فریاد
سوچ اور اصلاح میں پلس مائنس
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2023ء
ہماری زندگی میں کئی مواقع ایسے آتے ہیں کہ جہاں ہم پلس یا مائنس کردار ادا کرتے ہیں۔ اہلِ عقل کی رائے اور اپنی زندگی کی کثیر بہاریں دیکھ چکنے والوں کے تجربات سے یہی ثابت ہے کہ اگر ہم پلس انداز اختیار کریں تو زندگی بہت سی الجھنوں ، پریشانیوں اور ذہنی فکروں سے آزاد ہوکر خوشگوار گزرتی ہے جبکہ مائنس انداز اختیار کرنے سے طرح طرح کی فکریں الجھائے رکھتی ہیں۔
اس مضمون میں دو چیزوں یعنی ” سوچ “ اور ” اصلاح “ کے متعلق توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے :
سوچ میں مثبت اور منفی انداز :
سوچ ( Thought ) کے دو زاویے ہوتے ہیں ایک مثبت ( Positive ) اور دوسرا منفی ( Negative ) ، ” مثبت سوچ “ انسان کےلئے پلس راستہ جبکہ منفی سوچ مائنس راستہ ہے۔ دوسروں کے بارے میں اچھا سوچنا اور ان کے ساتھ اچھا کرنا ، لڑائی جھگڑے سے بچنا اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرنا ، ناراض میاں بیوی اور ٹوٹ پھوٹ کے شکار خاندانوں کو آپس میں ملا نے اور جوڑنے والی باتیں کرنا ، یہ سب ” مثبت سوچ “ ہی کے نتائج ہیں۔ جبکہ دوسروں کے بارے میں بُرا سوچنا ، گھر ، محلے اور ادارے وغیرہ میں لڑائی کروانا ، ناراض میاں بیوی اور رشتہ داروں میں مزید پھوٹ ڈالنے والی باتیں کرنا ، اچھائیوں کی بجائے برائیاں ہی بیان کرتے رہنا ، یہ سب منفی سوچ ہی کے کرِشمے ہیں۔ ” مثبت سوچ “ کی وجہ سے دل اور دماغ پُر سکون رہتے ، طبیعت اچھی رہتی ، زندگی خوش گوار گزرتی ہے۔ جبکہ ” منفی سوچ “ کی وجہ سے انسان ڈپریشن ، ٹینشن ، اینگزائیٹی ( گھبراہٹ ) ، شوگر لِیوَل کے بڑھنے ، بلڈ پریشر کے بگڑنے ، بے چینی ، بے قراری ، بے سکونی ، نیند نہ آنے اور دیگر کئی طرح کی بیماریوں اور پریشانیوں کا شکار رہتا ہے۔یاد رکھئے ! ہمارا پیارا دین ِاسلام ہمیں اچھا ( پلس ) سوچنے کا درس دیتا اور بُرا ( مائنس ) سوچنے اوربُرا کرنے سے بھی روکتا ہے۔
اصلاح میں مثبت اور منفی انداز :
اصلاح کرنا یعنی کسی کی غَلَطی کی نشاندہی کرنا اور اسے اس غلطی سے بچانا ، اس میں پلس یہ ہے کہ ” اوّلاًیہ کنفرم کرلیا جائے کہ واقعی سامنے والے نے فلاں غلطی کی بھی ہے یا نہیں ؟ قراٰن ِکریم نے بھی ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ جب کوئی خبر ملے تو اس کی تحقیق ضرور کرلی جائے۔ ( پ26 ، الحجرات : 6 ) دوسرے نمبر پر یہ معلوم کرلیا جائے کہ اس سے یہ غلطی کس وجہ سے ہوئی ہے ، مثلاً علم کی کمی یا کسی غلط فہمی یا غصے یاجذباتی ہونے یا پھر بغض ، کینہ ، حسد اور اس طرح کی کسی اور وجہ سے غلطی ہوئی ہے ، کیونکہ غلطی کی وجہ معلوم ہوجانے کے بعد سامنے والے کی اصلاح آسان اور زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے۔ اصلاح کا مثبت انداز یہی ہے کہ اکیلے میں ، نرمی سے ، مختصر الفاظ کے ساتھ اور موقع محل دیکھ کر کی جائے ، نیز اصلاح کرنے والے کا انداز بھی ایسا ہو کہ جس سے سامنے والے کو یہ احساس ( Realize ) ہوسکے کہ واقعی یہ ہمارے خیر خواہ ہیں نہ کہ ہمیں ذلیل کرنے والے۔ اصلاح کرنے میں شریعت نے جسے ( مثلاً استاد ، والد اور شوہر کو ) سختی کرنے کی اجازت دی ہے ، اسے بھی شریعت کی حَد ( ) سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔
اور اصلاح میں منفی انداز یہ ہے کہ ” بغیر اجازتِ شرعی سختی کے ساتھ اصلاح کرنا‘‘ جوسختی اور غصے کے ساتھ اصلاح کرتا ہے اس کی مثال ایسے ہے جیسے برتن میں کچھ ڈالنے سے پہلے ہی اس میں سوراخ کردیا ، نیز سختی کے ساتھ اصلاح کرنے کا ایک بڑا سائیڈ افیکٹ یہ بھی ہے کہ سامنے والا آپ کے رویّے ہی میں کھوجائے گا اور آپ کے الفاظ کی طرف اس کادھیان بھی نہ رہے گا۔ اسی طرح اصلاح کے نام پر سامنے والے کو لمبا چوڑا لیکچردے دینا ، لوگوں کے سامنے اس کی غلطیاں بتا کر اصلاح کرنا نیز عمراور مقام و مرتبے کا لحاظ نہ رکھنا یہ سب اصلاح کے منفی انداز ہیں۔
اصلاح کے متعلق اگر مذکورہ پلس چیزوں کو اپنایا جائے اور مائنس چیزوں سے پرہیز کیا جائے تو گھر ، پڑوس ، محلے ، ادارے اور آفسز وغیرہ امن کے گہوارے بنے رہیں گے اور آپس کی محبتیں بھی قائم رہیں گی۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے ! ثواب کی نیت کے ساتھ اپنی سوچ اور اصلاح کے طریقۂ کار کا جائزہ لیجئے ، پلس سوچ اور انداز اپنا کر زندگی کے سفر کو آسان کیجئے ، نیز مائنس سوچ کو اپنی ڈکشنری ہی سے مائنس کرنے کی نیت فرمالیجئے۔
اللہ پاک ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments