حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سیّدنا امام محمدبن
محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جن اُمور کا قراٰنِ مجید میں ذکر ہے ان
میں سے ایک قیامت ہے، اللہپاک نے اس کے مَصائب کا ذکر کیا اور ا س کے بہت سے
نام ذکر فرمائے تاکہ تم ا س کے ناموں کی کثرت سے
اس کے مَعانی کی کثرت پر مطّلع ہوجاؤ، زیادہ ناموں کا مقصد ناموں اور اَلقاب
کو بار بار ذکر کرنا نہیں بلکہ اس میں عَقْل مَنْد لوگوں کے لئے تنبیہ ہے کیونکہ
قیامت کے ہر نام کے تحت ایک راز ہے اور ا س کے ہر وصف کے تحت ایک معنی ہے، تو تمہیں
اس کے مَعانی کی معرفت اور پہچان حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔( احیاء العلوم،ج5،ص275)
قیامت کے بہت سے ناموں میں سے41
ناموں کے معانی اوران کی وجہ
تسمیہ ملاحظہ کیجئے:(1)قیامت کا دن قریب ہے کیونکہ
ہر وہ چیز جس کا آنا یقینی ہے وہ قریب ہے، اس اعتبار سے اسے ”یَوْمُ
الْاٰزِفَة“یعنی قریب آنے
والادن کہتے ہیں (2)دنیا میں قیامت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے، اس اعتبار سے اسے ”یَوْمُ
الْوَعِیْد“ یعنی عذاب کی وعید کا دن کہتے ہیں (3)اس دن اللہپاک سب کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اس لئے وہ ”یَوْمُ الْبَعْث“ یعنی مرنے کے بعد زندہ کرنے کا دن ہے (4)اس
دن لوگ اپنی قبروں سے نکلیں گے اس لئے وہ ”یَوْمُ الْخُرُوْج“ یعنی نکلنے کا دن ہے (5،6)اس دن اللہکریم سب لوگوں کو حشر کے میدا ن میں جمع فرمائے گا اس لئے وہ ”یَوْمُ الْجَمْع“ اور ”یَوْمُ الْحَشْر“ یعنی جمع ہونے اور اکٹھا
ہونے کا دن ہے (7)اس دن
تمام مخلوق حاضرہو گی اس لئے وہ ”یَوْمِ مَشْهُوْد“ یعنی حاضری کا دن ہے (8)اس دن مخلوق کے اعمال کا حساب
ہوگا اس لئے وہ ”یَوْمُ الْحِسَاب“ یعنی حساب کا دن ہے (9)اس دن بدلہ دیا جائے گااور
انصاف کیا جائے گا لہٰذا وہ ”یَوْمُ الدِّیْن“ یعنی بدلے اور انصاف کا دن ہے (10)دہشت، حساب اور جزاء کے اعتبار سے وہ بڑا دن
ہے، اس لئے اسے ”یَوْمِ عَظِیْم“ یعنی بڑا دن کہتے ہیں (11)اس دن لوگوں کا فیصلہ یا ان میں فاصلہ اور جدائی ہوجائے اس لئے وہ ”یَوْمُ الْفَصْلِ“ یعنی فیصلے یا فاصلے کا دن ہے (12)قیامت
کے دن چونکہ کفار کے لئے اصلا ًکوئی بھلائی نہ ہوگی، ا س اعتبار سے اسے ”یَوْمِ عَقِیْم“ یعنی بانجھ دن کہتے ہیں (13)حساب اور
عذاب کے اعتبار سے وہ دن کافروں پر بہت
سخت ہوگا، اس لئے اسے ”یَوْمِ عَسِیْر“ یعنی بڑا سخت دن کہتے ہیں (14)اس دن مجرم عذاب میں گھیرلئے جائیں گے اس لئے وہ ”یَوْمِ مُحِیْط“ یعنی گھیر لینے والا دن ہے (15)اس
دن کفار و مشرکین کودرد ناک عذاب ہوگا، اس اعتبار سے اسے ”یَوْمِ اَلِیْم“ یعنی درد ناک دن کہتے ہیں (16)اس دن کی سختی کے اعتبار سے اسے ”یَوْمِ كَبِیْر“ یعنی بڑی سختی
والا دن کہتے ہیں (17)اس دن
لوگ نادم (شرمندہ) اور مغموم(غمگین) ہوں گے، اس اعتبار سے اسے ”یَوْمُ
