انٹرویو
رکنِ شوریٰ حاجی محمد علی عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2022
” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کے قارئین! ہمارے سلسلے ” انٹرویو “ میں آج ہماری مہمان شخصیت دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک مولانا حاجی محمد علی عطّاری ہیں۔ آئیے! ان سے کچھ سوال و جواب کرتے ہیں :
مہروز عطّاری : یہ ارشاد فرمائیں کہ آپ کا نام کس نے رکھا تھا؟
حاجی محمد علی عطّاری : گھر میں یہ سنا تھا کہ میرے مرحوم دادا جان نے میرا نام رکھا تھا۔
مہروز عطّاری : آپ کے آباء و اجداد کا تعلق کہاں سے ہے؟
حاجی محمد علی عطّاری : میرے دادا دادی تقسیمِ ہند کے وقت جب ہجرت کرکے پاکستان آئے تو کوئٹہ چلے گئے اور میرے والد صاحب کی پیدائش وہیں ہوئی ، جبکہ نانا اور نانی پاکستان آکر لاڑکانہ میں قیام پذیر ہوئے جہاں میری والدہ کی ولادت ہوئی ، جبکہ میں بابُ الاسلام سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوا۔
مہروز عطّاری : آپ کی تاریخِ پیدائش کیا ہے؟
حاجی محمد علی عطّاری : 7جنوری 1971ء۔
مہروز عطّاری : بچپن میں آپ کس مزاج کے حامل تھے؟
حاجی محمد علی عطّاری : بچپن میں میری طبیعت شرمیلی تھی۔ گھبرانا ، لوگوں سے بات نہ کرنا ، گھر میں کوئی مہمان آئے تو چھپ جانا یہاں تک کہ سلام کر نے سے بھی شرمانا۔ ما شآءَ اللہ میرے والد صاحب سلام کرنے ، آپ جناب سے بات کرنے ، بڑی بہن کو باجی کہنے وغیرہ سے متعلق تربیت فرمایا کرتے تھے۔
مہروز عطّاری : آپ لوگ کتنے بہن بھائی ہیں اور آپ کا نمبر کون سا ہے؟
حاجی محمد علی عطّاری : ہم لوگ آٹھ بہن بھائی ہیں ، سب سے بڑی ہمشیرہ ہیں اور ان کے بعد میرا نمبر ہے۔
مہروز عطّاری : گویا والد صاحب کے بعد گھر کے مَردوں میں بڑے آپ ہیں؟
حاجی محمد علی عطّاری : جی ، نہ صرف اپنے گھر میں بلکہ خاندان میں بھی۔ میرے دادا جان کے تین بیٹے تھے یعنی میرے والد اور ہمارے دو تایا ، مجھ سے پہلے ان تینوں کے یہاں صرف بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں ، یوں میں اپنے خاندان میں پہلی نرینہ اولاد تھا۔
مہروز عطّاری : آپ کی بچپن کی عادات میں تبدیلی کب اور کیسے آئی؟
حاجی محمد علی عطّاری : پرائمری تعلیم کے بعد میں نے کلاس 6 سے 8 تک فیڈرل گورنمنٹ اسکول حیدرآباد میں تعلیم حاصل کی ، اس وقت بھی میری طبیعت بچپن جیسی تھی۔ نویں کلاس کی تعلیم کیلئے میں نے ایک دوسرے اسکول میں داخلہ لیا اور وہاں کچھ کُھلنا شروع کیا ، میں نے 1984ء میں چودہ سال کی عمر میں میٹرک کرلیا۔ میرے والد صاحب مجھے دوستوں کی طرح رکھتے تھے اور آٹھویں کلاس کے دوران ہی ابو نے مجھے ڈرائیونگ سکھادی تھی۔ کبھی والد صاحب دوسرے شہر گئے ہوتے تو میں گاڑی پر ہی اسکول چلا جاتا۔ اسی دور میں کھیلنے کیلئے میدانوں میں جانا شروع کیا اور مجھے اسپورٹس بالخصوص کرکٹ کا شوق ہوگیا۔
مہروز عطّاری : آپ باؤلر اچھے تھے یا بیٹس مین؟
حاجی محمد علی عطّاری : میں آل راؤنڈر تھااور اپنی ٹیم کا کیپٹن بھی تھا۔
مہروز عطّاری : میٹرک کے بعد مزید کہاں تک تعلیم حاصل کی؟
حاجی محمد علی عطّاری : میٹرک کے بعد گریجویشن (B.Com) تک تعلیم حاصل کی ، M.Com میں داخلہ بھی لے لیا لیکن فیملی معاملات اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہوسکی۔
مہروز عطّاری : کس قسم کا کاروبار تھا؟
حاجی محمد علی عطّاری : والد صاحب کا میڈیکل اسٹور تھا۔ ہم لوگ خاندانی طور پر میڈیکل والے کہلاتے ہیں ، اب بھی خاندان کے مختلف افراد مثلاً میرے چھوٹے بھائی ، تایا ابو اور ماموں وغیرہ کے دس سے بارہ میڈیکل اسٹور ہوں گے۔
مہروز عطّاری : آپ کی دینی ماحول سے وابستگی کب اور کیسے ہوئی؟
حاجی محمد علی عطّاری : 1989ء میں سردیوں کے دن تھے جب اللہ کریم نے اپنے اس گناہگار بندے پر فضل و کرم فرمایا اور اسے گناہوں بھرے ماحول سے اٹھا کر اپنے نیک بندوں کی صحبت میں پہنچادیا۔
ماحول میں آنے سے پہلے میں جس صحبت میں رہتا تھا وہ نہایت عجیب و غریب تھی۔ اس بات سے اندازہ لگالیں کہ 1984ء میں جب میں 14سال کا تھا تو اس وقت بھی ہم موٹر سائیکل پر وَن وہیلنگ کرتے تھے۔ پھر اللہ پاک کے کرم سے میں نے امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے بیان کی آڈیو کیسٹ سنی جس کے سبب آہستہ آہستہ دینی ماحول سے وابستہ ہوتا چلاگیا۔ دینی ماحول سے وابستگی کے بعد بھی کئی ماہ تک میرے سابقہ دوست آکر مجھے پُرانی باتیں یاد دلاتے اور سمجھانے کی کوشش کرتے کہ یہ تو کن لوگوں میں پھنس گیاہے ، ان کے ساتھ تیرا کوئی کام نہیں ، وغیرہ وغیرہ۔
مہروز عطّاری : اپنے گھر میں آپ سب سے پہلے دینی ماحول سے وابستہ ہوئے تھے؟
حاجی محمد علی عطّاری : سب سے پہلے میرے چھوٹے بھائی جو مجھ سے چار ، پانچ سال چھوٹے ہیں وہ ماحول سے وابستہ ہوئے اور عمامہ شریف سجالیا ، ان دنوں دعوتِ اسلامی میں کتھئی (Brown) عمامہ پہنا جاتا تھا۔ حیدرآباد میں ان دنوں ہفتہ وار سنّتوں بھرا اجتماع اور مدرسۃُ المدینہ بالغان شروع ہوچکا تھا ، میرے چھوٹے بھائی مجھے اجتماع کی دعوت دیتے رہتے تھے جس پر کئی بار میں نے انہیں ڈانٹ دیا۔ ان دنوں میری فلموں اور گانوں وغیرہ کی کیسٹوں کی دکان تھی جس کے قریب ہی ہفتہ وار اجتماع کے لئے جانے والی گاڑی کھڑی ہوتی تھی۔
آخر کا رایک دفعہ بھائی کی وجہ سے امیرِ اہلِ سنّت کے آڈیو بیان کی کیسٹ سننے کا موقع ملا جس سے طبیعت میں نرمی آئی۔ ہوا کچھ یوں کہ بھائی نے کیسٹ پلیئر میں ” جہنم کے عذابات “ نامی بیان کی کیسٹ رکھ دی اور کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے ، میں سمجھا کہ شاید یہ لطیفوں وغیرہ کی کوئی کیسٹ ہے ، جب چلایا تو اس میں جہنم کے عذابات وغیرہ کا بیان تھا۔ دوتین بار بیان کو روکنے کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن پھر سوچا کہ درمیان میں روک دینے سے گناہ ملے گا ، یہ سوچ کر مکمل بیان سنا جس سے دل میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد ایک اور بیان سنا ” زمیں کھاگئی نوجواں کیسے کیسے؟ “ اور ان دونوں بیانات نے میرے دل کی دنیا بدل کے رکھ دی۔
مہروز عطّاری : امیرِ اہلِ سنّت کے بیان سے دل میں گناہوں کی نفرت تو پیدا ہوگئی ، اس کے بعد پھر آگے کا سفر کیسے طے ہوا؟
حاجی محمد علی عطّاری : اس واقعے سے ڈیڑھ دو مہینے پہلے ہی میں نے میوزک سینٹر کھولا تھا ، اب میں نے اسے بند کردیا اور لکھ کر لگا دیا کہ یہاں گانے باجوں کی کیسٹیں فروخت نہیں ہوں گی۔ اب جب دین کے راستے پر چلنا شروع کیا تو کنفیوژن پیدا ہونے لگی کہ مختلف راستوں میں سے کون سا راستہ درست ہے۔ کوئی عام مسلمانوں کے معمولات کو شرک و بدعت کہتا ہے ، کوئی دل جاری کرنے کی ترغیب دلاتا ہے تو کوئی کچھ اور کہتا ہے۔ میں چار پانچ قسم کے لوگوں سے ملا اور پریشان ہوگیا کہ کیا کروں؟ اس کشمکش نے مجھے اتنا پریشان کیا کہ ایک دن مغرب کی نماز کے دوران میری آنکھوں سے آنسو جاری رہے اور میں نے رو رو کر دعا کی کہ یا اللہ! مجھے سیدھا راستہ دکھادے۔ میں ان دنوں حیدرآباد کے علاقے مُکھی باغ میں سیّد صالح شاہ مسجد میں مدرسۂ بالغان میں بھی پڑھتا تھا۔ ہماری اس مسجد میں ہر پیر کو نشست ہوتی تھی جس میں ہمارے نگران آکر تربیت فرماتے تھے۔ اب جب نشست ہوئی تو انہوں نے ترغیب دلائی کہ اللہ کے نیک بندے مولانا الیاس قادری عمرے پر جارہے ہیں اور اس سلسلے میں فلاں دن کراچی میں محفل ہے جس کے لئے حیدرآباد سے بھی قافلہ جائے گا ، آپ لوگ بھی چلیں۔ میں نے سوچا کہ جن کا بیان سُن کر میری زندگی میں تبدیلی آئی ہے انہیں ضرور دیکھنا چاہئے ، چنانچہ میں بھی قافلے کے ساتھ حیدرآباد سے سفر کرکے شہید مسجد کھارادر کراچی پہنچ گیا۔ ہم جلدی پہنچ گئے تھے اس لئے محراب کے قریب جگہ مل گئی ، میں بار بار اٹھ کر زیارت کرنے کی کوشش کرتا اور ساتھ والوں سے بھی پوچھتا کہ حضرت صاحب کب آئیں گے۔ تھوڑی دیر بعد سب لوگ اٹھے اور پھر بیٹھ گئے ، کسی نے مجھے بتایا کہ حضرت صاحب آگئے ہیں۔ میں نے اُٹھ کر زیارت کی تو عام سے لباس اور عمامے میں ملبوس شخصیت نظر آئی ، یہ سادگی بھرا انداز دیکھ کر مزید متأثر ہوا۔ محفل کے بعد جب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی ایئر پورٹ روانگی کا وقت آیا تو آپ ایک کھلی گاڑی میں بیٹھ گئے ، اس موقع پر کوئی کلام پڑھا جارہا تھا اور آپ یادِ مدینہ میں رو رہے تھے ، مدینۂ منورہ سے محبت کے اس انداز نے بھی میرے دل پر بہت اثر کیا۔ بس اس دن سے میں دعوتِ اسلامی سے دل و جان سے وابستہ ہوگیا اور آج آپ کے سامنے ہوں ، اللہ کریم اسی دینی ماحول میں ایمان و عافیت کے ساتھ شہادت کی موت نصیب فرمائے۔
