تذکرہِ صالحین
مفتیِ اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ
*مولانا ابوالنو رراشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2023
شہزادۂ امامِ اہلِ سنّت ، مفتیِ اعظم ہند ، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفیٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃُ اللہ علیہ 22 ذی الحجہ 1310ھ کوبریلی شریف میں پیدا ہوئے۔[1]
مرشِد گرامی نے نام رکھا آپ رحمۃُ اللہ علیہ کی پیدائش کے وقت حضور سیّدی اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ اپنے مُرشِد خانہ مارہرہ شریف میں تھے۔ حضرت شاہ ابو الحسین احمد نوری رحمۃُ اللہ علیہ نے ” ابو البرکات محی الدین جیلانی “ نام تجویز فرمایا ، عقیقہ نامِ محمد پر ہوا جبکہ عرفی نام مصطفیٰ رضا خان رکھا گیا۔ مفتیِ اعظم ہند آپ رحمۃُ اللہ علیہ کا لقب ہے۔[2]
مرشدکی بشارت ولادت کے کچھ عرصہ بعد حضرت شاہ ابوالحسین احمد نوری رحمۃُ اللہ علیہ بریلی تشریف لائے اور امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کو مبارک باد دی اور کہا : یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا اور اللہ کی مخلوق کو اس کی ذات سے خوب فائدہ پہنچے گا۔ یہ بچہ ولی ہے اس کی نگاہوں سے لاکھوں گمراہ انسان دینِ حق پر قائم ہوں گے یہ فیض کا دریا بہائے گا۔ اور اُسی وقت تمام سلسلوں کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔[3]
تعلیم وتربیت حضور مفتی اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ کی عمر جب چار سال چار ماہ اور چار دن ہوئی تو رسمِ تسمیہ خوانی[4] خود امامِ اہلِ سنت نے فرمائی اور بڑے بیٹے حضور حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کو آپ کی تعلیم و نگہداشت کے لئے خاص طور پر مقرر کرتے ہوئے فرمایا : ” میری مصروفیات سے تم باخبر ہو تم اپنے بھائی کو پڑھاؤ۔ “ 18سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے اور تقریباً 40 علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔[5]
پہلا فتویٰ آپ نے 1328ھ میں 18سال کی کم عمری میں رضاعت کے مسئلہ پر پہلا فتویٰ لکھا۔ والدِ ماجد اعلیٰ حضرت کی زیرِ نگرانی 1328ھ سے 1340ھ تک مسلسل 12 سال فتاویٰ لکھتے رہے۔[6]
تدریس مفتیِ اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ نے 1328ھ میں جامعہ رضویہ منظرِ اسلام میں طلبہ کو دینی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا لیکن دارُالافتاء اور فتویٰ نویسی کی مصروفیات زیادہ ہونے کی وجہ سے مخصوص طلبہ کو ہی پڑھاتے تھے۔[7]
مفتیِ اعظم کا درسِ افتاء فتویٰ نویسی سکھانے میں حضور مفتیِ اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ کی شان امتیازی تھی۔ آپ رحمۃُ اللہ علیہ درسِ افتا میں اس کا خيال فرماتے تھے کہ صرف مخصوص حکم کی پہچان نہ ہو بلکہ مسئلے کے تمام پہلو ذہن نشین ہو جائیں۔ پہلے آیات و احادیث سے استدلال کرتے ، پھر اصولِ فقہ و حدیث سے اس کی تائید دکھاتے اور قواعدِ کلیہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لے کر کتبِ فقہ سے جزئیات پیش فرماتے ، پھر مزید اطمینان کے لئے فتاویٰ رضویہ یا امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کا ارشاد نقل فرماتے۔ اگر مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو قولِ راجح کی تعیین دلائل سے کرتے اور اصولِ افتا کی روشنی میں یہ بھی بتاتے کہ فتویٰ کس پر ہے ؟ پھر فتاویٰ رضویہ یا امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے ارشاد سے اس کی تائید پیش فرماتے۔ عام طور سے جواب بہت مختصر اور سادہ لکھنے کی تاکید فرماتے۔ ہاں کسی عالم کا بھیجا ہوا استفتا ہوتا اور وہ ان تفصیلات کا طلب گار ہوتا تو پھر جواب میں وہی رنگ اختیار کرنے کی بات ارشاد فرماتے۔[8]
مفتیِ اعظم ہندکی طلبہ سے شفقت و محبت حضرت مفتیِ اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ طلبہ پر نہایت مہربان تھے ، انھیں شفقت و محبت سے نوازتے ، ہر طرح ان کی خدمت کرتے ، غریب طلبہ کو خفیہ طور پر خرچ کے لئے رقوم بھی عنایت فرماتے۔ کوئی طالبِ علم مسئلہ پوچھتا تو حضرت نہایت شفقت سے جواب دے کر مطمئن فرماتے ، جلسۂ دستارِ فضیلت کے موقع پر عُلما و طلبہ کے لئے خصوصی دعوت کا اہتمام فرماتے ، خوشی کے موقع پر کھانے پکوا کر طلبہ کو کھلاتے تھے ، بہت سے طلبہ ایسے تھے جو دونوں وقت حضرت کے یہاں کھانا کھاتے تھے۔ بعض طلبہ کو ان کے ذوقِ علمی کی بنا پر حضرت خود اپنے مکان پر ٹھہراتے اور نہایت لطف و کرم سے رہائش اور کھانے کا بندوبست فرماتے نیز ان کو اپنے علمی و روحانی فیضان سے مالا مال فرماتے۔[9]
مبالغہ آرائی سے گریز آپ رحمۃُ اللہ علیہ جچا تُلا کلام فرماتے ، بات کو بڑھا چڑھا کر ہر گز نہ فرماتے ، ایک مرتبہ کسی کے تعزیتی خط کا جواب لکھنا تھا ، مفتی مجیب الاسلام صاحب سے فرمایا کہ جواب لکھ دیں میں دستخط کردیتا ہوں ، چنانچہ مفتی صاحب نے جواب لکھا : آپ کا خط ملا ، صاحبزادے کے انتقال کی خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ آپ نے لفظ ” بہت “ سُن کر فرمایا : بہت افسوس تو نہیں ہوا ، ہاں افسوس ہوا ہے۔[10]
تصنیفی خدمات حضرت مفتیِ اعظم ہند رحمۃُ اللہ علیہ نے اپنی کثیر مصروفیات کے باوجود مختلف موضوعات پر بہت ساری کتابیں لکھی ہیں جوآپ کی علمی صلاحیت اور فقہی مہارت کا ثبوت ہیں۔ ان کی تحریر میں ان کے والد ماجد امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے اسلوب کی جھلک اور تحقیق کا کمال نظر آتا ہے۔ آپ کی چند تصنیفات یہ ہیں : نورُ العرفان ، اَلرُّمح الدیانی علٰی رَاسِ الْوَسْواسِ الشَّیْطانی ، اَلقَوْلُ الْعَجِیب فِی جَوازِ التَّثْویب ، سَیْفُ الْقَہّار علٰی الْعبیدِ الکفّار ، مقتل کذب وکید ، داڑھی کا مسئلہ ، فتاویٰ مصطفویہ۔[11]
ذوقِ شعر و ادب آپ اپنے وقت کے استاذ الشعراء تھے ، والدِ ماجد امامِ اہلِ سنّت رحمۃُ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عشقِ رسول سے بھرپور نعتیہ شاعری فرمائی۔ آپ نے اپنا تخلص اپنے پیر و مرشِد کے تخلص پر ” نوری “ رکھا۔
( 1 ) تو شمعِ رسالت ہے عالم تیر ا پروانہ ( 2 ) یہ کس شہنشاہِ والا کی آمد آمد ہے ( 3 ) حبیبِ خدا کا نظارہ کروں میں۔
اور ان جیسے بہت سے کلام آپ رحمۃُ اللہ علیہ کے عشقِ رسول کی جھلک ہیں ، آپ کے کلام کا مجموعہ ” سامانِ بخشش “ کے نام سے مکتبۃُ المدینہ نے چھاپا ہے۔
وصالِ پُر ملال علوم و فنون کا ماہر اور عشقِ رسول کا ترجمان یہ عظیم آفتاب 14محرمُ الحرام 1402ھ[12] کو شبِ جمعہ رات 1بج کر 40منٹ پر غروب ہوگیا۔[13]
اللہ پاک کی اعلیٰ حضرت ، ان کے شہزادگان اور سب محبّین پر رحمت ہو اور ان سب کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، نائب ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
[1] جہانِ مفتی اعظم ، ص64
[2] جہانِ مفتی اعظم ، ص64 ، تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت ، ص114
[3] تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت ، ص114
[4] بچےکی دینی تعلیم کی شروعات کیلئے کسی بزرگ یا نیک شخص سے بچے کو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم وغیرہ پڑھوانے کی تقریب کو رسمِ تسمیہ خوانی کہا جاتا ہے
[5] جہانِ مفتیِ اعظم ہند ، ص64 ، 65 ، مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفا ، ص 27
[6] مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفا ، ص 81
[7] جہانِ مفتیِ اعظم ، 107 ملخصاً
[8] جہانِ مفتیِ اعظم ، 112 ملخصاً
[9] جہانِ مفتیِ اعظم ، ص113
[10] جہانِ مفتیِ اعظم ، ص319
[11] جہان مفتیِ اعظم ، ص128 ، 129
[12] قمری تاریخ مغرب کے بعد بدل جاتی ہے اس حساب سے آپ کی تاریخ وصال 15محرم الحرام بنتی ہے ، اسی لئے بعض سوانح نگاروں نے 15محرم الحرام لکھا ہے۔
[13] ابوداؤد، 4/290، حدیث:4681
Comments