کیا
اولیائے کرام بھی شفاعت کریں گے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ
کیا قیامت کے دن اولیاء اللہ بھی شفاعت کریں گے؟
میں نے سنا ہے کہ صرف پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شفاعت کریں گے۔
( سائل :اویس رضامدینۃ الاولیاءملتان)
بِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قیامت کے دن اولیاءِ
کرام، علماء، حفاظ، حجاج سب شفاعت کریں گے بلکہ ہر وہ شخص کہ جسے دینی منصب عطا کیا
گیا ، اپنے متوسلین و متعلقین کی شفاعت
کرے گا۔ سیّدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرَّحمہ نے یہاں ایک نفیس
نکتہ یہ بیان فرمایا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضورشفاعت کرنے والے، نبیِّ مکرَّم، رحمتِ
عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہوں گے اور مخلوق میں شفاعت کرنے والے باقی سب
اپنے متعلقین کی شفاعت،حضور کی بارگاہ میں پیش کریں گے۔ بہر صورت وہ بھی شفاعت
ضرور فرمائیں گے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں شفاعت لانا بھی شفاعت ہی ہے، اس
سے خارج نہیں ۔
المعتقد المنتقد میں
ہے :”ویجب
الایمان بانہ یشفع غیرہ ایضا من الانبیاء و الملائکۃ و العلماء و الشھداء و الصٰلحین
و کثیر من المومنین وغیرھم من القرآن و الصیام و الکعبۃ وغیرھا مما ورد فی السنۃ۔ اور اس بات پر ایمان بھی واجب ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ دیگر انبیاء، فرشتے، علماء، شہداء، نیک لوگ اور
کثیر مومنین اور ان کے علاوہ قرآن پاک، روزہ، کعبہ، وغیرہا وہ چیزیں کہ جن کی
شفاعت کا احادیث میں ذکر ہوا ، وہ تمام بھی شفاعت کریں گی۔“(المعتقد المنتقد، صفحہ 129)
صدرالشریعہ مفتی امجد
علی اعظمی علیہ الرَّحمہ محشر کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اب(یعنی شفاعت کا دروازہ کھلنے کے بعد ) تمام انبیاء اپنی امت کی
شفاعت فرمائیں گے، اولیائے کرام، شہدا، علما، حفاظ، حجاج ، بلکہ ہر وہ شخص جس کو
کوئی منصبِ دینی عنایت ہوا ، اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرے گا۔ نابالغ بچے جو
مرگئے ہیں، اپنے ماں باپ کی شفاعت کریں گے، یہاں تک کہ علما کے پاس کچھ لوگ آکر
عرض کریں گے، ہم نے آپ کے وضو کے لیے فلاں وقت میں پانی بھردیا تھا، کوئی کہے گا
:کہ میں نے آپ کو استنجے کے لیے ڈھیلا دیا تھا ،علما ان تک کی شفاعت کریں گے۔(بہار شریعت،ج1،ص139تا141)
حضور جانِ عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ باقی تمام مخلوق حتّٰی کہ انبیاءِ کرام علیہمُ
السَّلام بھی اپنی
شفاعت،حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش کریں گے کہ ان کی شفاعتوں کے
مالک بھی حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔چنانچہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :”اذا
کان یوم القیٰمۃ کنت امام النبیین و خطیبھم و صاحب شفاعتھم غیر فخر۔“ترجمہ :جب قیامت کا دن ہوگا تو میں انبیاء کا امام اور
ان کا خطیب ہوں گا اور میں ان کی شفاعت کرنے والا ہوں ۔ یہ بات بطورِ فخر نہیں
فرما رہا۔ (ترمذی،ج5،ص353، حدیث:3633
)
اس حدیثِ پاک کا نفیس
و لطیف معنی بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ
الرَّحمہ
فرماتے ہیں:”و المعنی الآخر الالطف الاشرف ان
لاشفاعۃ لاحد بلاواسطۃ عند ذی العرش جل جلالہ الا للقرآن العظیم و لھذا الحبیب
المرتجی الکریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، واما سائر الشفعاء من الملائکۃ