مہروز عطّاری : آپ کا ذریعۂ معاش کیا ہے اور کیا رہا؟
حاجی محمد علی عطّاری : ذریعہ معاش کی داستان تو بہت لمبی ہے ، مختصریہ کہ جب میں ساتویں کلاس میں تھا تو ابو ان دنوں کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے ، میں اسکول سے سیدھا ہمارے میڈیکل اسٹور پر جاتا تھا۔ اس کے بعد میری ڈیوٹی لگی کہ دکان پر کام کرنے والوں کے لئے کھانا لے جانا ہے تو پہلے گھر جاتا اور وہاں سے کھانا لےکر دکان پہنچتا۔ دکان پر میری ذمہ داری مغرب یا عشا تک ہوتی۔ 1994ء میں اپنی شادی تک میری ذمہ داری میڈیکل اسٹور پر رہی۔ شادی کے بعد میں نے الگ رہنا شروع کیا اور بہت سے کام ٹرائی کئے ، مثلاً ففٹی موٹرسائیکل پر املی ، گرم مصالحے ، چائے کی پتی ، شاپنگ بیگ وغیرہ سپلائی کئے ، ملازمت بھی کی ، کچھ رقم جمع ہوئی تو انویسٹمنٹ بھی کی۔
انہی دنوں میں نے اپنا میڈیکل اسٹور کھولنے کا ارادہ کیا جس کی تیاری بھی کرلی اور نام رکھوانے کے لئے امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امیرِ اہلِ سنّت مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے اور دینی کاموں سے متعلق میری کارکردگی بھی نگران صاحب کے ذریعے پہنچتی تھی۔ میں نے اپنا ارادہ بتایا تو آپ نے فرمایا کہ بیٹا! دعوتِ اسلامی کا کام نہیں کرنا؟ میں نے عرض کی : بالکل کرنا ہے۔ آپ نے تین چار کاموں کے نام لئے کہ میڈیکل والے ، ہوٹل والے وغیرہ ، ان لوگوں کی ڈیوٹیاں تو بہت لمبی ہوتی ہیں ، آپ کیسے دعوتِ اسلامی کا کام کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ملازم رکھ لوں گا ، ایک صبح سے دوپہر تک ، دوسرا دوپہر سے رات تک۔ یہ سُن کر آپ مسکرائے اور فرمایا : بیٹا! کون کما کر دیتا ہے؟ مجھ سے پوچھا کہ آپ کا خرچہ کتنا ہے؟ میں نے بتایا تو امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے مجھے مُضاربت کے طور پر کام کرنے کا مشورہ دیا اور اس کا شرعی طریقہ بھی سمجھایا۔
مہروز بھائی! اس دن کے بعد سے آج تک میرا تجربہ ہے کہ میں جس کام میں خود شامل ہوتا ہوں اس میں نقصان ہوجاتا ہے اور جس کام میں انویسٹ کرکے Sleeping Partner کے طور پر شریک ہوتاہوں یعنی پیسے تو لگاؤں لیکن کام کوئی دوسرا کرے ، تو وہ بہترین چلتا ہے۔ میرا حُسنِ ظن ہے کہ یہ ولیِ کامل کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کا اثر ہے۔
مہروز عطّاری : آپ کی شادی خاندان میں ہوئی یا باہر؟
حاجی محمد علی عطّاری : میرے سگے تایا کے یہاں شادی ہوئی۔
مہروز عطّاری : آپ کے کتنے بچّے ہیں؟
