انٹرویو

شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

ماہنامہ نومبر 2021

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک “ دعوتِ اسلامی “ 2ستمبر 1981ء کو بنی ، گزشتہ دنوں 2ستمبر 2021ء کو دعوتِ اسلامی کے 40سال مکمل ہونے پر امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  سے یومِ دعوتِ اسلامی کی مناسبت سے انٹرویو لیا گیا جس میں امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  نے پوچھے گئے سوالات کے علم و حکمت سے بھرپور جوابات ارشاد فرمائے ، اس انٹرویو کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے ضرورتاً ترمیم کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔

سائل :

اگر آپ سے پوچھا جائے کہ تین جملوں میں بتائیے کہ دعوتِ اسلامی کیا ہے تو آپ کیا فرمائیں گے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

(1)دعوتِ اسلامی عقائد و اعمال اور نیکی کی دعوت کی سنّتوں بھری تحریک ہے (2)اس میں شمولیت میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں ہیں اور (3)میں امید کرتا ہوں کہ جو اس میں اخلاص کے ساتھ شامل ہوگا ، اس کا کام کرے گا تو اللہ پاک اُسے اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے صدقے جنّتُ الفردوس میں جگہ عطا فرمائے گا۔

 سائل :

دعوتِ اسلامی کرتی کیا ہے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

دعوتِ اسلامی جو بھی کرتی ہے وہ انڈر گراؤنڈ نہیں ہے ، پسِ پردہ نہیں ہے ، کھلی کتاب ہے۔ دعوتِ اسلامی نیکی کی دعوت دیتی ہے ، مسجد بھرو تحریک ہے ، اور اَلحمدُلِلّٰہ دعوتِ اسلامی والوں کی کوششوں سے ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کی اصلاح ہوئی اور بے شمار یا بہت سارے غیر مسلم دامنِ اسلام میں آ گئے ، مسلمان ہوگئے ، یہ صرف باتیں نہیں ہیں بلکہ دعوتِ اسلامی ایک کھلی کتاب ہے جو سب کو نظر آرہی ہے۔

سائل :

تقریباً 40سال ہوگئے ہیں اس کو شروع ہوئے اب آپ دعوتِ اسلامی کو کس جگہ پر ، کس مقام پر دیکھتے ہیں؟

امیرِ اہلِ سنّت :

دعوتِ اسلامی کو بظاہر شہرت تو بڑی ملی لیکن یہ اللہ پاک کی بارگاہ میں قبولیت کی دلیل نہیں ہے ، اللہ پاک قبول کرلے بس یہ ہماری خواہش ہے ، اور اسی لئے کہیں بھی آپ نے ہمارے اشتہار میں یہ لکھا ہوا نہیں دیکھا ہوگا کہ “ دعوتِ اسلامی کے کامیاب 40سال “ ، ظاہر ہے اس بات کا پتا تو مرنے کے بعد ہی چلے گا کہ ہم “ کامیاب “ ہوئے یا نہیں؟ اس لئے جد وجہد تو ہمیں آخری سانس تک جاری رکھنی چاہئے اِنْ شآءَ اللہ ہم ایسا ہی کریں گے۔ اللہ کی رحمت سے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نظر سے ہمیں آگے بڑھتے چلے جانا ہے۔ ابھی تو منزل بہت دور ہے ، بہرحال ہم کوشش کررہے ہیں کہ اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائے کیونکہ اُس کی خفیہ تدبیر تو کسی کو نہیں پتا کہ علمِ الٰہی میں کس کے بارے میں کیا طے ہے؟

سائل :

دعوتِ اسلامی کے لئے سب سے نقصان دہ چیز کیا ہے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

اللہ پاک اور رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نافرمانی۔

سائل :

دنیا میں کئی لوگ تنظیمیں اور ادارے بناتے ہیں مگر جلد ہی ناکام ہوجاتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں؟

امیرِ اہلِ سنّت :