والانبیاء والاولیاء والعلماء و الحفاظ و الشھداء و الحجاج و الصلحاء ،فعند رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فینھون الیہ و یشفعون لدیہ وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
یشفع لمن ذکروہ ولمن لم یذکروا عند ربہ عزوجل وقد تاکد عندنا ھذا المعنی باحادیث۔ وللہ الحمد“ ترجمہ:اس حدیث پاک
کادوسرا معنیٰ کہ جو زیادہ لطیف و شریف ہے وہ یہ
ہے کہ مالکِ عرش اللہ جلَّ جلالہ کی بارگاہ میں بلا واسطہ شفاعت کا حق صرف قرآنِ عظیم اور حبیبِ کریم کہ جن سے امیدیں
لگی ہوئی ہیں اِنہی کو حاصل ہے، ان کے
علاوہ کسی کو نہیں ۔اس کے علاوہ باقی شفاعت کرنے والے یعنی ملائکہ، انبیاء، اولیاء،
علماء، حفاظ، شہداء، حجاج ، صالحین کی شفاعت تو وہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ہوگی تو وہ حضور کی بارگاہ میں بات
پہنچائیں گے اور شفاعت لائیں گے اور حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان مذکورین اور ان کے علاوہ جو مذکور نہیں، ان کی
شفاعت، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں فرمائیں گے ۔ہمارے نزدیک یہ معنی کئی
احادیث سے مؤکدہے۔وللہ الحمد(المستند
المعتمد مع المعتقد المنتقد، ص127)
فتاویٰ رضویہ شریف میں
اعلیٰ حضرت علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں :احادیث سے ثابت
ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم صاحبِ شفاعت ہیں، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضوروہ شفیع ہوں گے اور ان کے حضور علماء و
اولیاء اپنے متوسلوں کی شفاعت کریں گے۔ (فتاویٰ رضویہ،ج21،ص464 )
صدرالشریعہ مفتی امجد
علی اعظمی علیہ الرَّحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”قیامت کے دن مرتبۂ شفاعتِ کبریٰ
حضور(صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے
خصائص سے ہے کہ جب تک حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)فتحِ بابِ شفاعت نہ
فرمائیں گے کسی کو مجالِ شفاعت نہ ہوگی بلکہ حقیقۃ ً جتنے شفاعت کرنے والے ہیں،حضور( صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کے دربار میں شفاعت لائیں گے
اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حضور، مخلوقات میں صرف حضور (صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) شفیع
ہیں ۔ “ (بہار شریعت،ج1،ص70 )
وَاللہُ
اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
عبدہ
المذنب
ابوالحسن فضیل رضا العطاری
کیا زندوں کو ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ نیک اعمال کا
ثواب ایصال کرنا فقط مُردوں کے ساتھ خاص ہے یا زندہ لوگوں کو بھی کر سکتے ہیں ،یعنی
ہم کوئی نیک کام کرنے کے بعد وہ ثواب زندوں اور مُردوں دونوں کو پہنچا سکتے ہیں یا
فقط مُردوں کو؟براہِ کرم اس بارے میں حکمِ شرعی سے آگاہ فرمائیں ۔
(سائل
:تبسم بخاری، ڈھوک حسّو،راولپنڈی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی بھی نیک عمل مثلاً
نماز،روزہ ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ کا ثواب جس
طرح فوت شدہ مسلمانوں کو کرسکتے ہیں ،اسی طرح زندوں کو بھی کر سکتے ہیں اور اس کا
ثبوت حضور صلَّی اللہ علیہ و سلم،صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے عمل اور کئی علماءِ کرام رحمہم
اللہ السَّلام کے اقوال سے ہے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
کتبــــــــــــــــــــــہ
ابوالصالح
محمد قاسم قادری
Comments