حاجی محمد علی عطّاری : اَلحمدُلِلّٰہ تین بچے موجود ہیں ، ایک بیٹا اور دو بیٹیاں۔ چار بچّوں یعنی تین بیٹوں اور ایک بیٹی کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا ، اللہ کریم روزِ قیامت انہیں ہم میاں بیوی کے لئے شفاعت کرنے والا بنائے۔
مہروز عطّاری : آپ کو دعوتِ اسلامی میں سب سے پہلے کون سی ذمہ داری ملی تھی اور اس کے بعد آگے کا سفر کیسے طے کیا؟
حاجی محمد علی عطّاری : سب سے پہلے مسجد درس کی ذمہ داری ملی تھی ، پھر مدرسۃُ المدینہ بالغان ، پھر حیدرآباد کے ایک علاقے ” گجراتی محلہ “ میں پانچ مساجد پر ذمہ داری ، پھر مزید ترقی کرتے کرتے حیدرآباد کے 4 علاقوں میں سے ایک کی ذمہ داری ملی۔ جب مرکزی مجلسِ شوریٰ بنی تو مجھے اس میں شامل کیا گیا اور ساتھ ہی سندھ کابینہ کی ذمہ داری بھی ملی۔
مہروز عطّاری : پاکستان سے باہر آپ نے کن ممالک کا سفر کیا ہے؟
حاجی محمد علی عطّاری : عرب شریف ، یورپ کے کئی ممالک مثلاً جرمنی ، بیلجیئم ، فرانس ، اٹلی ، اسپین ، یونان کے علاوہ نیپال ، بنگلہ دیش ، ترکی وغیرہ کا سفر کیا ہے۔
مہروز عطّاری : محمد علی عطّاری ، حاجی محمد علی عطّاری کب بنے؟
حاجی محمد علی عطّاری : سن 2000ء میں مرکزی مجلسِ شوریٰ بننے کے ایک سال بعد شیخِ طریقت امیر ِاہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کے ساتھ چل مدینہ کی سعادت ملی تھی۔
مہروز عطّاری : بنگلہ دیش میں آپ نے اپنی فیملی کے ساتھ تقریبا اڑھائی سال گزارے ، آپ کا یہ وقت کیسے گزرا اور وہاں کے لوگوں کو کیسا پایا؟
حاجی محمد علی عطّاری : پہلی بار 2007ء میں نگرانِ شوریٰ کے ساتھ بنگلہ دیش کا سفر کیا تھا ، اس کے بعد کچھ نہ کچھ آنا جانا رہا۔ 2010ء میں مجھے مرکزی مجلسِ شوریٰ کی طرف سے باقاعدہ بنگلہ دیش کی ذمہ داری ملی ، اس موقع پر امیرِ اہلِ سنّت اور نگرانِ شوریٰ نے فرمایا کہ یہاں ہجرت کرکے ہی کام ہوگا۔ میں نے اپنی فیملی کا ذہن بنایا اور ہم بنگلہ دیش چلے گئے۔ پہلے تقریباً 6 مہینے چٹاگانگ رہے ، اس کے بعد بچّوں کے امتحانات کی وجہ سے واپس پاکستان آئے اور اس کے بعد لگ بھگ دو سال بنگلہ دیش میں قیام رہا اور آنا جانا بھی لگا رہا۔ بنگلہ دیش کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بہت سادہ ، محبت والے اور دین سے پیار کرنے والے ہیں ، اگر انہیں دُرست راہنمائی مل جائے تو بہت جلد دین کے راستے پر آجاتے ہیں۔ اللہ پاک کے فضل و کرم سے آج بنگلہ دیش میں دینی کاموں کی بہاریں ہیں ، بنگلہ زبان میں مدنی چینل چل رہا ہے ، تین تین دن کے سنتوں بھرے اجتماعات ہوتے ہیں ، 50سے زیادہ جامعاتُ المدینہ اور کثیر مدارسُ المدینہ قائم ہیں اور بنگلہ دیش کے جامعاتُ المدینہ سے اب تک طلبہ کے چار بیج فارغ ہوچکے ہیں۔
مہروز عطّاری : سنا ہے کہ نگرانِ شوریٰ کے ہمراہ بنگلہ دیش کے سفر میں کوئی حادثہ پیش آیا تھا ، اس کی کچھ تفصیل بتا دیں۔
