تزکیہ نفس کا قرآنی منہج

تفسیر قراٰنِ کریم

تزکیہ نفس کا قرآنی مَنْہَج

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ جون2023

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :  ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ ( ۱۴ )  وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ ( ۱۵ )  بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا٘ۖ ( ۱۶ )  وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰىؕ ( ۱۷ )  اِنَّ هٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰىۙ ( ۱۸ )  صُحُفِ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى۠ ( ۱۹ ) ) ترجمہ کنزالعرفان : بیشک جس نے خود کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔اور آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔بیشک یہ بات ضرور اگلے صحیفوں میں ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔  ( پ 30 ، الاعلیٰ : 14تا19 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : ان آیات میں موجود الفاظ ” تزکیہ ، ذکر اور صلوٰۃ “ کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ ” تزکیہ “ سے مراد وضو و غسل ہے اور ” ذکر “ سے مراد تکبیر تحریمہ اور ” صلوٰۃ “ سے مراد نماز ہے۔ معنیٰ یہ ہوا کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس نے طہارت حاصل کرکے تکبیرِ تحریمہ کہہ کر پانچوں نمازیں ادا کیں یعنی زندگی بھر اس کا معمول رہا۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ” تزکیہ “ سے مراد صدقہِ فطر ادا کرنا ، ” ذکر “ سے مراد نماز عید کے لئے جاتے ہوئے تکبیرات کہنا اور ” صلوٰۃ “ سے مراد نمازِ عید پڑھنا ہے۔ اس تفسیر کی رُو سے معنیٰ یہ ہوا کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا ، جس نے پہلے صدقہ ِ فطر ادا کیا ، پھر گھر سے تکبیرات پڑھتا ہوا عیدگاہ پہنچا اور نمازِ عید ادا کرکے اِس عظیم اسلامی شِعار کو سرانجام دیا۔ تیسری تفسیر یہ ہے کہ ” تزکیہ “ سے مراد خود کو کفر و شرک ، قلبی رذائل ، روحانی آلائشوں اور ظاہری گناہوں سے پاک کرنا ہے اور ” ذکر “ سے مراد ذکرِ الٰہی کی عادت ہے اور ” نماز “ سے مراد مطلق نماز ہے۔ اس اعتبار سے معنیٰ یہ ہوا کہ وہ شخص اللہ کی بارگاہ میں فلاح و کامرانی سے شرف یاب ہوا ، جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ، یعنی کفر و شرک اور ضلالت و معصیت سے خود کو پاک رکھا ، دل کی اصلاح کی ، باطنی امراض سے چھٹکارا پایا ، مال و دنیا کی مَحبت سے دور رہا اور خوف و محبتِ الٰہی سے دل کی بستی آباد کی اور اِس کے ساتھ اپنی زبان کو ذکرِ الٰہی سے تَرْ رکھا ، دل کو محبوبِ حقیقی کی یاد سے سرشار کیا ، امورِ دنیا کی مشغولیت اور تجارت و خرید وفروخت کی مصروفیت اُسے غفلت میں مبتلا نہ کرسکی ، بلکہ وہ ہر وقت خدا کی یاد میں لگا رہا ، بالفاظِ پیر و مرشد مولانا الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ہے کبھی درود و سلام تو کبھی نعت لب پر سجی رہی “ اور تیسری بات یہ کہ خدا کی سب سے محبوب عبادت نماز کو اپنا شیوہ بنایا ، اُس کے قدم قیام میں جمے رہے اور اس کی پیشانی سجدوں کی لذت سے آشنا رہی۔

تزکیہِ نفس کا مطلب :

