کمپرومائز

کتابِ زندگی

کمپرومائز

*مولانا ابوجواد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2023

کچھ عرصہ قبل ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ میں ایک حکایت پڑھی تھی کہ ایک سیٹھ اپنی ذاتی کار میں سفر پر تھا۔ ایک دَم اُس نے دیکھا کہ ایک ٹَرک اُن کی گاڑی کے بالکل سامنے آچکا ہے ، قریب تھا کہ ٹکر ہوجاتی مگر سیٹھ نے اپنے ڈرائیور کو گاڑی کچے پر اُتارنے کا حکْم دیا جس پر ڈرائیور نے فوراً عمل کیا ، لمحے بھر کی تاخیر اُنہیں موت کے منہ میں پہنچا دیتی ، جب سیٹھ نے ڈرائیور سے وضاحت مانگی تو وہ نادان کہنے لگا کہ ہم صحیح سائیڈ پر تھے ، قُصور اُس ٹَرک والے کا تھا ، اِس لئےاُصولی طورپر میں نے پہلے گاڑی کچے میں نہیں اُتاری تھی ، اب جہاندیدہ سیٹھ نے اُسے سمجھایا کہ اگر میں لچک نہ دکھاتا  ( کمپرومائز نہ کرتا ) تو تم اپنا اُصول بیان کرنےکے لئے زندہ نہ ہوتے۔

معزز قارئین ! یہی کمپرومائز اگر دنیا کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد کریں تو ہمارا معاشرہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ بن سکتا ہے اور ہماری زندگی پُرسکون ہو سکتی ہے۔یہ کمپرومائز مختلف طرح کے لوگوں کے لئے کس طرح مفید ہو سکتا ہے چند ایک کی نشاندہی کی جا رہی ہےآپ بھی پڑھئے :

 ( 1 ) ایک دوسرے کی بات اچھی نہ لگنے پر میاں بیوی کمپرو مائز کریں تو دونوں کا گھر اور زندگی برباد ہونے سے بچ سکتی ہے اور دونوں کی زندگی چین و سکون والی گزر سکتی ہے۔

 ( 2 ) اگر سیٹھ و نوکر کمپرو مائز کریں تو دونوں خوش رہ سکتے ہیں مثلاً نوکر اگر کبھی کچھ لیٹ ہو جائے یا کبھی سیٹھ کی مرضی کے مطابق کام نہ کر پائے تو سیٹھ کمپرومائز کرے اور ہلکی پھلکی تنبیہ سے کام چلائے اگر سیٹھ صاحب نے کسی غلطی پر نوکر کو ڈانٹ دیا یا کوئی مزاج کے خلاف بات کر دی تو نوکر کمپرومائز کرے ، اس طرح دونوں فائدے میں رہیں گے کہ یوں سیٹھ کا کاروبار پھلتا پھولتا رہے گا اور نوکر کا گھر چلتا رہے گا۔

 ( 3 ) یہی کمپرومائز اگر آپس میں بھائی بہنوں میں ہو اس طرح کہ ایک دوسرے کی بات ماننے اور مزاج کے خلاف کچھ ہونے پر برداشت و درگزر کا معاملہ کرتے رہیں تو گھریلو زندگی خوشحال ہو سکتی ہے۔

 ( 4 ) اگر والدین کی کوئی بات بَروقت سمجھ نہ آنے پر اولاد کمپرومائز کرے تو اولاد کے لئے سعادت مندی اور والدین کی خوشی کا سبب ہوگا۔ اسی طرح اولاد اگر کوئی بات نہ مانے تو والدین ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی بجائے اس کا کوئی اور حل نکالیں اور کمپرومائز والا معاملہ رکھیں۔

 ( 5 ) کہتے ہیں”دوست زندگی ہوتے ہیں“ لیکن جو کمپرومائز نہیں کرتا یعنی بات بات پر لڑائی ، جھگڑا کرتا اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہو جاتا ہے اس کے دوست بھی کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

 ( 6 ) مسافر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے کمپرو مائز کریں تو سفر خوشگوار ہو سکتا ہے۔ مثلاً بغیر سیٹ والے بیمار یا بوڑھے افراد کو ممکنہ صورت میں سیٹ پیش کرکے یا جس کو ہمارے تعاون کی حاجت ہوتو اس کے ساتھ تعاون کرکے ثواب کے حقدار بنئے۔

 ( 7 ) مسجد انتظامیہ ، امام ، مؤذن ، خادم اور نمازی آپس میں  ( جہاں تک شریعت اجازت دے ) کمپرو مائز کریں تو مسجد کا انتظام اچھا ہو سکتا ہے۔یعنی اگر امام ، مؤذن کبھی لیٹ ہو جائیں ، خادم صفائی وغیرہ میں کبھی کوتاہی کرے تو انتظامیہ اور نمازی کمپرومائز کریں۔

 ( 8 ) ٹریفک جام ہونے کا ایک عام سا سبب بھی شاید کمپرو مائز نہ کرنا ہے کہ کسی ایک کی گاڑی اس کی جلد بازی کے سبب بیچ ٹریفک میں کبھی ایسی رکتی ہے کہ سارے اسی وجہ سے پریشان ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں سب ہی کمپرومائز کریں  ( تھوڑا رک جائیں تا کہ جو گاڑی درمیان میں کسی وجہ سے رکی ہوئی ہے وہ نکل جائے )  تو ہو سکتا ہے اس پریشانی سے سبھی کو جلد نجات مل جائے۔

 ( 9 ) اگر ڈاکٹر مریض کے ساتھ اور بعض صورتوں میں مریض ڈاکٹر حضرات کے ساتھ کمپرومائز والا معاملہ رکھیں تو بھی کئی پریشانیاں کم بلکہ ختم ہو سکتی ہیں۔اس طرح کہ مریض کی طرف سے اس کی مرض کے متعلق کئے گئے سوالات کے جوابات احسن انداز میں دےکر ڈاکٹر اس کو مطمئن کرے اور معقول سوالات سے بیزار نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب بلاوجہ فقط اپنا مفاد حاصل کرنے کے لئے بھاری رقموں کی دوائیں اور میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ نہ لکھے۔

 ( 10 ) بچّہ ماں کی محبتوں اور شفقتوں کے سائے میں پروان چڑھتا ہے ، اگر ماں اپنے بچے کے بار بار رونے اور ضد کرنے پر کمپرومائز نہ کرے تو شاید بچے کی درست تربیت نہ ہو سکے۔

 ( 11 ) ایک دکاندار اگر اپنے کسٹمرز کے تیکھے جملوں پر کمپرومائز کر کے خوش اخلاقی سے برداشت نہ کرے تو شاید اس کی دکان جلد ہی ویرانی کا شکار ہو جائے۔

قارئینِ کرام ! اگر کمپرومائز کے مفہوم کو سمجھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ دراصل برداشت ، معاف اور درگزر کرنا ہی ہے۔ اس کا درس ہمیں قراٰن و حدیث میں واضح ملتا ہے ، ہمارا مہربان رب فرماتا ہے : (خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ ( ۱۹۹ ) ) ترجَمۂ کنزُالایمان : اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔ ( پ9 ، الاعراف : 199 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)    ایک دوسری آیت میں اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف میں درگزر کرنا بھی بیان ہوا ہے : (وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ( ۶۳ ) ) ترجَمۂ کنزُالایمان : اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔  ( پ19 ، الفرقان : 63 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

 اور مسندِ احمد میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان موجود ہے : صِلْ مَنْ قَطَعَكَ وَاَعْطِ مَنْ حَرَمَكَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ یعنی جو تم سے ناطہ توڑے تم اس سے جوڑو ، جو تمہیں محروم کرے اُس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو۔

 ( مسند احمد ، 28 / 654 ، حدیث : 17452 )

آپ بھی کمپرومائز کیجئے اور خوشحال زندگی پایئے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی


Share