اسلام میں بدشگونی نہیں

اسلام اور عورت

اسلام میں  بدشگونی  نہیں

*ام میلاد عطّاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023

بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کچھ چیزوں کو اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں اور بعض چیزوں کو اپنے حق میں منحوس سمجھتے ہیں ، اسی لئے اگر انہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے تو کہتے ہیں کہ یہ فلاں کی نَحوست ہے اور اس کی وجہ سے ہمارا یہ نقصان ہو گیا مثال کے طور پر آپس میں لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا ، رشتہ ٹوٹ گیا ، اگرچہ اِن سب کی اصل وجہ کچھ اور ہو۔ یاد رہے کہ اسلام میں بدشگونی کا کوئی تَصَوُّر  ( Concept )  نہیں اور یہ صرف  بے بنیاد خیالات ہوتے ہیں جنہیں توہّمات بھی کہا جاتا ہے۔یہ توہّمات اور بدشگونیاں ( Bad omen )  انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں ، جب کہ ایک مسلمان کو اللہ پاک پر پکّا ایمان رکھنا چاہئے یہ پکّا یقین اور توکّل  ( بھروسا  ) مسلمان کو جرأت ، بہادری اور اعتماد دیتا ہے۔

 شریعت میں حکم ہے : ”اِذَا تَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا جب کوئی  شگونِ بد ، گمان میں آئے تو اس پر عمل کرگزرو ۔

مسلمان کو چاہئے کہ ’’ لَا طَيْرَ اِلَّا طَيْرُكَ ، وَلَا خَيْرَ اِلَّا خَيْرُكَ ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُكَ  ‘‘  ( ترجمہ : اے اللہ ! نہیں ہے کوئی برائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ )  پڑھ لے ، اور اپنے رب پر بھروسا کرے۔ جس کام کے بارے میں بُرا شگون آرہا ہو وہ کر ڈالے۔ [1]

اور اگر پھر بھی مرضی کے مطابق نتائج نہ نکلیں یا کوئی بیماری یا پریشانی آئے تو اس پر یہ ہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے نہ کہ کسی چیز کی نحوست کی وجہ سے ایسا ہوا ہے جیسا کہ قراٰن پاک میں ارشاد ہوتا ہے : (مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ یَهْدِ قَلْبَهٗؕ-وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ( ۱۱ ) )

ترجَمۂ کنزالعرفان : ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیدے گا اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔[2] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

خلاصہ یہ ہے کہ موت ، مرض اورمال کا نقصان وغیرہ الغرض ہر مصیبت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے اور  جو  شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور یقین رکھے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت  ( اس کے چاہنے )  اور اس کے ارادے سے ہوتا ہے اور مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھے اور اللہ تعالیٰ کی عطا پر شکر اور آزمائش پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ہدایت دے دے گا کہ وہ اور زیادہ نیکیوں اور فرماں برداری والے کاموں  میں مشغول ہوگا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔[3]

یہ سوچ ایک مسلمان کو ہر حال میں مطمئن رکھتی ہے کہ جو ہُوا اللہ تعالیٰ کی   مرضی سے ہُوا ، اس میں ضرور کوئی اللہ تعالیٰ کی حکمت پوشیدہ ہے۔میرا رب بہتر جانتا ہے۔

اسلامی سال کے دوسرے مہینے صفرالمظفرکے متعلق بھی لوگوں بالخصوص خواتین میں بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ اس ماہ کو مَردوں پر بھاری سمجھنا ، اس کی 13 تاریخ کو منحوس سمجھنا ، اس مہینے کو بلاؤں کے اُترنے کا مہینا سمجھنا ، بیماریوں کا مہینا سمجھنا وغیرہ۔

اور ان  بے بنیاد خیالات پر عمل کرتے  ہوئے کئی کام ایسے ہیں جنہیں اس ماہ میں کرنے سے روکا جاتا ہے ، مثلاً اس ماہ میں شادی نہ کرنا ، سفر نہ کرنا ، کاروبار کا آغاز نہ کرنا۔ اسی طرح صفر کے مہینے میں مختلف چیزیں پکا کر محلے میں اس لئے بانٹنا کہ اس ماہ کی بلائیں ٹل جائیں ،  دینِ اسلام میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔

ایسی باتوں کو عام کرنے والی اکثریت وہ ہے جو دینِ اسلام کی تعلیمات سے دور ہے۔ اگر ہم قراٰن و سنت کا علم حاصل کریں ، سیرت کا مطالعہ کریں تو نہ صرف ہمارے ایمان کو تقویت وطاقت ملے گی بلکہ صحیح اور غلط کی پہچان بھی کرسکیں گے۔ شیرِ خدا حضرت علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم  اور شہزادیِ مصطفےٰ حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا کا نکاح صفر کے مہینے میں ہوا۔[4]  اگر ماہِ صفر میں شادی کرنا منع ہوتا تو کیا ان مقدس ہستیوں کی اس مہینے میں شادی ہوئی ہوتی ؟ اورکسی کا یہ خیال ہے کہ ماہِ صفر المظفر میں صرف ناکامی ہی کا سامنا ہوسکتا ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ ماہِ صفر ہی وہ مہینا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و نصرت سے نوازا اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اور آپ کے پیارے صحابۂ کرام رِضوانُ اللہ علیہم اجمعین کو خیبر کی فتح عطا ہوئی۔[5]

اللہ تعالیٰ ہمیں کسی چیز کو منحوس سمجھنے اور اس سے بدشگونی نہ لینے کی توفیق عطا فرمائے ، اٰمین۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت  ( دعوتِ اسلامی )  اسلامی بہن



[1] فتاویٰ رضویہ ، 29 / 641 ، مفہوماً

[2] پ28 ، التغابن : 11

[3] خزائن العرفان ، 1030 ، ملخصاً

[4] الکامل فی التاریخ ، 2 / 12

[5] البدایہ والنہایہ ، 3 / 392


Share

Articles

Comments


Security Code