حاجی محمد علی عطّاری : 2000ء میں جب نگرانِ شوریٰ کے ساتھ سفر ہوا تو ہم نے ایک 22 سیٹوں والی وین بک کروائی تھی۔ بنگلہ دیش میں بارشیں بہت ہوتی ہیں ، ہم لوگ بارش کے دوران چٹاگانگ سے ڈھاکہ واپس آرہے تھے۔ راستے میں کُمیلہ نامی ایک شہر پڑتا ہے ، اس شہر سے چند کلومیٹر پہلے مین ہائی و ے پر ڈرائیور نے کسی وجہ سے بریک لگائی تو پھسلن کی وجہ سے گاڑی الٹ کر روڈ کے کنارے گہرائی میں جاگری۔ گاڑی میں اس وقت پندرہ ، سولہ اسلامی بھائی موجود تھے ، جب گاڑی الٹنا شروع ہوئی تو سب کی زبان پر ” یااللہ خیر “ اور کلمہ شریف وغیرہ مقدس کلمات جاری ہوگئے۔ حادثے سے پہلے گاڑی میں امیرِ اہلِ سنّت کا بیان چل رہا تھا ، جب گاڑی اُلٹ کر رُک گئی تو بھی بیان جاری تھا۔ سب سے پہلے ایک اسلامی بھائی کھڑکی توڑ کر باہر نکلے اور نگرانِ شوریٰ کو باہر نکالا ، پھر ایک ایک کرکے ہم سب باہر نکلے۔ گاڑی الٹی پڑی تھی ، موبائل فون پانی میں بھیک گئے۔ اس مشکل گھڑی میں بھی نگرانِ شوریٰ کے حواس قائم تھے اور آپ اسلامی بھائیوں کو حوصلہ دے رہے تھے۔ ڈرائیور کا موبائل کچھ کام کررہا تھا تو اس سے کسی کو کال کرکے ایک ذمہ دار اسلامی بھائی تک پیغام پہنچانے کی درخواست کی۔ معمولی چوٹیں تو ہم سب کو آئی تھیں لیکن تین چار اسلامی بھائی جو زیادہ زخمی تھے انہیں فوراً اسپتال روانہ کیا گیا ، پیچھے آنے والی ایک گاڑی سے لفٹ لے کر ہم قریبی شہر پہنچے اور وہاں سے گاڑی بک کرواکر ڈھاکہ پہنچے۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ سب کی جان محفوظ رہی۔
مہروز عطّاری : آپ کے پاس اس وقت دعوت اسلامی کے کون کون سے شعبہ جات کی ذمہ داری ہے ؟
حاجی محمد علی عطّاری : شعبہ تعمیرات ، شعبہ اثاثہ جات ، شعبہ نیوسوسائٹیز ، شعبہ اوور سیز کے بعض امور اور کراچی کے 4ڈسٹرکٹ کی ذمہ داری میرے سپرد ہے۔
مہروز عطّاری : اثاثہ جات کا شعبہ دعوتِ اسلامی کے بڑے شعبہ جات میں سے ایک ہے ، اس سے متعلق اہم چیلنج کون سا ہے؟
حاجی محمد علی عطّاری : ہمارے پاس بڑی تعداد میں خالی اثاثے موجود ہیں یعنی جو فی الحال استعمال میں نہیں ہیں ، سینکڑوں کی تعداد میں ایسے اثاثہ جات ہیں ، لوگ دعوتِ اسلامی پر اعتماد کرتے اور اپنے اثاثہ جات دیتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ شرعی اور قانونی اعتبار سے کلیئرنس لینے کے بعد جلد سے جلد اسے مسجد ، جامعۃُالمدینہ یا مدرسۃُ المدینہ وغیرہ کسی نیک کام میں استعمال کیا جائے تاکہ اثاثہ دینے والوں کا دل مطمئن ہوجائے کہ ہم نے جس مقصد کے لئے اپنی زمین یا عمارت دی تھی وہ پورا ہوگیا ہے۔
مہروز عطّاری : آج کل کے دور میں بچّوں کی شادی کرنے کی بہترین عمر کون سی ہے؟
حاجی محمد علی عطّاری : میرا خیال یہ ہے کہ 18 سے 22 سال کی عمر کے دوران بچوں کی شادیاں کردینی چاہئیں۔
