حقیقتیں

کتابِ زندگی

حقیقتیں ( Realities )

  ( قسط : 01 )

*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2023

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : کَمَا تَدِینُ تُدَان یعنی تم جیسا کروگے ویسا بھروگے۔  [1]

اسلام اپنے ماننے والوں کو معاشرے کا بہترین فرد بننے کے لئے سچائی ، دیانت داری ، خیرخواہی ، ہمدردی ، قربانی ، بُرد باری ، حکمتِ عملی وغیرہ کے ساتھ ساتھ حقیقت شناسی بھی سکھاتا ہے۔مذکورہ حدیث پاک میں بھی ایک حقیقت کا بیان ہے کہ ’’جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔ ‘‘اس حقیقت کا علم رکھنے والا کسی کے ساتھ بُرا کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا کہ جو میں آج اس کے ساتھ کرنے لگا ہوں وہی کل میرے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح کی کئی حقیقتوں کا بیان قراٰن و حدیث ، دینی بُزُرگوں کے فرامین اور مختلف زبانوں کے محاوروں وغیرہ میں موجود ہے۔ہم بہت ساری چیزوں کو محض اپنی سوچ کے مطابق دیکھتے ہیں اور ڈسٹرب ہوتے رہتے ہیں حالانکہ اگر ہم کچھ حقیقتوں کو سامنے رکھیں تو کئی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں۔ میں نے کوشش کرکے ایسی حقیقتوں کو جمع کیا جن کا بیان مختصر لیکن اثرات طویل ہوتے ہیں ، فی الحال ان میں سے22 حقیقتیں ضروری وضاحت و ترغیب کے ساتھ آپ کی طرف بڑھاتا ہوں :

22 حقیقتیں

 ( 1 ) ہرمشکل کے بعد آسانی ہے۔ قراٰنِ کریم میں ہے :  ( فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ ( ۵ )  ) ترجمۂ کنز الایمان : تو بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے۔[2]  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   حُضُور غوثُ الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : شروع میں مجھ پر بہت سختیاں رکھی گئیں اور جب سختیاں انتِہا کوپہنچ گئیں تو میں عاجِز آکر زمین پر لیٹ گیا اور میری زَبان پر قراٰنِ پاک کی یہ دو آیاتِ مبارکہ جاری ہو گئیں۔ ( فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ ( ۵ ) اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاؕ ( ۶ ) ) ترجمۂ کنزالایمان : تو بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے ، بے شک دشواری کے ساتھ اور آسانی ہے۔[3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   الحمدللہ ! ان آیاتِ مبارکہ کی بَرَکت سے وہ تمام سختیاں مجھ سے دُور ہو گئیں۔[4]

قارئین ! کیسی ہی مشکلات آجائیں ، مایوس نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ اس حقیقت کو نظروں کے سامنے رکھیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اِن شآءَ اللہ ایک دن خوشیوں کا سورج طلوع ہوگا اور غموں کے اندھیرے چَھٹ جائیں گے۔

 ( 2 ) نعمت کی ناشکری کرنے پر نعمت چِھن جاتی ہے۔قراٰنِ پاک میں ہے : ( ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْۙ     )  ترجمۂ کنزالایمان : یہ اس لیے کہ اللہ کسی قوم سے جو نعمت انہیں دی تھی بدلتا نہیں جب تک وہ خود نہ بدل جائیں۔[5] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

گزری ہوئی اور موجودہ قوموں کے عروج و زوال کیلئے یہی اٹل قانون ہے کہ نعمت کا شکر اور حق ادا کرنے پر نعمت بڑھ جاتی ہے اور ناشکری کرنے پرسزا دی جاتی ہے۔[6]اللہ کریم نے ہمیں اتنی کثیر نعمتیں عطا کی ہیں کہ ہم گِن نہیں سکتے ، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہئے اور ان پر ربِّ کریم کا شکر ادا کرنا چاہئے ، جو نعمتیں ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ایک شخص نے کسی تقریب میں مالدار لوگوں کو مہنگے لباس ، جوتے اور قیمتی گھڑیاں وغیرہ پہنے دیکھا تو بول اٹھا کہ جو ان کے پاس ہے وہ ہمارے پاس کیوں نہیں ہے ؟ اس کا دوست اسے قریبی بستی میں لے گیا جہاں لوگ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیوں میں رہتے تھے ، ان کے پاس بجلی تھی نہ گیس اور نہ پینے کو صاف پانی ، گھروں میں راشن تھا نہ بچوں کے تن پر پورا لباس ! وہاں پہنچ کر دوست نے سمجھایا کہ ان کے پاس بھی وہ کچھ نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے۔

 ( 3 ) ہر جاندار کو اس کا رزق ملے گا۔ کوئی جان اپنا رزق کھائے بغیر دنیا سے نہیں جائے گی اور یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی اور ہمارے حصے کا رزق کھا لے ، چنانچہ رزق ! مقدر سے پہلے ملے گا نہ نصیب سے زیادہ ! فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُہٗ اَجَلُہٗ ترجمہ : بندے کو رِزْق ایسے تلاش کرتا ہے جیسے بندے کی موت اس کو تلاش کرتی ہے۔[7]حکيم الامّت مفتی احمد يار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مقصد یہ ہے کہ موت کو تم تلاش کرو یا نہ کرو بہرحال تمہیں پہنچے گی ، یوں ہی تم رزق تلاش کرو یا نہ کرو ضرور پہنچے گا ، ہاں رزق کی تلاش سنّت ہے موت کی تلاش ممنوع ، مگر ہیں دونوں یقینی۔[8]

 ( 4 ) ہر بات کہنے والی نہیں ہوتی اسی طرح ہر بات سننے والی بھی نہیں ہوتی۔جیسے غیبت کرنا بھی گناہ ہے اور سننا بھی گناہ ! کچھ لوگ غیبت کرنے کو تو بُرا سمجھتے ہیں لیکن سننے میں کوئی حرج نہیں جانتے ، ان کا خیال ہوتا ہے کہ ہم تو کسی کی غیبت نہیں کررہے بلکہ دوسرا شخص کررہا ہے ، گناہ ہوگا تو اس کو ہوگا ، ہمارا دامن صاف ہے ، یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گانا گانے اور گانا سننے سے اور غیبت کرنے اور غیبت سننے سے اور چغلی کرنے اور چغلی سننے سے منع فرمایا۔[9] حضرتِ علامہ عبد الرء ُوف مُناوِی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : غیبت سننے والا بھی غیبت کرنے والوں میں سے ایک ہوتا ہے۔[10]

 ( 5 )  کچھ لوگ ہمارے آنے کا انتظار کرتے ہیں جبکہ کچھ ہمارے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس لئے دوسری قسم کے لوگوں کے پاس رک کر اپنا وقار نہیں گرانا چاہئے۔

 ( 6 ) کسی کو اپنا بنانے کے لئے سو خوبیاں بھی کم پڑجاتی ہیں اور کسی اپنے کو دور کرنے کے لئے ایک ہی غلطی کافی ہوتی ہے۔ اس لئے کسی سے کیسی ہی بے تکلفی ہومحتاط رہئے۔

 ( 7 ) اخلاق کی اچھائی اور ظرف کی بڑائی کا امتحان تعلق ختم ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے۔جب تک کسی سے تعلقات اچھے ہوتے ہیں اس کا پسینہ بھی گویا خوشبودار لگتا ہے اور جس سے تعلقات خراب ہوجائیں اس کا عطر بھی بدبودار لگتا ہے۔ بہرحال ہمیں اپنا اخلاق اچھا اور ظرف وسیع رکھنا چاہئے ، کسی سے تعلقات ختم ہوبھی جائیں تو اس کے عیب نہ اُچھالے جائیں ، راز نہ کھولے جائیں اور اس کی غیبت نہ کی جائے۔

 ( 8 ) غصہ جس طرح ہمیں آتا ہے دوسروں کو بھی آتا ہے۔ عمل کے بعد ردِّ عمل بھی ہوگا ، سوچ لیجئے کیا آپ برداشت کرسکیں گے ، اس لئے غصہ پینے ہی میں عافیت ہے۔

 ( غصے کے بارے میں معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کا34صفحات کا رسالہ ’’غصے کا علاج‘‘ پڑھ لیجئے۔ )

 ( 9 ) اگر کوئی چھوٹی سی بات پر ہم سے متأثر ہوسکتا ہے تو چھوٹی سی بات پر بدظن بھی ہوسکتا ہے۔اس لئے لوگوں کی عقلوں کے مطابق کلام اور کام کیجئے۔

 ( 10 ) ہم جب چاہیں کسی سے دور تو ہوسکتے ہیں لیکن جب چاہیں قریب نہیں ہوسکتے۔کیونکہ یہ فیصلہ سامنے والے نے کرنا ہے کہ وہ ہمیں اپنے قریب کرنا پسند کرتا ہے یا نہیں ؟ یہ درحقیقت دل کا معاملہ ہوتا ہے اور دل کے خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، اِس حقیقت کو فرمانِ نبوی علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام میں یوں بیان کیا گیا ہے : ”دِل کی مثال اس پَر کی سی ہے جو میدانی زمین میں ہو جسے ہوائیں ظاہِر باطِن الٹیں پلٹیں۔“[11]

 ( 11 ) اپنے دہی کو کوئی کھٹا نہیں کہتا ، اس لئے بیوی کو چاہئے کہ شوہر سے اس کے گھر والوں کی شکایت اگر کرنا ہی پڑے تو محتاط الفاظ اور اندازمیں کرے۔یہی اصول ہمیں ماں باپ سے اولاد کی شکایت کرتے وقت اپنانا چاہئے۔

 ( 12 ) انسان دوچہرے نہیں بھولتا ، ایک غم میں ساتھ دینے والے کا اور ایک ساتھ چھوڑ جانے والے کا۔اس لئے ہمیں غمزدہ کوتسلی بھی دینی چاہئے اور اس کے غم دور کرنے میں اس کی مدد بھی کرنی چاہئے۔رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشاد فرمایا : جو کسی غمزدہ شخص سے تعزِیَت کر ے گا اللہ پاک اسے تقوٰی کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیَت کرے گا اللہ پاک اُسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت  ( ساری  ) دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔  [12]

 ( 13 ) چھوٹی سی غلط فہمی یا بدگمانی برسوں کا تعلق چند منٹ میں ختم کرسکتی ہے۔اس لئے اگر غلط فہمی ہو تو اس کو دور کرلیا جائے اور بدگمانی ہونے کی صورت میں شریعت کے حکم پر عمل کرکے بدگمانی سے جان چھڑا لی جائے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : ”بدگُمانی سے بچو بے شک بدگُمانی بدترین جھوٹ ہے۔“[13]

 ( بدگمانی کے بارے میں مزید معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کا 63 صفحات کا رسالہ ’’بدگمانی‘‘ پڑھ لیجئے۔ )

 ( 14 ) بے دردکو پرائی مصیبت معلوم نہیں ہوتی ، اس لئے ہرایک کو اپنی پریشانی نہیں بتانی چاہئے۔

 ( 15 ) کسی کو برداشت کرنا مشکل ہو تو یہ سوچ لیں کہ ہوسکتا ہے بہت سے لوگ آپ کو بھی برداشت کررہے ہوں۔

 ( 16 ) بوڑھوں سے تنگ نہ ہوا کریں ، ان کے سفید بالوں سے ساراگھر چمک رہا ہوتا ہے۔

 ( 17 ) الفاظ کی تلخیوں کی کڑواہٹ وضاحتوں سے کم نہیں ہوتی۔اس لئے پہلے تولو بعد میں بولو۔

 ( 18 ) ضروری نہیں کہ ہر کوئی آپ کی بات مانے ، یہ بات خصوصاً وہ لوگ جیسے بوڑھے ، والدین ، اساتذہ اور نگران یاد رکھیں جن کے انڈر کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں۔انہیں پھر یہ شکایت کم ہوگی کہ لوگ ہماری بات نہیں مانتے۔

 ( 19 ) ہم بہت مرتبہ اپنی خواہشات کے ہاتھوں بھی بلیک میل ہوجاتے ہیں۔ہمیں اچھی گاڑی ، مکان اور دیگر آسائشات درکار ہوں تو ہم کوئی بھی نوکری یا کاروبار کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ، اس بات کی پرواہ کئے بغیرکہ اس سے ملنے والی آمدنی حلال ہے یا حرام ؟

 ( 20 ) آج ہم کسی کی جگہ آئے ہیں کل کوئی ہماری جگہ آئے گا ، اس لئے کسی منصب یا عہدے سے دل نہ لگائیے۔

 ( 21 )  ہار یا ناکامی کو تسلیم نہ کرنے کا نام کامیابی نہیں بلکہ ہمیں ناکامی کو مان کرکامیابی کی طرف بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

 ( 22 ) ہم سب کو خوش نہیں رکھ سکتے ، کیونکہ ہر ایک کی پسند مختلف ، ہر ایک کا مزاج مختلف ! اس بات کو ایک اسٹوری سے سمجھئے : ایک شخص نے اپنے بڑے بیٹے کے ولیمے پر10 ڈشیں بنوائیں تو کسی نے تبصرہ کیا کہ کیا ضرورت تھی اتنا خرچہ کرنے کی ! جب اس کے چھوٹے بیٹے کی شادی ہوئی تو ولیمے پر ون ڈش بنوائی ، اب کسی اور نے تبصرہ کیا کہ چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کی شادی تھی ، اگر دس بارہ ڈشیں بنوالیتا تو کیا جاتا !                        ( بقیہ اگلی قسط میں )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی



[1] مصنف عبدالرزاق ، 10 / 189 ، حدیث : 20430

[2] پ30 ، الم نشرح : 6

[3] پ30 ، الم نشرح : 5 ، 6

[4] طبقات الکبریٰ للشعرانی ، 1 / 178ملخصاً

[5] پ10 ، الانفال : 53

[6] صراط الجنان ، 4 / 24

[7] مسند بزار ، 10 / 37 ، حدیث : 4099

[8] مراٰۃ المناجیح ، 7 / 126

[9] جامع صغیر للسیوطی ، ص560 ، حدیث : 9378

[10] فیضُ القدیر ، 3 / 612 ، تحت الحدیث : 3969

[11] مسندامام احمد ، 7 / 178 ، حدیث : 19778

[12] معجم اوسط ، 6 / 429 ، حدیث : 9292

[13] بخاری ، 3 / 446 ، حدیث5143


Share