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ، اللہ پاک جس سے چاہتا ہے اس سے کام لیتا ہے ، اب ادارے دنیاوی بھی ہوتے ہیں ، سیاسی بھی ہوتے ہیں ، سماجی بھی ہوتے ہیں اور مذہبی بھی ہوتے ہیں ، اور ہر ادارہ ختم بھی نہیں ہوتا۔ عام طور پر سماجی ادارے ختم نہیں ہوتے یہ چلتے رہتے ہیں ، میں بچپن سے جن سماجی اداروں کا نام سنتا تھا وہ ابھی تک چل رہے ہیں ، اسی طرح کئی سیاسی پارٹیاں بھی طویل عرصے سے چل رہی ہیں اور چلتی رہتی ہیں۔ دینی انجمنیں بعض اوقات بنتی ہیں اور پھر کچھ عرصے بعد سائلینٹ زون میں ضرور چلی جاتی ہیں مگر ختم نہیں ہوتیں ، پھر کبھی کبھی وہ اٹھ جاتی ہیں ، یا بعضوں کا کام ہی ایسا ہوتا ہے کہ سال بھر میں ایک آدھ بار منظرعام پر آتی ہیں پھر سائلینٹ زون میں چلی جاتی ہیں یعنی ان کا کوئی گراؤنڈ ورک نہیں ہوتا اور یہ مختلف ادارے بنانے کے مقاصد اور چلانے والوں کے انداز پر ہوتا ہے۔

سائل :

ایک قیادت میں کیا کیا خوبیاں ہونی چاہئیں؟

امیرِ اہلِ سنّت :

خوفِ خدا و عشقِ رسول ، یہ تو ایک مسلمان قیادت کا فائنل سرمایہ ہے ، اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اور حقیقت میں اللہ پاک کی حمایت ، اللہ پاک کی عنایت ، اللہ پاک کی مدد جس کے شاملِ حال ہو وہی کامیاب ہوتا ہے ، (وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُؕ-) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے۔ (پ3 ، آلِ عمرٰن : 26)   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  تو قائد وہ ہی کامیاب ہوگا جسے اللہ پاک عزت بخشے۔ اس میں اپنے طور پر انسان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا۔ بس اللہ پاک جس کو توفیق دیتا ہے وہی اِخلاص کے ساتھ دینی کام کرتا ہے۔ میں نے اس پر غور کیا تومجھے یہ سب اللہ کی عنایت پر ہی منحصر لگا۔ انسانوں میں سب سے اعلیٰ قائد انبیائے کرام علیہمُ السَّلام ہوئے جو کہ یقیناً100فیصد کامیاب رہے ، کسی نبی کے ساتھ لوگوں کا کم ہونا یا کسی کے ساتھ زیادہ ہونا وہ اپنی جگہ پر مگر ہوئے سب کے سب کامیاب۔ اَہلُ اللہ مثلاً ہمارے غوثِ پاک ، ہمارے غریب نواز ، ہمارے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہم یہ بھی قائدین تھے ، اپنے اپنے طور پرانہوں نے بہت دینی کام کیا ہے اور یہ سب کے سب کامیاب قائدین ہیں ، ان کا سرمایہ بھی خوفِ خدا و عشقِ مصطفےٰ  عَزَّوَجَلَّ  و  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم  ہے۔ ہاں جو صرف شہرت و ناموری کے لئے کام کرتا ہے وہ ناکام ہوجاتا ہے ، اسی طرح کوئی قائد اگر غلط انداز اختیار کرتاہے تو بعض صورتوں میں وہ اپنے شر کی وجہ سے کامیاب نظر آتا ہے لیکن اس کی کامیابی کو حقیقی کامیابی نہیں کہہ سکتے۔ مثلاً یزید کا لشکر کربلا میں بظاہر کامیاب ہوا کہ وہ اپنے زُعمِ فاسد میں غالب ہوا اور اس نے اہلِ بیتِ اطہار کے نونہالوں کو چُن چن کر خاک و خون میں تڑپایا اور شہید کیا ، عِفت مآب خواتین کو قیدی بنایا۔ بظاہر وہ غالب تھے ، خوشیاں مناتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے لیکن آج بھی ان کو ملامت کی جارہی ہے ، اور جو بظاہر مغلوب تھے آج بھی وہ دلوں پر حکومتیں کررہے ہیں ، یہ تو دنیا جانتی ہے۔ اس لئے قِلّت ، کثرت بظاہر غلبہ یا مغلوبیت یہ اصل کامیابی نہیں ہے بس اللہ پاک کی جس کو رضا حاصل ہے جس کا اللہ پاک حامی و ناصر ہے وہ قائد کامیاب ہوتا ہے۔ اب اگر آپ کسی ادارے کے قائد سے متعلق سوال کریں تومیں عرض کروں کہ ادارے کے قائد کو اللہ پاک اگر کامیاب فرمانا چاہے گا تواس میں خوبیاں بھی رکھے گا ، اس کے اَخلاق دُرست ہوں گے ، غصہ اور چڑچڑاپن ، بےجا جذباتیت اور غلط فیصلے کرنے سے اس کی حفاظت فرمائے گا ، اسی طرح وہ ظلم نہیں کرے گا۔ بعض ادارے یا تنظیمیں ظلم پر چلتی ہیں ، اپنے مخالف کو یا تو ڈی گریڈ کرتی ہیں یا مروادیتی ہیں یا کچھ بھی کردیتی ہیں ، اس طرح کے لوگ کامیاب نہیں ہوتے ۔ اپنے شر کی وجہ سے یہ چھا ضرور جاتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں ، دنیا بھی خراب ہوتی ہے اور آخرت بھی داؤ پر لگی رہتی ہے ، اس لئے اگر کوئی دینی راہنما ہے دینی قائد ہے تووہ خوفِ خدا و عشقِ مصطفےٰ کا پیکر ہو ، مجسَّم حسنِ اخلاق ہو ، اس کے اندر نرمی ہو ، سخاوت ہو ، سب کی سننے کا حوصلہ ہو ، جو غلط مشورہ دے اس کو بھی جھاڑتا نہ ہو ، اس کی بھی سُن لیتا ہو ، ہر ایک کو اہمیت دیتا ہو ، کچھ کو اہمیت دی اور کچھ کو نظر انداز کیا ، یا اُس کو جھاڑ دیا یا اس کو ڈانٹ دیا ، اس طرح کرنے والا قائد زیادہ کامیاب نہیں ہوتا۔ بچوں کے ساتھ ، بوڑھوں کے ساتھ ، سب کے ساتھ اس کا سُلوک مُشفِقانہ ہوگا ، ہمدردانہ ہوگا تو وہ کامیاب ہوگا ، اگر اس کا رویہ جارحانہ (یعنی جھگڑنے والا) ہوگا ، حاکمانہ ہوگا تو کامیاب ہونا مشکل ہے۔ دیکھئے میں اداروں کے قائد کی بات کررہا ہوں ، حکمرانوں کی بات نہیں کررہا ، حقیقت میں یہ اللہ پاک کی خاص عطا ہے وہ جس پر ہوجائے ، بہت سوں میں یہ خوبیاں ہوتی ہیں لیکن پھر بھی وہ قائد نہیں بن پاتے اور بہت سوں میں یہ خوبیاں کم ہوتی ہیں اس کے باوجود وہ کامیاب ہوجاتے ہیں ، تو یہ بس اللہ کی دَین ہے۔