مہروز عطّاری : آپ کے سب بچّوں کی شادیاں ہوچکی ہیں؟ اور کیا بچوں کی شاد یاں خاندان میں کی ہیں؟
حاجی محمد علی عطّاری : اللہ پاک کے فضل و کرم سے اولاد کی شادی کی ذمہ داری سے فراغت ہوچکی ہے۔ میرے بیٹے رضا عطّاری اور ایک بیٹی کی شادی دعوتِ اسلامی سےتعلق رکھنےوالے ایک دینی خاندان میں کی ہے جبکہ ایک بیٹی کی شادی میرے بھتیجے سے ہوئی ہے۔
مہروز عطّاری : ما شآءَ اللہ آپ دادا بھی بن چکے ہیں ، اولاد کی شادیاں کرنے اور دادا بننے کے بعد کیسا محسوس کرتے ہیں؟
حاجی محمد علی عطّاری : رضا کی شادی تو کم و بیش 6 سال پہلے ہوگئی تھی ، بیٹیوں کی شادی کے بعد میں نے نگرانِ شوریٰ سے کہا کہ اب میں فارغ ہوچکا ہوں۔ نگرانِ شوریٰ تو نگرانِ شوریٰ ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ فارغ نہیں ہوئے بلکہ ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں ، اب مزید کئی خاندان آپ سے منسلک ہوچکے ہیں۔
اَلحمدُلِلّٰہ میرے 2 پوتے ہیں ، شعبان رضا عطّاری 5 سال کے ہیں جبکہ میلاد رضا عطّاری کی عمر لگ بھگ 3 سال ہے۔ جب یہ دادا ، دادا کہہ کر لپکتے ہیں اور گود میں آتے ہیں تو اس وقت اللہ پاک کی اس نعمت کا احساس ہوتا ہے اور یہ بات دُرست لگتی ہے کہ انسان کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ اولاد کی اولاد پیاری ہوتی ہے۔
مہروز عطّاری : دعوتِ اسلامی میں آپ کو ایک خصوصی اعزاز یہ حاصل ہے کہ آپ نے فیملی سمیت بہت سے سفر کئے ہیں اور پاکستان و بیرونِ پاکستان مختلف شہروں میں دینی کاموں کے لئے طویل عرصہ قیام کیا ہے۔ اس کا ذہن کیسے بنا؟
حاجی محمد علی عطّاری : 1989ء میں دینی ماحول سے وابستگی کے بعد میں نے کسی اخبار میں ایک کالم پڑھا تھا جس میں ایک غیر مسلم نے اپنی آپ بیتی ذکر کی تھی کہ میں اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے بیس بائیس سال پہلے فلاں ملک سے نکلا تھا ، میں نے اسی دوران شادی کی ، میرے بچے ہوئے اور میں نے خود کو اپنے بیوی بچوں سمیت اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کردیا ہے۔ اس شخص کی یہ بات میرے دل و دماغ پر نقش ہوگئی اور میں نے سوچا کہ اگر یہ اپنے بیوی بچوں سمیت اپنے باطل مذہب کے لئے وقف ہوسکتا ہے تو میں اپنی فیملی کے ساتھ دینِ اسلام کے لئے وقف کیوں نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد اللہ کے کرم سے میرے کام کی نوعیت بھی ایسی بن گئی کہ مالی لحاظ سے کوئی پریشانی نہیں رہی ، چنانچہ شادی کے بعد مجھے اپنی فیملی کے ساتھ دینی کاموں کے لئے سفر کی سعادت ملتی رہی اور اس حوالے سے ذمہ داران میں میری مثال پیش کی جاتی تھی۔ دینی کاموں کی ذمہ داری کے حوالے سے ایک سال سکھر ، ایک سال کراچی ، دیگر کئی مقامات کے علاوہ چند سال بنگلہ دیش میں بھی قیام رہا۔ 