ہماری کمزوریاں
تنہائی ہمارے کردار کی امتحان گاہ
( Solitude is the testing ground of our character )
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2023
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں چاند کی ابتدائی راتوں میں قبرستان کے پاس سے گزرا تو میں نے ایک مُردے کو قبر سے نکلتے ہوئے دیکھا وہ زنجیر کھینچ رہا تھا پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے وہ زنجیر پکڑی ہوئی تھی۔ اس نے باہر نکلنے والے شخص کو اپنی طرف کھینچا اور قبر میں واپس لے گیا ، پھر میں نے دیکھا کہ وہ شخص اس مُردے کو مار رہا تھا او ر مُردہ کہہ رہا تھا : کیا میں نماز نہیں پڑھتا تھا ؟ کیامیں غسل فرض ہونے پر غسل نہیں کرتا تھا ؟ کیا میں روزے نہیں رکھتا تھا ؟ تو اس مارنے والے نے جواب دیا : ہاں کیوں نہیں ، ( تُو واقعی یہ کام تو کرتا تھا ) مگر جب تُو تنہائی میں گناہ کیا کرتا تھا تو اس وقت اللہ سے نہیں ڈرتا تھا۔)[1](
ماہنامہ فیضان مدینہ کے قارئین ! ہم بہت سے کام لوگوں کے سامنے یا کچھ تنہائی ( اکیلے ) میں چھپ کر کرتے ہیں ! پھر وہ کام اچھا ( Good ) ہوتا ہے یا بُرا ( Bad ) ! لیکن اگر لوگوں کے سامنے اچھے کام کئے جائیں اور تنہائی میں بُرے تو یہ بہت ہی بُرا ہے۔ حضرتِ بلال بن سعد رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا : لوگوں کے سامنے اللہ کے ولی ( یعنی نیک پرہیز گار ) اورتنہائی میں اس کےنافرمان نہ بنو۔)[2](
تنہائی میں ہمارا کردار اس تحریر میں تنہائی میں کئے جانے والے کاموں پر بات ہوگی۔ دیکھا جائے تو تنہائی ہمارے کردار کی اصل امتحان گاہ ہوتی ہے کیونکہ لوگوں کے سامنے شرم ، جھجک اور ڈی گریڈ ( عزت میں کمی ) ہونے کے خوف سے عام طور پرانسان بُرائیوں سے رُک ہی جاتا ہے اور اچھے کام کرکے خود کو اچھے کردار والا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کا اصل امتحان تنہائی میں شروع ہوتا ہے کہ وہ اچھے کام کرتا ہے یا بُرے !
تنہائی کو اچھا رکھئے ہمیں اپنی تنہائی کو بھی اچھا رکھنے کی تاکیدکی گئی ہے چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : جوکام لوگوں کے سامنے کرنے کو ناپسند کرتے ہو وہ تنہائی میں بھی نہ کیا کرو۔)[3](
تنہائی میں کئے جانے والے نیک کام حضرتِ کَعبُ الاَحبار رحمۃُ اللہ علیہ فرماتےہیں : جس نے ایک رات بھی اللہ کریم کی ایسےعبادت کی کہ اسے کوئی جاننے والا نہ دیکھے تو وہ گناہوں سے ایسے نکل گیا جیسے اپنی رات سے نکل جاتا ہے۔)[4]( تنہائی کو کئی طرح کی نیکیوں سے سجا یا جاسکتا ہے جیسے * انسان قضا نمازیں ادا کرسکتا ہے * تہجد ، اشراق چاشت وغیرہ کے نوافل پڑھ سکتا ہے * تلاوتِ قراٰن کرسکتا ہے * اگر کوئی قراٰن پاک حفظ کررہا ہے تو اپنا سبق یاد کرسکتا ہے * حافظِ قراٰن اپنی منزل دہرا سکتا ہے * ذکر اَذکار ، اوراد و وظائف پڑھ سکتا ہے * دُرود شریف اور نعت شریف پڑھ سکتا ہے * ربِّ کریم کی بارگاہ میں دعائیں کرسکتا ہے * شب بیداری کرسکتا ہے * جن علوم کا سیکھنا فرض ہے ان کی کتابوں کا مطالعہ کرسکتا ہے * خوفِ خدا و عشقِ رسول میں آنسو بہاسکتا ہے * غور وفکر کر کے اپنی ذات میں پائی جانے والی خامیوں کو تلاش کرسکتا ہے پھر انہیں دور کرنے کا طریقہ سوچ سکتا ہے * آخرت ( قبر و حشر ، حساب کتاب ) کے احوال کے بارے میں غور و فکر کرکے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ الغرض تنہائی میں بہت سی نیکیاں کی جاسکتی ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہئے کہ جب ہم تنہا ہوتے ہیں تواچھے کام کتنے کرتے ہیں ؟