سائل :

آج ہم اللہ کے کرم سے دعوتِ اسلامی والوں میں مَحبّت ، اِتّفاق دیکھ رہے ہیں ، آگے بھی یہ رہے اس کے لئے آپ کیا نصیحت فرمائیں گے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ کریم دعوتِ اسلامی کو افتراق و انتشار سے بچائے ، جب کسی تحریک میں جذباتی لوگ آجاتے ہیں ، جن کی قوّتِ فیصلہ کمزور ہو ، وہ جذباتی فیصلے کریں اور خود رائی کے مالک ہوں ، بس میں نے جو کہہ دیا ، وہ کرلو ، جو میں کہتا ہوں وہی کرنا ہے ، تو اس طرح ایک آدھ بار ہوسکتا ہے ماتحت عمل کرلیں لیکن آہستہ آہستہ ان کے اندر بغاوت پھیلے گی۔ اس لئے اگر سب کو محبت دینے والے قائد دعوتِ اسلامی کو ملتے رہیں گے ، ہمارے ذمّے داران سب کو محبت دیں گے پیار دیں گے ، سب کو اہمیت دیں گے ، جس طرح ایک سلجھے ہوئے سمجھ دار اسلامی بھائی کے مشورے کو غور سے سنتے ہیں اسی طرح جو بالکل ہی اُوٹ پٹانگ مشورے دیتے ہیں ان کو بھی اسی طرح سنیں گے اور ان کی بھی مسکرا کر ترکیب کریں گے ، تو اِنْ شآءَ اللہ فساد کااندیشہ نہیں ہوگا۔ ہوتاا س طرح ہے کہ بعض اوقات کسی علاقے میں کوئی ذمّے دار مخصوص افراد کے ساتھ اپناگروپ سیٹ کرلیتا ہے ، انہی کی باتیں سنتا ہے اور جو بیچارے مشورہ دینے وغیرہ میں کمزور ہوتے ہیں ان کو ڈی گریڈ کیا جاتا اور نظر انداز کیا جاتا ہے تو یوں ماتحتوں کے دلوں میں نفرت کی آگ شعلہ زن ہوجاتی ہے جو دینی کاموں کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے ذمہ داران کو چاہئے کہ “ محبت دو محبت لو “ کے فارمولے پر عمل کریں۔