1994ء میں میری شادی ہوئی اور آج تک میں نے تقریباً 19 یا 20 گھر تبدیل کئے ہیں۔ آخری بار 2016ء میں بنگلہ دیش سے کراچی واپسی کے بعد فیملی کی طرف سے کہا گیا کہ اب بچے بڑے ہوچکے ہیں اور ان کی شادیاں کرنی ہیں ، اس لئے اب ان کی شادیوں تک آپ نے لمبا سفر نہیں کرنا چنانچہ پچھلے 6 سال سے ہم کراچی میں ہی قیام پذیر ہیں ، اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔
مہروز عطّاری : یوں تو آپ کے علم میں امیرِ اہلِ سنّت کے کئی واقعات ہوں گے ، ہمارے قارئین کیلئے کوئی ایک واقعہ بیان فرما دیجئے۔
حاجی محمد علی عطّاری : آج سے کئی سال پہلے فیضانِ مدینہ کراچی میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کا مشورہ تھا۔ رات میں اراکینِ شوریٰ جس جگہ آرام کررہے تھے اس کے قریب ہی امیرِ اہلِ سنّت کا کمرہ موجود تھا۔ سحری سے پہلے امیرِ اہلِ سنّت نے تشریف لاکر ہمیں تہجد کے لئے جگاتے ہوئے صدائے مدینہ لگائی : پیارے اسلامی بھائیو! میرے پیارے اراکینِ شوریٰ! اٹھ جائیں اور تہجد ادا فرمالیجئے۔ پہلے تو ایسا محسوس ہوا جیسے امیرِ اہلِ سنّت خواب میں تشریف لائے ہیں ، پھر جب احساس ہوا کہ پیر و مرشد بنفسِ نفیس ہمیں جگانے کیلئے آئے ہیں اور کمرے کے کونے پر موجود ہیں تو سب ایک دَم سے اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ تہجد کے لئے جگانے کے بعد جاتے جاتے امیرِ اہلِ سنّت نے فرمایا : تہجد پڑھ لیں اور پھر غریب خانے (یعنی میری رہائش گاہ) پر سحری کے لئے تشریف لے آئیں۔ زیادہ نعمتیں تو موجود نہیں لیکن جو کچھ ہے اس کے ذریعے سحری کرلیں یا روزہ نہیں رکھنا تو بھی آپ کو ناشتے کی دعوت ہے۔ بھلا پیر و مرشد کی دعوت کو کون چھوڑتا ہے ، چنانچہ ہم سب تہجد کے بعد بارگاہِ مرشد میں حاضر ہوئے۔ دنیائے دعوتِ اسلامی کے امیر اور کروڑوں مریدین کے پیر و مرشد کے دستر خوان پر اس وقت سحری کے لئے ایک سبزی کا سالن ، پانی میں اُبلا ہوا لوبیا ، تندور کی روٹی اور پانی موجود تھا۔
مہروز بھائی! اس طرح اور بھی بہت سے واقعات ہیں۔ کچھ لوگ دنیا کے سامنے تو متقی پرہیز گار نظر آتے ہیں لیکن تنہائی میں ان کے معاملات اس کے برعکس (Opposite) ہوتے ہیں ، اَلحمدُلِلّٰہ میرے پیر و مرشد کی خلوت (تنہائی) کی عبادات ، ریاضات اور تقویٰ و پرہیز گاری ان کی جلوت سے کہیں زیادہ ہے۔ اللہ پاک کا کتنا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں ایسی ہستی کے دامن سے وابستہ فرمایا ، اللہ کریم ہمیں مرتے دَم تک اور قبر و حشر میں بھی ان کے دامن سے وابستہ رکھے اور جنّتُ الفردوس میں ان کے ساتھ اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پڑوس عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
Comments