الْحَسْرَة“ یعنی حسرت زدہ
ہونے کا دن کہتے ہیں (18)قیامت کے دن روحیں اور اَجسام ملیں گے، زمین والے اور آسمان
والے ملیں گے، غیر ِخدا کی عبادت کرنے والے اور ان کے معبودملیں گے،عمل کرنے والے اور اعمال ملیں گے، پہلے اور آخری لوگ ملیں گے، ظالم اور مظلوم
ملیں گے اور جہنمی عذاب دینے والے
فرشتوں کے ساتھ ملیں گے اس اعتبار سے اسے ”یَوْمُ التَّـلَاق“ یعنی ملنے کا دن کہتے ہیں (19)قیامت کے دن مختلف اعتبارات سے جنتیوں کی جیت اور
کفار کی شکست ظاہر ہوجائے گی اس لئے اسے ”یَوْمُ التَّغَابُن“ یعنی شکست ظاہر ہونے کا دن کہتے ہیں (20)اس
دن شدّتیں اور ہَولْناکیاں ہر چیز پر چھا جائیں گی اس لئے اسے ”یومُ الْغَاشِیَۃ“ یعنی
چھاجانے والی مصیبت کادن کہتے ہیں (21)قیامت کا آنا درست اور ثابت ہے، اس کے آنے میں کوئی شک نہیں بلکہ اس کا واقع ہونا
یقینی اور قطعی ہے اس لئے اسے ”اَلْحَاقَّۃ“ یعنی یقینی طورپر
واقع ہونے والی کہتے ہیں (22)اس دن کی دہشت، ہَولْناکی اور سختی سے (تمام انسانوں کے) دل دَہَل جائیں گےاس لئے قیامت کو ”اَلْقَارِعَۃ“ یعنی دل دہلانے والی کہتےہیں (23)آسمانوں
اور زمین والے اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے
بےہوش ہوں گے اس لئے اسے ”یَوْمُ الصَّاعِقَۃ“ یعنی بےہوشی کا دن کہتے ہیں (24)قیامت قائم ہونے
کے وقت آسمان پھٹ جائے گا اس لئے اسے ”یَوْمُ الْاِنْشِقَاق“یعنی پھٹنے کا دن کہتے ہیں (25)اس دن تمام زمین اور
آسمان والوں کو جمع کرنے کا وعدہ ہے اس لئے
اسے ”یومُ الْمَوْعُوْد“ یعنی وعدے کا دن کہتے ہیں (26)سب لوگ مرنے کے بعد ضرور ایک مُعیّن و مقرّر
وقت پر اکٹھے کئے جائیں گے اس اعتبار سے
اسے ”یَوْمِ مَعْلُوم“ یعنی
جانا ہوا دن کہتے ہیں (27)قیامت کے دن اجسام کو قبروں سے نکال کر میدانِ محشر لایا
جائے گا اس لئے اسے ”یَوْمُ النُّشُوْر“ یعنی مُردوں کو زندہ کرکے اٹھائے جانے کا دن کہتے
ہیں (28)اس دن آدمی اپنے بھائی یہاں تک کہ ماں
اور باپ سے بھی بھاگے گا اس لئے اسے ”یَوْمُ
الْفِرَار“ یعنی بھاگنے کا دن کہتے ہیں (29)اس دن لوگ حساب و
کتاب کے بعد یا تو جنّت میں ٹھہریں گےیا پھر جہنم میں اس اعتبار سے اسے ”یَوْمُ الْقَرَار“ یعنی ٹھہرنے کا دن کہا جاتا ہے (30)اس دن چونکہ لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے
گا اس لئے اسے”یَوْمُ الْجَزَاء“ یعنی بدلے کا دن کہتے ہیں (31)جو شخص اللہپاک کے عذاب کو دیکھے بغیر اس سے ڈرتا اور اس کی اطاعت کرتا ہے اور ایسے دل کے ساتھ
آتا ہے جو اخلاص مَنْد، اطاعت گزار
اور صحیحُ العقیدہ ہو، ایسے لوگوں سے قیامت کے دن فرمایا جائے گا:بے خوف و خَطر، امن
اور اطمینان کے ساتھ جنّت میں داخل ہوجاؤ نہ تمہیں عذاب ہوگا اور نہ تمہاری
نعمتیں زائل ہوں گی،یہ جنّت میں ہمیشہ رہنے کا دن ہے اور اب نہ فنا ہے نہ موت اس لئے اس دن کو ”یومُ
الخُلُود“ یعنی ہمیشگی کا دن کہا جاتا ہے (32)اس دن لوگوں کو میدانِ محشر کی طرف ہانکا
