آخر درست کیا ہے ؟
کیا دین کا کام صرف صوفیاء نے کیا ہے ؟
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ اگست2023
دین کے نظام کی اساس علم ہے اور علم سے وابستہ حضرات کو علماء کہتے ہیں۔ اس حقیقت کا قطعی نتیجہ یہ ہے کہ علمائے دین کے ذریعے دین کے نظام کی بقا ہے۔عرصہ دراز سے دین دشمن لوگوں کاایک خطرناک ہتھیار یہ ہے کہ مسلمانوں کو علما سے دور کردیا جائے اور علما کی قدر و منزلت لوگوں کی نظر میں گھٹا دی جائے۔ اس فاسد مقصد کے لئے سیکولر ، لبرل لوگ اور دین بیزار دانشوروں کا ایک فریب یہ ہے کہ وہ خدمتِ دین کا سہرا علماء کرام کے سر سے ہٹانے کےلئے رنگ برنگے جتن کرتے ہیں جیسےان کا ایک عام جملہ یہ ہے : ” دین تو صرف صوفیاء کرام نے پھیلایا ہے ، مولویوں نے دین کی کوئی خدمت نہیں کی۔ “ صوفیاء کرام کی وجہ سے بھی دین پھیلا یہ اپنی جگہ حق ہے جیسے حضورداتا گنج بخش علی ہجویری اور خواجہ غریب نواز علیہما الرحمۃ کی سیرت مبارکہ سے واضح ہے ، نیز صوفیاء کرام کے قدموں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے ، ہماری جبین ِنیاز اُن کے قدموں میں جھکی ہوئی ہے اور ان کی محبت ہمارے لیے ذریعہ نجات ہے لیکن علماء کرام کی خدمات کی نفی کرنا سراسر غلط ہےکیونکہ اولاً تو علماء کرام کی خدمتِ دین کی سینکڑوں جہتیں ہیں جن میں انہوں نے بھرپور کام کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ خود صوفیاء کرام بھی علماء ہی تھے کیونکہ کوئی جاہل آدمی ، سچا صوفی نہیں بن سکتا لیکن اگر صوفیاء و علماء کو کچھ اعتبارات سے دو جداگانہ گروہ بھی شمار کرلیں تو ذرا نیچے کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دین پھیلانے ، دین کا نظام بنانے اور اس کا علمی دفاع کرنے میں سب سے بڑا کردار علمائے کرام ہی کا ہے ، ان کی اہمیت کبھی بھی ، کسی بھی زمانے میں نہ ختم ہوتی ہے ، نہ کم۔ ایک بار کسی مجلس میں یہ کلام ہوا کہ دین تو صوفیاء کرام نے پھیلایا ہے ، علمائے کرام نے نہیں۔ اس پر میں نے سمجھانے کی نیت سے پوچھا کہ صوفیاء کرام توہمارے سر کے تاج ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ دین کی بنیاد قرآن و حدیث اور زندگی بھر کے شرعی مسائل ہیں جنہیں فقہ کہا جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ مجھے یہ بتادیں کہ صوفیاء کرام نے کتنی تفسیریں لکھی ہیں ؟ کتنی کتبِ احادیث کی شروحات لکھی ہیں ؟ فقہ کے موضوع پر کتنی کتابیں تصنیف کیں ؟ کیونکہ دین تو قرآن و حدیث اور اس کی شرح ہی سے سمجھ آتا ہے ، اسی سے خدا تعالیٰ کی پسند اور ناپسند کا پتا چلتا ہے۔ میرے اِس سوال پر معترض خاموش ہوگیا ، حالانکہ جواب تو واضح سا ہے کہ قرآن و حدیث و فقہ کے متعلق تفصیلی و تشریحی کام صوفیاء کرام نے نہیں بلکہ علمائے کرام نے کیا ہے اور صوفیاء کرام نے کیا بھی ہے توعلمی دنیا میں ایک فیصد ہوگا جبکہ باقی 99 فیصد کام علمائے دین ہی کا ہے۔ جو امور دین کی بنیاد ، جڑ اور مرکز و محور شمار کئے جاتے ہیں ، وہ کام علمائے دین ہی نے کیے ہیں اور صوفیاء کرام نے اس سے استفادہ کیا ہے اور اس کام کو بہت حسن دیا ہے البتہ عبادت و اخلاقیات و اصلاحِ معاشرہ میں صوفیاء کرام کا حصہ زیادہ ہے۔
اصلِ حقیقت یہ ہے کہ دین سے بیزار لوگوں کا علماء پر اعتراض صرف علماء کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں ورنہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختمِ نبوت کے بعد خدا کے پسندیدہ دین کی ترویج و اشاعت میں امتِ مسلمہ کے مختلف گروہوں نے اپنی اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے نبھائی ہے حتی کہ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کی ہستیاں جو اُمّت میں سب سے افضل ، نمایاں اور خدمت ِ اسلام میں سب پر فائق ہیں ان میں بھی مختلف شانیں اور متعدد کردار نظر آتے ہیں جیسے خلفائے راشدین ، حضرت امیر معاویہ ، معاذ بن جبل ، ابو موسیٰ اشعری ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہم سلطنت یا صوبوں کے حکمران بنے اور اسی منصب کے ذریعے خدمتِ اسلام سرانجام دی۔ دوسری طرف حضرت ابو عبیدہ بن جراح ، سعدبن ابی وقاص ، عمرو بن العاص ، خالد بن ولید ، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم لشکروں کے سپہ سالار تھے اور اس انداز میں اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سرانجام دیا۔ تیسری جہت میں سیدنا ابو ہریرہ ، عائشہ صدیقہ ، ابو سعید خدری ، عبداللہ بن عمر ، انس بن مالک رضی اللہ عنہم نے اُمّت تک احادیث ِ نبوی پہنچا کر دین کی خدمت کی۔ اسی طرح سیدنا صدیقِ اکبر ، عثمان غنی ، عبد الرحمٰن بن عوف ، طلحہ و زبیر و ابوطلحہ رضی اللہ عنہم نے اپنے مال کے ذریعے اسلام کی زبردست معاونت کی۔ امّت ِ مسلمہ میں عبادت کا عملی نمونہ دکھانے کے لئے ابو عبیدہ بن الجراح ، ابو ذر غفاری ، ابو الدرداء ، تمیم داری ، عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کے نام معروف ہیں۔ فہمِ قرآن اور تعلیم ِ قرآن کے عظیم فریضہ کی ذمہ داری پوری کرنے میں خلفائے راشدین ، ابی ابن کعب ، عبد اللہ بن عباس ، عبد اللہ بن مسعود ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کے نام بہت نمایاں ہیں۔ ان تمام تفصیلات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کی ترویج و اشاعت میں مسلمانوں کے ہر طبقے نے اپنا کردار ادا کیا ہے ، ان میں سے کسی کی نفی نہیں کی جاسکتی بلکہ ہر صاحبِ فضیلت کو اس کی فضیلت دینی چاہیے اور اس کا اعزاز ماننا چاہیے۔ خود حضور سید دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس حقیقت کو بہت واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے ، چنانچہ حدیث پاک میں فرمایا : میری اُمّت کا ایک گروہ ہمیشہ غالب رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ غالب ہی رہے گا۔ ( بخاری ، 4 / 511 ، حدیث : 7311 )
اس حدیث کی شرح میں ہے کہ امام نووی رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ غالب رہنے والے گروہ ، امت کی متعدد جماعتیں ہوں جیسے کچھ بہادر ، جنگجو ، جنگی بصیرت رکھنے والے ، کچھ فقیہ ، مفسر ، محدث ، کچھ مبلغین کہ نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے روکنے والے ، اسی طرح زاہد وعابد لوگوں کے گروہ۔ ( فیض القدیر ، 6 / 514 ، تحت الحدیث : 9774 )
اسی حدیث کو زیادہ وضاحت سے سمجھنے کےلئے ایک دوسرے انداز میں ہم دعوتِ فکر پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر ، احادیث مبارکہ کی تشریح و توضیح ، عقائد ِ اسلامیہ کی تنقیح و تحقیق ، عبادات کے طریقے اور احکام کی تعیین و تفصیل ، معاملات کے احکام ، کھانے ، پینے ، پہننے اور کمانے میں حلال و حرام کا بیان ، مذکورہ تمام احکام کو لوگوں تک پہنچانا ، غیر مسلموں کو توحید و رسالت کی حقانیت بیان کرنا ، اسلامی عقائد و احکام پر کئےجانے والے اعتراضوں کے جواب دینا ، اسلامی سلطنت کا تحفظ و دفاع ، مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ، عبادات کو اُن کے حسن و کمال کے ساتھ ادا کرکے لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنا ، حسنِ اخلاق کو رواج دینا اور اپنی اچھی صحبت سے دوسروں کو نیک بنانا ، یہ تمام کے تمام کام دین کے اہم ترین مقاصد اور اسلام کی عظیم ترین خدمات میں سے ہیں۔ اب غور کریں کہ آخری تین کام یعنی عبادت کا عمدہ نمونہ ، حسن ِ اخلاق کی ترویج اور صحبت ِ صالح کی فراہمی کے علاوہ باقی جتنے کام ہیں وہ سرانجام دینے والے کون ہیں ؟ بلاشک و شبہ وہ مفسرین ، محدثین ، متکلمین ، فقہاءِ دین ، مبلغین ، حکمران اور بہادر اسلامی فوجی ہیں۔ اب دیکھیں کہ اس پوری فہرست میں کتنے طبقات ہیں جو صرف علماء ہی پر مشتمل ہیں ؟ مفسر و محدث و متکلم و فقیہ و مفتی و مبلغ و مصنف سب علماء ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ خدمتِ اسلام کے زیادہ تر کاموں کو علمائے دین ہی نے سنبھالا ہوا ہے۔ اس لئے دین دشمنوں کے وسوسوں کا شکار نہ بنیں اور ہمیشہ علمائے کرام کی عزت و وقار پیشِ نظر رکھیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی
Comments