سائل :

آپ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ عزیز چیز کیا ہے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

 اللہ پاک اور رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے مجھے سب سے زیادہ محبت ہے ، اور یہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔

سائل :

دعوتِ اسلامی والوں کو اپنا معیار کس شخصیت کوبنانا چاہئے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

اس دور میں یعنی ہمارے قریبی زمانے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  بہت بڑے عاشقِ رسول عالمِ دین ہوئے ان کو اپنا معیار بنائیے ، میں نے آپ کی سیرت پڑھی ہے ، آپ کے فتاویٰ دیکھے ہیں ، آپ صرف وہی بات کرتے ہیں جو قراٰن و حدیث کے مطابق ہو۔ اس لئے میں نے آپ کا دامن تھاما کہ آپ اُمّت کو قراٰن و حدیث کے راستے پر چلا رہے ہیں ، اس لئے میں ان کے پیچھے چل پڑا ، اَصْل منزِل تو اللہ و رسول  عَزَّوَجَلَّ  و  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی رضا ہے جو اِنْ شآءَ اللہ اس راستے کے ذریعے بھی ہم کو حاصل ہوجائے گی۔ تو اس کے لئے جدو جہد جاری رکھنی ہے ، براہِ کرم! کبھی بھی دعوتِ اسلامی کو چھوڑ کر مت جائیے گا ، بالفرض کوئی دھکے بھی مارے تب بھی دعوتِ اسلامی سے نکلنا نہیں ہے ، بس دعوتِ اسلامی سے چپکے رہنا ہے ، اِنْ شآءَ اللہ دعوتِ اسلامی ہمیں ضرور مدنی آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے قدموں تک پہنچائے گی۔

سائل :

دعوتِ اسلامی کے چالیس(40)سال مکمل ہونے پر آپ دعوتِ اسلامی والوں کو کیا پیغام دیں گے؟

امیرِ اہلِ سنّت :

ہمیشہ وہی کام کرنا ہے جس سے اللہ و رسول  عَزَّوَجَلَّ  و  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  راضی ہوں ، اللہ و رسول کی ناراضی والاکام کبھی بھی نہیں کرنا ، بظاہر آپ کو کتنا ہی فائدہ حاصل ہوتا ہو ، بظاہر کسی کام میں دین کا فائدہ نظر آرہا ہو مگر اس میں اللہ و رسول کی نافرمانی کرنی پڑتی ہو تو وہ کام ہرگز نہیں کرنا ، یہ ایک مثال مبالغے کے ساتھ میں نے دی ہے۔ ہم جب تک اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری کرتے رہیں گے ، صحابہ و اہلِ بیت و اولیائے کرام کے نقشِ قدم پر چلیں گے تو اِنْ شآءَ اللہ ہم کامیاب ہوں گے۔ ہمیشہ پیارے مصطفےٰ و انبیا و صحابہ و اہلِ بیت اور اولیائے کرام کی محبت اپنے دل میں بسا کر رکھنی ہے اور ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہنا ہے ، اِنْ شآءَ اللہُ الکریم آپ ہمیشہ کامیابی کی منزل پر گامزن رہیں گے ، اگر اس سے ہٹیں گے تو پھر کامیابی مشکل ہے۔

 


Share

Articles

Comments


Security Code