تزکیہ ِنفس دین کا بنیادی تقاضا ، قرآن کا مرکزی موضوع اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرائض منصبی میں سے ایک اہم کام ہے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے گیارہ قسمیں ذکر کرکے کامیابی اور ناکامی کا یہی معیار بیان فرمایا کہ جس نے طہارتِ قلبی اور صفائے باطنی حاصل کی ، وہ کامیاب ہوا اور جس کا نفس گناہوں کی غلاظت میں لتھڑا رہا اور تزکیہِ نفس کی دولت سے محروم رہا ، وہ رُسوا اور ناکام ٹھہرا ، چنانچہ قرآنِ حکیم میں قسموں کا بیان کچھ یوں ہوا : سورج اور اس کی روشنی کی قسم ، اور چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے ، اور دن کی جب وہ سورج کو چمکائے ، اور رات کی جب وہ سورج کو چھپادے ، اور آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی قسم ، اور زمین کی اور اس کے پھیلانے والے کی قسم ، اور جان کی اور اس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا ، پھر اُس  ( نفس )  کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔ ( پ30 ، الشمس : 1تا8 )  پھر اِن عظیم قسموں کے بعد معیارِ فلاح یوں بیان کیا گیا :  ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ ( ۹ )  وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ ( ۱۰ ) ) ترجمہ : بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔ ( پ 30 ، الشمس : 9تا 10 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اِسی طرح رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے منصب رسالت کے بنیادی فرائض اور عملی حالت و کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہی  ( اللہ )  ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا ، جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے۔ ( پ 28 ، الجمعۃ : 2 )  اِس آیت ِ مبارکہ میں ” وَیُزَكِّیْهِمْ “ یعنی ” اور انہیں پاک کرتا ہے۔ “ کے اِسی منصبِ تزکیہِ نفوسِ امت کو بیان کیا گیا ہے۔

تزکیہ نفس کے حصول کاپہلا عمل :

تزکیہِ نفس اور اِصلاحِ باطن کے لئے انتہائی پُرتاثیر عمل خدا کی طرف متوجہ رہنا اور ہر دم فکر آخرت میں مستغرق ہونا ہے ، کیونکہ یہ دونوں عمل یعنی توجہ الی اللہاور فکرِ آخرت “ انسان میں خوفِ خدا اور تقویٰ کی کیفیات میں زبردست اضافہ کرتے ہیں اور اِسی تقویٰ کی برکت سےنفسِ انسانی میں تزکیہ اور قلب میں تصفیہ پیدا ہوتا ہے۔ قرآنِ حکیم میں ان دونوں امور کا بیسیوں جگہ بیان ہے۔ ایک جگہ حضرت لقمان رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُ کی زبانی یوں ارشاد ہوا :  ( یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ ( ۱۶ ) ) ترجمہ : اے میرے بیٹے ! برائی اگر رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ، الله اسے لے آئے گا بیشک الله ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے۔ ( پ21 ، لقمٰن : 16 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسری جگہ یوں بیان فرمایا :  ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَاتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ( ۱۸ ) ) ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل  ( قیامت ) کے لیے آگے کیا  ( عمل )  بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔  ( پ28 ، الحشر : 18 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تزکیہ ِ نفس کےلئے دوسرا عمل :

آیت میں مزید فرمایا : وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ : اور اس نے اپنے رب کا نام لیا۔ کثرتِ ذکرِ الٰہی دینی اعتبار سے مطلوب ، تزکیہِ نفس میں نہایت معاوِن اور اِس کے نتیجے میں قلبی رذائل کا خاتمہ اور روحانی فضائل کا اضافہ ہوتا ہے۔ اوپر مذکور آیت میں فلاح پانے والوں کا ذکر ہے اور اسی کےلئے ذکرِ الٰہی کا بیان ہوا ، اِسی فلاح کو دوسری جگہ ذکر ِ الٰہی کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا :  ( وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ( ۱۰ ) ) ترجمہ : اور اللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ تم کامیاب ہوجاؤ۔  ( پ28 ، الجمعۃ : 10 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسرے مقام پر اہلِ ذکر کو بخشش اور عظیم ثواب کی خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا :  ( وَالذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّالذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا ( ۳۵ ) ) ترجمہ کنزالعرفان : اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔  ( پ22 ، الاحزاب : 35 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تزکیہِ نفس کے لئے تیسرا عمل :

