپ نے ابتدا میں سَقَط (یعنی معمولی اور چھوٹی موٹی چیزیں) بیچنے کا کام بھی کیا ہے۔ (تذکرۃ الاولیاء، جزء1، ص246، سیر اعلام النبلاء،ج10،ص148) جسے اردو میں چھابڑی فروش کہتے ہیں۔٭ مفسرِ قراٰن امام ابو بکر احمد بن علی رازی جصّاص رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت میں حنفیوں کے امام تھے، آپ کے نام کے آگے’’جصّاص‘‘ اس لئے لگتا ہے کہ آپ چونے کا کام کرتے تھے۔(احکام القراٰن،ج1،ص3) جصّاص کا مطلب ہے: چونا بنانے والا یا اسے بیچنے والا۔ ٭علامہ احمد بن محمد بن احمد قُدوری رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے فقیہ تھے۔آپ کی کتاب ’’مُخْتَصَرُ الْقُدُورِی ‘‘ بہت عظیم کتاب ہے اور درسِ نظامی (عالم کورس) میں پڑھائی جاتی ہے۔آپ کے نام کے ساتھ ’’قُدوری‘‘ اس لئے آتا ہے کہ آپ مٹی کے برتن بناتے یا بیچتے تھے۔ قُدوری کا معنی ہے: مٹی کی ہنڈیا بیچنے والا۔ (التجرید،ج1،ص6،7۔ لب اللباب فی تحرير الانساب،ج1،ص204)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں لوگوں کو حقیر اور کمتر جاننے سے بچائے اور عاجزی و انکساری اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…ماہنامہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code