جائے گا اس لئے اسے ”یَوْمُ الْمَسَاق“ یعنی چلنے کا دن کہتے ہیں (33)جس دن صور پھونکا
جائے گا (یعنی ایک سینگ میں پھونک ماری جائے
گی جسےنفخۂ اُوْلیٰ کہاجاتاہے) تو اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے زمین اورپہاڑ شدید حرکت کرنے لگیں گے اور انتہائی
سخت زلزلہ آ جائے گا اور تمام مخلوق
مرجائے گی اس لئے اسے ”یَوْمُ الرَّاجِفَۃ“ یعنی تَھرتَھرانے والی (آواز) کا دن کہتے ہیں (34،35)ا
س کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا (جسےنفخۂ ثانیہ کہا جاتا ہے، دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا)
جس سے ہر چیز اللّٰہ پاک کے حکم سے زندہ کردی جائے گیاس لئے اسے ”یَوْمُ
الرَّادِفَۃ“یعنی پیچھے آنے والی (آواز) کا دن اور ”یَوْمُ
الْفَزَع“ یعنی بڑی گھبراہٹ کا دن کہتے ہیں (36)اس دن کہ جب
دوسری بار صور پھونکنے کی کان پھاڑدینے والی آواز آئے گی تو ہر آدمی ایک
دوسرے سے بھاگے گا تاکہ اس سے کوئی اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کرلے اس لئے اسے ”یَوْمُ الصَّاخَّۃ“یعنی کان پھاڑنے والی چنگھاڑ کا دن کہتے ہیں (37)اس دن لوگوں کےاعمال
کا وزن کیا جائے گا اس لئے اسے”یَوْمُ الْوَزْن“یعنی (اعمال کے) وزن کا دن کہتے ہیں (38)جب (قیامت
قائم ہوگی تو اس وقت) زمین تھرتھرا کر کانپے گی جس سے اس کے اوپر موجود پہاڑ اور
تمام عمارتیں گِرجائیں گی اور یہ اپنے اندر موجود
تمام چیزیں باہَر آجانے تک کانپتی رہے
گی اس لئے اسے”یَوْمُ الرَّجَّۃ“یعنی (زمین کو) زور سے
ہلانے اور حرکت دینے کا دن کہتے ہیں (39)اس دن حقائق اس طرح ظاہر ہوں گےکہ ان میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوگی اس لئے اسے”یَوْمُ الْیَقِین“کہتے ہیں (40)اس دن لوگ اپنے ربّ کریم
سے ملاقات کریں گے اس لئے اسے”یَوْمُ اللِّقاء“ یعنی ملاقات کا دن کہتے ہیں (41)(قیامت
کے دن) لوگ اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں ڈوبے ہوں گے، ان میں سے بعض کے
ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک، بعض کی کمر تک ہوگا اور کسی کے منہ میں پسینہ لگام
دیئے ہوئے ہوگا اس لئے اسے ”یَوْمُ الْعَرْق“ یعنی پسینے کا دن کہتے ہیں۔:
حضرت
سیِّدُنا امام محمدبن محمدغزالی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: ہماری سب سے اچھی حالت تو یہ ہے کہ ہم قراٰنِ پاک پر
مضبوطی سے عمل پیرا ہوں لیکن ہم اس کے معانی میں
غور نہیں کرتے، نہ ہی روزِ قیامت
کے اوصاف اور اس کے کثیر ناموں میں فکر کرتے ہیں اور نہ ہی اس دن کی ہولناکیوں سے
خلاصی پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اس غفلت سے اللہ پاک کی پناہ چاہتے ہیں،
ربّ تعالیٰ اپنی وسیع رَحْمت سے ہماری کوتاہیوں کومعاف فرمائے۔(احیاء العلوم،ج5،ص276)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ
فیضان مدینہ ،باب المدینہ کراچی
Comments