اسلام کی روشن تعلیمات
خطبۂ حجۃ الوداع ( عالمی انسانی منشور )
*مولانا ابوالنورراشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2023
رسولِ كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ ربّ العزّت کی جانب سے تمام جہان کے لئے رسول اور نبی بنا کر بھیجے گئے۔ آپ نے مخلوق کی ہدایت کے لئے کئی طرح کے اقدامات فرمائے۔ ان میں وحی الٰہی کو مخلوق تک پہنچانا ، قرآن پاک پڑھنے اور یاد کرنے کی ترغیب دلانا ، عملی احکام کی تربیت دینا ، لوگوں کے سوالات کے ان کے حالات اور اسلام کے تقاضوں کے مطابق جوابات ارشاد فرمانا ، مختلف مواقع یعنی جمعہ ، عیدین و دیگر مواقع پر خطبہ ارشاد فرمانا ، سفر و حضر میں کسی بھی قابلِ اصلاح امر پر اصلاح فرمانا ، برائیوں پر تنبیہ فرمانا الغرض حیاتِ انسانی کے ہر ہر موڑ پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مخلوق کی رہنمائی کا اہتمام فرمایا ہے۔
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان اقدامات میں ایک اہم ترین اقدام”خطبات“ ہیں جو آپ نے غزوات ، سرایا ، وفود کی آمد ، جمعہ ، عیدین اور حج وغیرہ کے موقع پر ارشاد فرمائے۔ ان تمام خطبات کی ایک خاص اہمیت ہے لیکن خطبہ حجۃ الوداع تاریخِ اسلام اور تعلیماتِ پیغمبر اسلام میں بہت جدا مقام و حیثیت رکھتاہے۔ خطبہ حجۃ الوداع ایک اہم تاریخی دستاویز ، حقوقِ انسانی کا چارٹر ، امنِ عالم کا عظیم منشور ، فلاحِ انسانیت کا عظیم ترین نسخہ اور حقیقی اسلامی آئین ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع مختلف راویوں کی روایات کی صورت میں کتبِ حدیث و سیرت اور تاریخ میں موجود ہے۔ بعض مصنفین نے اس خطبہ کی روایات کو جمع کرکے مستقل کتب بھی ترتیب دی ہیں۔ اسے خطبہ حجۃ الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا آخری حج تھا اور آپ نے ہجرت کے بعد یہی ایک حج فرمایا۔ اس کے آخری حج ہونے کی پیشن گوئی رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ہی مختلف مقامات پر ارشاد فرمادی تھی جیسا کہ جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو گورنر بنا کر یمن روانہ فرمایا تو ان سے فرمایا : يَا مُعَاذُ اِنَّكَ عَسىٰ اَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا وَلَعَلَّكَ اَن تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا وَقَبْرِي یعنی اے معاذ ! غالبا تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے اور شاید تم میری اس مسجد اور میری قبر کے پاس سے گزرو گے۔ حضرت معا ذ یہ سُن کر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جدائی کے غم میں رونے لگے۔ )[1](
چونکہ اس حج کے بعد رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم امت سے پردہ فرماگئے اور الوداع فرماگئے اس لئے اسے حجۃ الوداع اور اس میں دیے گئے خطبات کو خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتاہے۔
آئیے ! خطبہ حجۃ الوداع کے چند اہم نکات ملاحظہ کیجیے :
حقوق الله كی ادائیگی :
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : اپنے رب سے ڈرو اور نمازِ پنجگانہ ادا کرو ، رمضان کے روزے رکھو ، اپنے اموال کی زکوٰۃ دو ، اپنے اہلِ امر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔)[2](
انسانی مساوات کا درس :
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا : بے شک اللہ کریم فرماتاہے : اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرداورایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میں پہچان رکھو ، بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔)[3](پس کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ کسی کالے کو گورے پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر بَرتری ہے سوائے تقویٰ کے۔ )[4](
مال و جان کی حرمت :
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوم النحر کے خطبہ میں فرمایا : بےشک تمہارے خون ، تمہارے مال ( ایک راوی کہتے ہیں کہ شاید یہ فرمایا کہ ) اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لئے اُسی طرح حرام ہیں ( یعنی عزت والی ہیں ) جس طرح اس شہر ( مکہ ) میں ، اس ماہ ( ذوالحجۃ الحرام ) میں آج کا دن عزت و حرمت والا ہے۔ عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال فرمائے گا۔)[5](
میاں بیوی کے حقوق :
حضرت عَمْرو بن احوص کی روایت میں ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : آگاہ رہو ! بےشک تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں اور تمہاری عورتوں کے بھی تم پر کچھ حقوق ہیں۔ پس تمہارا اپنی عورتوں پر یہ حق ہے کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کریں اور جو تمہیں پسند نہیں اسے گھر میں نہ آنے دیں ، آگاہ رہو کہ تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں اچھا کھلاؤ اور اچھا پہناؤ۔)[6](
راہِ راست پر رہنے کا بہترین ذریعہ :
حضرت سیّدنا جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عرفہ کے دن اپنی اونٹنی قصواء پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دیا ، آپ نے فرمایا : اے لوگو ! بے شک میں تمہارے درمیان وہ چھوڑے جارہا ہوں کہ تم اسے تھامے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے : اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت۔)[7](
پیغامِ رسالت آگے پہنچانا :
یوم النحر کے خطبہ کے آخر میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : پس جو حاضر ہے وہ غائب تک ( میراپیغام ) پہنچادے ، کیونکہ بہت مرتبہ سننے والے سے زیادہ محفوظ کرنے والا وہ ہوتا ہے جس تک پہنچایا گیا ہے۔ )[8](
استقامت کا حکم :
خطبہ یوم النحر میں وعظ و نصیحت کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا : پس میرے بعد کفار کے عمل کی طرف لوٹ نہ جانا کہ کہیں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔ )[9](
تبلیغِ پیغامِ الٰہی پر گواہی :
حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت میں ہے کہ خطبہ کے بعد رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے لوگو ! تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا کہو گے ؟ لوگوں نے کہا : ہم گواہی دیں گے کہ بے شک آپ نے پیغام پہنچا دیا اور حق اداکردیا اور نصیحت فرمادی۔ تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف بلند فرمائی اور لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ا ے اللہ تو گواہ رہ ، اے اللہ تو گواہ رہ ، یہ تین بار فرمایا۔)[10](
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، نائب ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
[1] مسنداحمد ، 36 / 376 ، حدیث : 22052
[2] ترمذی ، 2 / 119 ، حدیث : 616
[3] پ26 ، الحجرات : 13
[4] معجم کبیر ، 18 / 12 ، حدیث : 16
[5] بخاری ، 3 / 141 ، حدیث : 4406
[6] ترمذی ، 3 / 387 ، حدیث : 1166
[7] ترمذی ، 5 / 433 ، حدیث : 3811
[8] بخاری ، 1 / 577 ، حدیث : 1741
[9] بخاری ، 1 / 576 ، حدیث : 1739
[10] مسلم ، ص490 ، حدیث : 2950
Comments