پیارے اسلامی بھائیو! سابقہ شمارے (رجب المرجب 1440ھ) میں رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ کی روشنی میں ایک قابل استاذ کے بارے میں بیان کیاگیا تھا،اب رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سیرتِ
مبارکہ سے بہترین اندازِ تفہیم(یعنی سمجھانے کے انداز) کاذِکرکیاجاتا ہے۔قَولی اور عَملی طریقہ انسانی فطرت ہے کہ بندہ سمجھانے والے کی بات سننے کے ساتھ ساتھ اس کے عمل
کو لازمی دیکھتا ہے، ایک اچّھے استاذ کی خوبی ہے کہ وہ قول و عمل دونوں طریقوں سے
تعلیم کا اہتمام کرے، طلبہ کو کوئی نیا کام یا کوئی ہدف دینا ہوتو پہلے اس کی عملی
صورت سمجھائے تاکہ وہ جلد اورصحیح سیکھ سکیں۔ حضورِ اکرمصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین اس طریقۂ تعلیم پر گواہ ہیں،
چنانچہ ایک صحابی رضی
اللہ عنہ نے بارگاہِ
اقدس میں حاضر ہوکر نماز کے اوقات کے مُتعلّق دریافت کیا تو آقائے کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دو دن نماز اس طرح
پڑھائی کہ پہلے دن ہر
نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا فرمایا اور دوسرے دن اس کے آخر وقت میں۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ :نماز کے اوقات کے بارے میں
پوچھنے والا شخص کہا ں ہے؟ وہ حاضر ہوئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ان دونوں اوقات کے بیچ کا
وقت تمہاری نماز کا وقت ہے۔(مسلم، ص243،
حدیث:1391)
رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تفہیم
طلبہ کو کچھ بھی ذہن نشین کروانے کے لئے سب سے زیادہ اہمیت
اندازِ تفہیم کی ہے۔ یہی وہ ہُنَر ہے جو عملِ تعلیم کو پروان بھی چڑھاتا ہےاور اس
کی کمی نقصان بھی پہنچاتی ہے۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اپنی بات کو سمجھانے کے لئے متعدَّد طر یقے اپنا تے تھے مثلاً بات واضح کرنا اور حسبِِ ضرورت دُہرانا آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمجب بھی کوئی بات کرتے تو صاف اور واضح
انداز میں فرماتے اور کسی خاص بات کی اہمیت کے سبب یا سمجھانے کی غرض سے دو یا تین
بار بھی دُہراتے چنانچہ روایت ہے کہ حضورِ
انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اتنا ٹھہرٹھہر
کر گفتگو فرماتے کہ آپ کے پاس بیٹھا ہوا شخص اسے یاد کرلیتا۔ جبکہ ایک روایت میں
ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لفظ کو تین بار
دہراتے تھے تاکہ اسے سمجھ لیا جائے۔(ترمذی،ج5،ص366، حدیث:
3659،3660)مدینہ شریف کے بارے میں فرمایا: ھِیَ طَابَّۃ،
ھِیَ طَابَّۃ۔ (مسند احمد،ج6،ص409، حدیث:18544) مثالوں سے سمجھانا قراٰنِ کریم، احادیثِ کریمہ اور انسانی فطرت گواہ ہے کہ کوئی بھی بات مثال کے ذریعے سمجھائی
جائے تو بہت جلد سمجھ آجاتی اور دیر تک ذہن نشین رہتی ہے۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو مثالیں دے کر سمجھاتے جیسا کہ (1)حضرت
سیّدُنا ابوذر غفاری رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم موسمِ سرما میں
باہر تشریف لائے جبکہ درختوں کے پتے جَھڑ رہے تھے توآپ نے ایک درخت کی ٹہنی پکڑ کر
اس کے پتّے جھاڑتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ! میں حاضر ہوں۔ ارشاد فرمایا: بےشک جب کوئی مسلمان اللہ پاک کی رضا کے لئے نَماز پڑھتاہے تو اس
کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے جھڑرہے ہیں۔(مسند احمد،ج 8،ص133، حدیث: 21612) (2)حضرت سیّدُنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر چھوٹے کان والےبکری کے ایک مُردہ بچے کے پاس سے ہوا ، کچھ صحابۂ کرام بھی آپ کے ہمراہ تھے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا کان پکڑا اور فرمایا: تم میں سے کون
اسے ایک درہم میں خریدنا چاہے گا۔ لوگوں نے عرض کی:ہم اسے کسی بھی چیز کے بدلے میں
لینا پسند نہیں کرتے، ہم اس کا کیا کریں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ
یہ تم کو مل جائے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ پاک کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کہ اس کاایک کان
چھوٹاہے اور اب جبکہ یہ مرچکاہے کوئی اسے کیسے لے گا؟ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اللہ پاک کی قسم! جیسے تمہاری نظروں میں یہ مُردہ بچہ کوئی وقعت نہیں رکھتا اللہ پاک کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر
ہے۔ (مسلم، ص1210، حدیث:7418) سمجھانے کے لئے سوال کرنا بعض باتیں سوالیہ انداز میں سمجھانا مفید ہوتی ہیں، یعنی
اگر کسی چیز کی اہمیت بیان کرنی ہو، اہم بات سمجھانی ہو یا کوئی طالبِ علم سوال
کرے تو جواباً طلبہ سے ایسا سوال کرنا جس کا جواب وہ جانتے بھی ہوں اور اس کا بتائی
جانے والی بات سے تعلق بھی ہو جیسا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز کے ذریعے گناہوں کے ختم ہونے کی ایک
مثال بیان فر ماتے ہوئے صحابۂ کرام علیہمُ
الرِّضوان سے ارشاد فرمایا:
بھلا بتاؤ کہ اگر کسی کے دروازے پر نہرہو اور اس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا
ہو تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہ جائے گا؟صحابۂ کرام نے عرض کی:اس کے جسم
پر کچھ بھی میل باقی نہیں رہےگا۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: یہ مثال پانچوں نمازوں
کی ہے۔ اللہ پاک اس
کے ذریعے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔(بخاری،ج 1،ص196،
حدیث:528) اسی طرح ایک
موقع پر مؤمن کی شان و عظمت سمجھانے کے لئے سوال فرمایا: مؤمن کی مِثال اس دَرخت کی
سی ہے جس کے پتےّ نہیں گِرتے، بتاؤ وہ کونسا دَرَخت
ہے؟ حاضِرین مُختلف درختوں کے نام عرض کرنے لگے۔ حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بہت ذہین تھے، فرماتے ہیں کہ میرے ذِہن میں آگیا کہ کَھجور
کا درخت ہے لیکن میں نے بتانے سے حَیا محسوس کی۔ پھر حاضِرین نے عرض کی: یارسولَ اﷲ! آپ ہی ارشاد فرما دیجئے تو حضورِ پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ کَھجور کا دَرَخت ہے۔ (مسلم،ص1157، حدیث:7098) ہاتھ کے اشارے سے سمجھانا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کبھی کسی بات
کو سمجھانے کے لئے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ بھی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ یتیم بچّوں
کی پرورش کرنے والے کے درجے کو بیان کرتے ہوئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے
والا جنّت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ
فرمایا۔ (بخاری،ج3،ص497،حدیث:5304) لائنوں اور نقشے وغیرہ کے ذریعے سمجھانا اللہ کریم کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نقشے وغیرہ بناکربھی اپنی باتیں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو ذہن نشین کرواتے تھے۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک چوکور خط کھینچا اور ایک خط بیچ میں کھینچا
اس سے نکلا ہوا اور چند خطوط چھوٹے کھینچے اس خط کی طرف جو بیچ میں تھا اس کی طرف
سے جس کے بیچ میں یہ تھا پھر فرمایا:یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے اسے گھیرے
ہوئے اور یہ جو باہر نکلا ہوا ہے یہ اس کی امید ہے اور یہ چھوٹے خط آفتیں
ہیں تو اگر انسان اس آفت سے بچا تو اس نے ڈس لیا اور اگر اس سے بچا تو اس نے کاٹ لیا۔ (بخاری،ج 4،ص224، حدیث:6417) حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ہمارے لئے خط کھینچا، پھر فرمایا:یہ اللہ تعالیٰ کی راہ ہے۔پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی دائیں جانب اور اس کی بائیں
جانب خطوط کھینچے، پھر فرمایا:یہ راستے ہیں جن کی طرف شیطان بلا رہا ہے۔(مسند ابو داؤد
طیالسی، ص33،حدیث:244) طلبہ کے لئے دعا کرنا علم اور طالبِ علم سے اخلاص و
مَحبّت رکھنے والے استاذ کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے طَلَبہ کی کامیابی
کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتا ہے، رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت
میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں چنانچہ حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
مجھے (سینے) لگایا اور کہا: اے اللہ! اس کو کتاب یعنی قراٰنِ کریم
کا علم عطا فرما۔(بخاری،ج1،ص44،حدیث:75) پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان بیان
کردہ مثالوں اور احادیث کے علاوہ بھی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت میں ایک استاذ کے لئے بہت سارے
مدنی پھول ہیں، آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تعلیم و تبلیغ کے دوران انتہائی نرمی اور شفقت کا مظاہرہ فرماتے تھے، جس کے
سبب ہر ایک پر خوشگوار اثر پڑ تا تھا اور سیکھنے کے بعد اس پر عمل کرنے میں ایک
لذت محسوس کرتا۔ ایک کامیاب استاذ کے لئے ان طریقوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ ضروری
ہے کہ وہ خود مختلف خوبیوں اور پاکیزہ سیرت و کردار کا حامل ہو تاکہ اس کی شخصیت
طالبِ علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکے اور ساتھ ہی وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ
نرمی اور محبت کا رویہ اپنائے،غیراَخلاقی وغلط حرکتوں کے صادر ہونے پر مار پیٹ کرنے،گالیاں دینے، بے وقوف، ناہنجار وغیرہ نازیبا کلمات کہنے کے بجائے نرمی اور محبت سے سمجھائے۔
اُن کے لایعنی اعتراضات پر مذاق اڑانا اور گہرے اعتراضات پر جھنجھلاہٹ کی کیفیت کا
طاری ہوجانا،سیرتِ نبوی کے سراسر خلاف ہے۔نیز خود غرضی اور مال و دولت کے حصول کو
مقصدِ اصلی بنانے کے بجائے طلبہ کی خیر خواہی اور اچھے مستقبل کو اپنا مطمحِ نظر بنائیں۔ اللہ کریم ہم سب کو مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت اپنانے کی تو فیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ناظم ماہنا مہ فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
Comments