آیت میں تیسری بات بیان فرمائی : فَصَلّٰى : پھر نماز پڑھی۔ نماز کی بذاتِ خود بہت اہمیت اور شان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمانِ کامل اور ذوقِ عبادت رکھنے والے بندگانِ رحمٰن کے اوصاف میں نمازوں کی محبت خصوصی طور پر ذکر فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا :  ( وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا ( ۶۴ ) ) ترجمہ : اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔ ( پ19 ، الفرقان : 64 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) فی نفسہ نماز کی عظمت و اہمیت کے علاوہ تزکیہِ نفس میں بھی نماز کی تاثیر مسلّم ہے ، چنانچہ فرمایا :  ( اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِؕ- ) ترجمہ : بیشک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔ ( پ20 ، العنکبوت : 45 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ جس نماز کی شان اِس آیت میں بیان ہوئی ، وہ ایسی نماز ہے جس کی کیفیت امام المتقین ، سید العابدین ، رسول رب العالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ بیان فرمائی کہ تم اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رکھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔  ( بخاری ، 1 / 31 ، حدیث : 50 )

تزکیہِ نفس میں رکاوٹ اور اس کا علاج :

آیت میں چوتھی بات یہ بیان فرمائی : بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ تزکیہ نفس میں رکاوٹ نفس ، شیطان ، دنیا اور مال ہے ، ان میں سب سے مرکزی چیز دنیا ہے کہ مال بھی اسی کے لئے چاہئے اور نفس و شیطان بھی اسی میں مشغول رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ، لہٰذا اس رکاوٹ اور رکاوٹ کے علاج کو واضح طور پر بیان فرما دیا ، بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی : بلکہ تم دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ یعنی اے لوگو ! حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا فانی اور آخرت باقی رہنے والی ہے اور جو چیز باقی رہنے والی ہے ، وہ فانی سے بہتر ہے ، لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ تم دنیاکی فانی زندگی کو آخرت کی باقی رہنے والی زندگی پرترجیح دیتے ہو ، اِسی لئے تم وہ عمل نہیں کرتے ، جو وہاں کام آئیں گے۔جو شخص دنیا کی محبت کو دل سے نکال دے اس کے لئے تزکیہ کا راستہ نہایت آسان ہوجاتا ہے اور دنیا کی محبت نکالنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آخرت کی عظمت پیشِ نظر رکھے۔ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے کروڑوں گُنا بہتر ہے ، وہاں کی نعمتیں ہر اعتبار سے دنیا کی نعمتوں سے افضل ہیں ، اُن کے حصول میں کوئی تکلیف و مشقت نہ ہوگی ، اُن کے استعمال سے کوئی بیماری ، گِرانی ، پریشانی نہ ہوگی اور وہ نعمتیں باقی رہنے والی ہیں کہ کبھی فنا نہ ہوں گی۔لہٰذا دُنْیَوی زندگی کی فانی لذتوں ، رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو کر آخرت کو نہیں بھولنا چاہئے ، ایک ایک سانس بیش قیمت موتی کی طرح ہے ، جو ضائع ہوجائے تو کبھی واپس نہیں ملتا۔ دنیا اور آخرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :  ( وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّلَهْوٌؕ-وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ( ۳۲ ) ) ترجمہ : اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟

 ( پ7 ، الانعام : 32 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ان تمام امور کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ خوبصورت باتیں اور دل نشین نصیحتیں قرآنِ پاک سے پہلے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِما الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر نازل ہونے والے صحیفوں میں بھی موجود ہیں۔

    دعا : اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی فانی لذتوں میں کھونے سے محفوظ فرمائے اور آخرت کی فکر کرنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے خوب کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code