دو طلبہ علمِ دین حاصِل کرنے کے لئے
دوسرے مُلک گئے، دو سال تک دونوں اِکٹھے پڑھتے رہے، جب اپنے وطن واپس آئے تو
اُن میں سے ایک فقیہ (بہت بڑا عالم) بن چکا تھا جبکہ دوسرا علم و کمال سے خالی ہی رہا۔ اُس
شہر کے عُلَمائے کرام نے اِس بات پر خوب غَور
و خَوض کیا، دونوں کے حُصولِ علم کے طریقۂ کار، اندازِ تکرار اور بیٹھنے کے اَطوار وغیرہ کے بارے میں تحقیق کی تو
ایک بات جو نُمایاں طور پر سامنے آئی
وہ یہ تھی کہ وہ شخص جو فقیہ (بہت بڑا عالم) بن کر آیا تھا اُس کا معمول تھا کہ
وہ سبق یاد کرتے وَقت قِبلہ رُو (یعنی قِبلے کی طرف منہ کرکے) بیٹھا کرتا، جبکہ دوسرا قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھنے کا عادی
تھا، چُنانچِہ تمام عُلَما و فُقَہائے کرام اِس بات پر متفق ہوئے کہ یہ خوش
نصیب قبلہ کی طرف رُخ کرنے کے اِہْتِمام کی بَرَکت سے فَقِیہ بنا کیونکہ بیٹھتے
وقْت کَعْبۃُاللہ شریف کی سَمْت رُخ رکھنا سنّت ہے۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم، ص 114)
اے عاشقانِ رسول!ہمارا اُٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، لینا،
دینا الغرض ہر مُعاملہ سُنّت کے مطابق ہونا چاہئے۔ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عُموماً قبلہ رُو تشریف فرما ہوتے اور اس کی
ترغیب بھی دلاتے، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:(1)بیٹھنے کی
جگہوں میں سب سے عزّت والی بیٹھک وہ ہے جس میں قبلے کی طرف رُخ کیا جائے۔(مجمع الزوائد،ج8،ص 114، حدیث:12916) (2)ہر شے کے لئے بُزُرگی ہے اور بیٹھنے کا شَرَف یہ ہے کہ
اس میں قِبلے کو مُنہ کیا جائے۔(مجمع الزوائد،ج8،ص 114
حدیث:12917)ہمارے بزرگانِ دین قبلہ رُو
بیٹھنے اور اپنی اشیا کا رُخ قبلہ کی جانب رکھنے کا خوب اہتمام فرماتے، چنانچہ قطبِ ربّانی، سیّدُنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ
اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ اپنے وُضو کا برتن(لوٹا) بھی قبلہ رُو رکھتے۔ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ارشاد فرماتے ہیں:(میری)خواہش یہی ہوتی ہےکہ ہر چیز کا رخ جانبِ قبلہ
رہے۔(جنّات کا بادشاہ،ص14)آپ اِس مبارک عمل کی ترغیب دیتے ہوئے نیک بننے کا نسخہ یعنی مدنی انعامات میں مدنی
انعام نمبر27میں ارشادفرماتےہیں:”کیا آج آپ نے
(گھر میں اور باہر بھی) پردے میں پردہ
کیا؟نیزبیٹھنے میں قبلہ کی سمت رُخ رکھنے کی سعی فرمائی؟“ قبلہ رُو بیٹھنے والوں کو جہاں دِینی فوائد حاصل ہوتے ہیں، وہیں دنیاوی فوائد بھی ملتے ہیں چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا امام شافِعی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:چارچیزیں
آنکھوں کی (بینائی کی) تقویَّت کا باعِث ہیں، ان میں سے ایک قبلہ رُخ بیٹھنا بھی ہے۔(احیاء العلوم،ج 2،ص27ملخصاً) پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں بھی کوشش کرکے قبلہ رُو
بیٹھنے کی عادت بنانی چاہئے اور اگر دِل میں سُنّت پر عمل کی نیّت
ہوگی تو سُنّت کا ثواب ملے گا۔ البتہ قضائے حاجت یا ایسی حالت میں جس وقت بدن پر کپڑے نہ ہوں اُس وقت ہرگز قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ نہ ہو۔علمِ دین سکھانے
والے کیلئے سُنّت یہ ہے کہ پیٹھ قبلے کی طرف رکھے تاکہ سننے والوں کا رُخ
جانبِ قبلہ ہوسکے۔آخر میں ایک ذوق افزا بات! وہ یہ کہ پاک و ہند نیز نیپال،بنگال(بنگلہ دیش) اورسری لنکا وغیرہ میں جب کعبے کی طرف مُنہ کیاجا ئے تو ضِمناً
مدینۂ منوّرہ کی طرف بھی رُخ ہوجاتا ہے،لہٰذا یہ نیّت بھی بڑھا دیجئے کہ تعظیماً
مدینۂ منوّرہ کی طرف رُخ کرتا ہوں۔
بیٹھنے کا
حسیں قرینہ ہے رُخ اُدھر ہے جِدھر
مدینہ ہے
رُو بَرُو
میرے خانۂ کعبہ اور اَفکار میں
مدینہ ہے
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی
اللہُ علٰی محمَّد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مجلس مدنی انعامات ،باب المدینہ کراچی
Comments