تنہائی میں کئے جانے والے بُرے کام حضرت سلیمان بن علی رحمۃُ اللہ علیہ نے ایک شخص کو نصیحت فرمائی : اگر تم تنہائی میں گناہ کرتے ہوئے اس بات کو سمجھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے تو تم نے بڑی جسارت ( جرأت وبے باکی ) کی اور اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ وہ تمہیں دیکھ نہیں رہا تب تو تم نے کفر کیا۔)[5](
تنہائی میں کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے انسان اکیلا یا کسی راز دار کے ساتھ مل کر کئی گناہوں اور برائیوں میں مبتلا ہوسکتا ہے جیسے : * شراب نوشی کرنا * جُوا کھیلنا * بدنگاہی کیلئے چھپ کر تاک جھانک کرنا * گندے تصورات جمانا * بدکاری جیسے گھناؤنے کام میں مبتلا ہونا * اپنے ہاتھوں سے اپنی جوانی برباد کرنا * ہیروئن جیسی چیزوں کا نشہ کرنا * چوری ڈکیتی اور قتل کے منصوبے بنانا * دفتری ریکارڈ میں ہیرا پھیری کرنا * جعلی کاغذات تیار کرنا * رشوت کا لین دین کرنا * ڈیوٹی کے دوران اپنے الگ آفس میں بغیر اجازتِ شرعی ذاتی کاموں میں مصروف رہنا۔ اس طرح کی کئی بُرائیاں بالخصوص تنہائی میں ہوسکتی ہیں۔ بہرحال غور کیجئے کہیں تنہائی آپ کو بربادی کی طرف تو نہیں لے جارہی !
تنہائی اور سوشل میڈیا آج لوگوں بالخصوص نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد سوشل میڈیا کے ڈیجیٹل نشے میں مبتلا ہے۔ یو این ریکارڈز کے مطابق دنیا بھر کی آبادی 2022ء میں 8بلین یعنی 8ارب ہے جبکہ اعداد و شمار کی مشہور ویب سائٹ statista.com کے مطابق 2021ء میں موبائل فون یوزرز کی تعداد 7ارب تھی جن میں سے 5ارب کے قریب افراد موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور سوا چار ارب لوگ سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں۔اس تعداد میں 2023 میں کتنا اضافہ ہوچکا ہوگا اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی ہماری اچھائیوں یا بُرائیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے بالخصوص تنہائی میں اس کے بُرے استعمال کا رِسک بڑھ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا ایک گروپ وہ ہے جس میں بے باکی سے گناہ کرنے والے شامل ہوتے ہیں ، ایسے افراد لوگوں کے درمیان ہوں یا تنہائی میں ، انہیں سوشل میڈیا پر گانے سننے ، بےحیا عورتوں کے ڈانس دیکھنے ، عشقیہ فسقیہ ڈرامے دیکھنے پر کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی ، لیکن فحش ویڈیوز ، گندے وی لاگز اور اسکینڈلز اور تصویریں دیکھنے ، بے حیا لڑکیوں سے وڈیو کال پر بے ہودہ بات چیت ، کسی کو بدنام کرنے کے لئے کسی کا سر کسی کا دھڑ لے کر فیک فوٹوز اور ویڈیوز بنانے ، لوگوں کو اشتعال دلا کر ملکی حالات خراب کرنے کیلئے فیک نیوز گھڑنے اور دیگر غلیظ کام کرنے کے لئے وہ بھی تنہائی کا انتخاب کرتے ہیں۔جبکہ سوشل میڈیا یوزرز کا ایک طبقہ وہ ہے جنہیں لوگ شریف اور نیک انسان سمجھتے ہیں ، ان میں سے بھی کچھ افراد نفس و شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ سارے غلیظ ، گندے اور گھناؤنے کام تنہائی میں کرتے ہیں جن کا بیان ابھی گزرا۔ اس گروپ میں کم عمر بھی ہوتے ہیں جو پڑھائی یا پراجیکٹ وغیرہ کا بہانہ بنا کر یہ کام کرتے ہیں۔ پھر یہ دونوں گروپ کوشش کرتے ہیں کہ تنہائی میں بُرائی کی یہ داستان لوگوں کو پتا نہ چلے ، اس کے لئے اپنے موبائل پر یہ مختلف کوڈ ، لاک یا پاس ورڈ وغیرہ لگا دیتے ہیں یا غلط قسم کی اپلیکشنز کو ہائڈ کردیتے ہیں ، ہسٹری ڈیلیٹ کردیتے ہیں تاکہ پکڑے نہ جاسکیں۔
اللہ دیکھ رہا ہے چھپ کر گناہ کرنے والے اس غلط فہمی کو دل سے نکال دیں کہ انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا کیونکہ کوئی اور دیکھے یا نہ دیکھے اللہ دیکھ رہا ہے : (اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ( ۱۱۰ ) ) ترجمۂ کنزُ الایمان : بے شک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔)[6] ( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس لئے ایک مسلمان کو تنہائی میں بھی اللہ کی فرمانبرداری کرنی چاہئے نہ کہ نافرمانی !
چھپ کے لوگوں سے کیے جس کے گناہ
وہ خبردار ہے کیا ہونا ہے
ہمارے گواہ ہمارے اچھے اور بُرے عمل کے گواہ بھی موجود ہیں جیسے کِراماً کاتِبِین ( اچھے بُرے عمل لکھنے والے فرشتے ) ، ہمارے جسم کے حصے آنکھ ، کان ، ہاتھ اور پاؤں ، دن اور رات ، زمین کا وہ حصہ جس پر کوئی عمل کرتے ہیں۔ ( اس کی تفصیل کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب ”فکرِ مدینہ“ پڑھ لیجئے ) اس لئے ہم اپنے موبائل ، لیپ ٹاپ وغیرہ پر جتنے مرضی پاس ورڈ لگا لیں ، چھپ نہیں سکتے بعض اوقات تو جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے دنیا ہی میں راز کھل جاتے ہیں اور عزت مٹی میں مل جاتی ہے ، یہاں بچ بھی گئے تو ربّ علیم کی بارگاہ میں وہ اعمال نامہ کیسے لے کر پیش ہوں گے جس میں یہ سارے گناہ لکھے ہوں گے !
آج بنتا ہوں معزز جو کھُلے حشر میں عیب
آہ ! رُسوائی کی آفت میں پھنسوں گا یارَبّ
دل پرگناہوں کا اثر گناہوں کی وجہ سے جنّت سے آنے والا سفید پتھر ”حجرِ اَسوَد“ سیاہ ہوگیا ، ہمارا دل تو نرم و نازک ہے ، اس پر گناہوں کا کیسا اثر ہوتا ہوگا ! رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : حجر اسود جنّت سے آیا ، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا ، اسے آدمیوں کے گناہوں نے سیاہ کردیا۔)[7](شرح : یعنی یہ پتھر شفاف آئینہ یا سیاہی چُوس کاغذ کی طرح ہے جیسے شفاف آئینہ گرد و غبار سے میلا اور سیاہی چوس کاغذ گیلے حرفوں پر لگنے سے سیاہ ہوجاتا ہے ایسے ہی یہ پتھر ہم گنہگاروں یا گذشتہ مشرکوں کے ہاتھ لگنے سے برابر سیاہ ہوتا چلا گیا۔ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ جب ہمارے گناہوں سے سنگ اسود سیاہ ہوگیا تو گناہوں سے دل بھی میلا ہوجاتا ہے۔)[8](
سرکارِ دوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی نشان ہے : جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ ( Black dot ) پیدا ہوتا ہے ، جب اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور توبہ واستغفا ر کرلیتا ہے تو ا س کادل صاف ہوجاتا ہے اور اگر پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اور یہی وہ زَنگ ہے جس کا ذِکر اللہ پاک نے اس طرح فرمایاہے : (كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ( ۱۴ ) ) ترجمۂ کنزالایمان : کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے۔)[9]( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
گناہوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی جس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اسے گناہ کرنے میں شرم یا جھجک محسوس نہیں ہوتی ہے ، حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ فر ماتے ہیں : گناہ کرنے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور دل کی سیاہی کی عَلامت یہ ہے کہ گناہوں سے گھبراہٹ نہیں ہوتی ، عبادت کیلئے موقَع ملتا ہے نہ نصیحت سے کوئی فائدہ ہوتا ہے۔)[10](
نیکیوں میں دل نہیں لگتا جس کا دل سیاہ ہوگیا اسے نماز ادا کرنے ، روزے رکھنے ، حج کرنے ، تلاوت کرنے ، تفسیر ، حدیث اور فقہ پڑھنے سننے میں کہاں مزہ آئے گا ! ایسا شخص رمضان کے مہینے میں مسجد میں بیٹھےاورتلاوت سنے یا شرعی مسائل یا دینی بیان ! وہ بھاگنے کے لئے بے چین رہے گا ! گناہوں کی شیطانی لذت کے عادی کو عبادت کی لذت اور نیکیوں میں حلاوت کہاں ملے گی ! ایسے شخص کے کان وہ نہیں سنیں گے جو قراٰن وحدیث کی حقیقی تعلیمات ہیں ، اس کی آنکھیں وہ نہیں دیکھیں گی جن کا دیکھنا شریعت کو مطلوب ( Required ) ہے ، اس کے قدم اس طرف نہیں بڑھیں گے جس طرف شریعت بلاتی ہے ، لاشیں دیکھ کر بھی اسے اپنی آخرت یاد نہیں آئے گی ، قبرستان جا کر بھی عبرت نہیں ملے گی !
نجات کا راستہ ایسے میں نجات کا ایک ہی راستہ ہےکہ ہم اپنے ربِّ کریم کی بارگاہ میں توبہ کرکے اپنے دل کو گناہوں سے پاک کریں ، اپنی جلوتوں اور تنہائیوں کو نیکیوں کے نور سے چمکائیں ، اپنے موبائلز ، اکاؤنٹس ، میموری کارڈز ، لیپ ٹاپس اور پوسٹس میں سے بُری چیزوں کو فوراً ڈیلیٹ کردیں۔ لوگوں کے سامنے ہوں یا تنہائی میں ! دونوں صورتوں میں سوشل میڈیا کا بھی مثبت استعمال کریں ، جیسے 100فیصد اکلوتا اسلامک چینل مدنی چینل دیکھیں ، درست عقائد و مسائل پر مشتمل مذہبی وی لاگز دیکھیں ، اس طرح کے سینکڑوں وڈیو کلپس دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net سے مل سکتے ہیں ، فیس بک وغیرہ پر اسلامک پیجز جوائن کئے جاسکتے ہیں جن کے ذریعے درست اسلامی معلومات دی جاتی ہوں جیسے سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے تحت بھی مختلف پیجز چلائے جاتے ہیں۔ان پیجز پر موجود پوسٹس کو وائرل کرکے مزید ثواب بھی کمایاجاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے مزید اس طرح کے کئی مثبت استعمال موجودہیں۔
اے عاشقانِ رسول ! اچھا ماحول ہمیں اچھا بنا دیتا ہے ، دعوتِ اسلامی کے ماحول سے وابستہ ہوجائیے ، کردار و عمل میں مثبت تبدیلیاں آپ کو بہت جلد دکھائی دیں گی ، اِنْ شآءَ اللہ الکریم۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ
[1] الزواجر 1 / 31
[2] حلیۃ الاولیاء ، 5 / 260
[3] جامع صغیر ، ص487 ، حدیث : 7973
[4] حلیۃ الاولیاء ، 5 / 420
[5] احیاء العلوم ، 5 / 129
[6] پ1 ، البقرۃ : 110
[7] ترمذی ، 2 / 248 ، حدیث : 878
[8] مراٰۃ المناجیح ، 4 / 132
[9] پ30 ، المطففین : 14- ترمذی ، 5 / 220 ، حدیث : 3345
[10] منہاج العابدین ، ص24۔
Comments