*مفتی محمد ہاشم خان عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2023
( 01 ) کیاقربانی کرنے والے پر عید کا روزہ لازم ہے ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس کے نام قربانی ہو اسے عیدُ الاضحیٰ کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس دن روزہ رکھا جائے جب قربانی ہو جا ئے تو پہلے اس کے گوشت سے افطار کیاجا ئے کیایہ درست ہے ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عید الاضحیٰ اور اس کےبعد تین دن تک روزہ رکھنا ناجائز و حرام ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مہمان نوازی کے ایام ہیں۔ البتہ جس شخص نے قربانی کرنی ہو اس کے لئے مستحب ہے کہ عید کے دن قربانی سے پہلے کچھ نہ کھائے قربانی ہی کے گوشت میں سے پہلے کھائے ، مگریہ کوئی روزہ نہیں ، نہ اس میں روزہ کی نیت کرناجائز ہے۔اور یہ عمل حدیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے ، اسی عمل کو بعض لوگ روزہ رکھنا سمجھ لیتے ہیں ، حالانکہ اس عمل کو روزہ کہنا یا واجب و ضروری سمجھ لینا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے کیونکہ روزہ تو صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک بنیتِ صو م کھانے ، پینے اور عملِ زوجیت سے رکنے کو کہتے ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 02 ) دو افراد جماعت کیسے کروائیں ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر نماز کے لئے دو آدمی ہوں اور ان میں سے ایک مقتدی بن جائے اور ایک امام تو اس صورت میں ان کی نماز ، با جماعت ادا کرنا قرار پائے گی ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں ! اگر نماز کے لئے دو آدمی ہوں اور ان میں سے ایک مقتدی بن جائے تو اس صورت میں بھی ان کی نماز باجماعت قرار پائے گی اور اس صورت میں مقتدی امام کی دائیں جانب کھڑا ہوگا کیونکہ جمعہ اور عیدین کے علاوہ دیگر نمازوں کی جماعت کے لئے امام کے ساتھ ایک مقتدی کا ہونا بھی کفایت کرتا ہے اگرچہ وہ ایک مقتدی سمجھ بوجھ رکھنے والا بچہ ہی کیوں نہ ہو ۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 03 ) دوعمروں کا ایک ساتھ احرام باندھنا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے مسجدِ عائشہ سے ایک ساتھ دوعمروں کی نیت سے احرام باندھا۔ دو عمروں کی نیت کرتے ہوئے اس کاارادہ یہ تھا کہ ”وہ اسی نیت کے ساتھ دو عمرے کرے گا ، پہلا عمرہ کرنے کے بعد وہ حالتِ احرام میں ہی ہو گا اور اسی احرام سے دوسرا عمرہ کرے گا ، دوسرے عمرے کی نیت کے لئے مسجد عائشہ آنے کی حاجت نہیں ہوگی“ اس مذکورہ نیت و ارادے سے زید نے ایک عمرہ کے لئے طواف وسعی کرکے حلق کروایا اور خود کو حالت احرام میں سمجھتے ہوئے اس نے مسجد حرام سے ہی دوسرےعمرے کے لئے تلبیہ پڑھا ، اور طواف و سعی کرکے حلق کروایا۔ زید نے دو عمرے کرنے کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے ، کیا یہ درست ہے ؟ زید پر کوئی دَم وغیرہ تو لازم نہیں ہوا ؟ راہنمائی فرمادیں ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں زید نے ایک ساتھ دوعمرےکرنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہےیہ شرعاً درست نہیں ہے ، زیدگناہ گار ہوا ، اوراس پر ایک عمرے کی قضا اور ایک دم لازم ہےجو حدود حرم میں ہی اد اکرنا ضروری ہے ۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہےکہ دو عمروں کا ایک ساتھ احرام باندھنا ناجائز وگناہ ہےاس لیے زید گناہ گار ہوا اور اس پر دوعمروں کی ادائیگی لازم ہوگئی کیونکہ دو عمروں یا متعدد عمروں کا ایک ساتھ احرام باندھ لینے سےاتنی ہی تعداد میں عمرے لازم ہوجاتے ہیں۔ اورایک احرام میں دوعمروں کی نیت کی ہو تودونوں میں سےایک کارفض یعنی ایک عمرے کی نیت توڑنا لازم ہوتا ہے ، اس رفض عمرہ کےسبب ایک دم بھی لازم ہوتاہے۔اگر ایک احرام میں دو عمروں کی نیت کرنے والاایک عمرے کی نیت ختم نہ کرے تو پہلا عمرہ شروع کرتے ہی دوسرے کا احرام خود بخود ختم ہوجاتاہے۔
اس لئے پوچھی گئی صورت میں جب زید نے ایک ساتھ دوعمروں کی نیت کرنےکے بعد ان میں سے ایک عمرے کی نیت ختم کیے بغیر ہی ایک عمرے کا طواف شروع کیا تو دوسرے عمرے کا احرا م خود بخود ختم ہوگیا ، اوراس عمرے کے رفض کی وجہ سے اس پرایک دم لازم ہوا۔پھر جب اس نے پہلےعمرے کے طواف وسعی کےبعد حلق کروایا تووہ احرام سے باہر آگیا اوراس نے جو احرام باندھتے ہوئے ایک ساتھ دو عمروں کی نیت کی تھی ان میں سے ایک عمرہ ادا ہوگیا اب اس پر دوسرےعمرے کی قضاباقی ہے اور ایک عمرے کی رفض کی وجہ سے ایک دم بھی لازم ہے جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت گزری۔ نیززید کا دوسرا عمرہ ادا نہیں ہوا کیونکہ جب اس نے پہلے عمرے کا حلق کروایا تو وہ احرام سے باہر آگیا۔دوسرا عمرہ کرنے کے لئے حدود حرم سے باہر جا کر عمرے کی نیت کرکے تلبیہ پڑھنا ضروری تھا ، جبکہ زید نے نئے سرے سے عمرے کی نیت کیے بغیر ہی مسجد احرام سے تلبیہ پڑھا ، اس لئے وہ محرم ہی نہیں ہوا کیونکہ بغیر نیت کے محض تلبیہ پڑھنے سے محرم نہیں ہوتا۔ اس لئے زید نے دوسرے عمرے کے لئے جو طواف کیا وہ نفل ہوگیااور سعی لغو ہوگئی کہ سعی بطورِ نفل مشروع نہیں ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 04 ) حج کی قربانی مکہ میں کرنا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرحاجی دس ذوالحجہ کو حج کی قربانی کا جانور مقام مِنیٰ کے بجائے مکہ مکرمہ میں ذبح کرے توکیا اس کی قربانی اداہوجائے گی یا اسےدوبارہ قربانی کاجانورذبح کرنا ہوگا ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حج کی قربانی کو حدود حرم میں ذبح کرناضروری ہوتا ہے اور مکہ مکرمہ حدود حرم میں شامل ہے اس لئے اگر حاجی مکہ مکرمہ میں حج کی قربانی کا جانور ذبح کرےگا توحج کی قربانی ادا ہوجائے گی ، لیکن دس ذوالحجہ کوحج کی قربانی مکہ میں ذبح کرنا خلافِ سنّت ہے کیونکہ حج کی قربانی کوایام نحر میں مِنیٰ میں ذبح کرنا سنت ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شیخ الحدیث و مفتی دارُالافتاء اہلِ سنّت ، لاہور
Comments