احکام تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2023ء
انشورنس ( بیمہ ) کروانا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ لائف انشورنس یا جنرل انشورنس کروانا کیسا ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : انشورنس کروانا حرام و گناہ ہے چاہے لائف انشورنس ہو یا جنرل انشورنس ۔
لائف انشورنس سود پر مشتمل ہے کیونکہ اس میں جو رقم جمع کروائی جاتی ہے وہ انشورنس کمپنی پر قرض ہوتی ہےاور کمپنی بعد میں اضافے کے ساتھ یہ رقم واپس کرتی ہے اور یہ سودی اضافہ ہے کیونکہ قرض پر نفع کو حدیثِ پاک میں سود قرار دیا گیا ہے اور سود لینا حرام و سخت گناہ ہے۔
جنرل انشورنس جوئے پر مشتمل ہے کیونکہ اس میں اپنی رقم رسک پر لگائی جاتی ہے کہ اگر کوئی حادثہ پیش آیا تو نقصان کمپنی بھرے گی اور یوں اپنی جمع کروائی گئی رقم سے زیادہ مل جائے گی اور اگر کوئی نقصان نہ ہوا تو اپنی جمع کروائی گئی رقم بھی واپس نہیں ملے گی۔ یہ جوا ہے اور جوا قرآن و حدیث کی رُو سے حرامِ قطعی و گناہِ کبیرہ ہے۔
سود کی حرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے : ”وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-“ ترجَمۂ کنز الایمان : اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ ( پ3 ، البقرۃ : 275 ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حدیثِ پاک میں ہے : ”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفِعَۃً فَھُوَ رِبًا“ ترجمہ : قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔
( کنز العمال ، جزء6 ، 3 / 99 ، حدیث : 15512 )
جوئے کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ( ۹۰ ) ) ترجَمۂ کنز الایمان : اے ایمان والو ! شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔ ( پ 7 ، المآئدۃ : 90 ( (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سُود اور جُوئے کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”دونوں حرام و سخت کبیرہ ہیں۔“
( فتاویٰ رضویہ ، 23 / 595 )
خلاصہ یہ ہے کہ انشورنس کروانا حرام و گناہ ہے اگر کسی نے کروائی ہو اس پر لازم ہے کہ اس معاملے کو ختم کرے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ بھی کرے۔ نیز انشورنس کی مد میں پالیسی ہولڈر نے جتنی رقم جمع کروائی ہو صرف وہی واپس لے سکتا ہے اس پر کوئی نفع لینا ، حلال نہیں۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ارجنٹ کام کی زیادہ اجرت لینا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں درزی کا کام کرتا ہوں اور بعض اوقات کسٹمر آتا ہے کہ مجھے ارجنٹ سوٹ سلوانا ہے عام طور پر سوٹ کی سلائی بارہ سو روپے چل رہی ہوتی ہے تو میں اگر ارجنٹ سوٹ سینے کے اس سے دوہزار روپے سلائی طے کروں تو کیا زائد رقم لینا ، جائز ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : فقہی اعتبار سے اجرت پر کام کرنے والے کا حق ہے کہ اپنی محنت پر معاہدہ کرتے وقت جو چاہے اجرت طلب کرے اس معاملے میں شریعت نے فریقین پر معاملہ چھوڑا ہے سوائے بروکری اور دلالی کے کہ وہاں اجرت مثل کی پابندی ضروری ہے۔ پوچھی گئی صورت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے یہاں کئی جگہوں پر ارجنٹ کام کروانے کے زائد پیسے وصول کئے جاتے ہیں جیسے پاسپورٹ اگر نارمل بنوائیں تو فیس کم ہوتی ہے لیکن اگر ارجنٹ بنوائیں تو زیادہ فیس لی جاتی ہے اسی طرح دھوبی سے اگر ارجنٹ کپڑے دھلوائیں تو وہ زیادہ پیسے وصول کرتا ہے تو ہمارے معاشرے میں یہ بات رائج ہے کہ ارجنٹ کام کے زیادہ پیسے لئے جاتے ہیں لہٰذا آپ بھی اگر ارجنٹ سوٹ سینے کے ایک معقول حد تک زیادہ پیسے گاہک سے طے کرتے ہیں تو اس میں حرج نہیں۔ معقول کی قید بھی یہاں اس لئے لگائی گئی ہے کہ لوگوں پر آسانی عمدہ عمل ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اپنی دکان کے سامنے اسٹال لگانے کا کرایہ لینا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری دکان کے سامنے سڑک ہے وہاں ایک شخص اپنا کیبن رکھنا چاہ رہا ہے اور وہ اس کا مجھے ماہانہ کرایہ بھی ادا کرے گا۔ کیا یہ جائز ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : وہ سڑک آپ کی ملکیت نہیں بلکہ عام گزرگاہ ہے اور ایسی جگہ کیبن وغیرہ لگانا قانونی طور پر منع ہوتا ہے اور لوگوں کے لئے ضرر کا بھی باعث بنتا ہے کہ وہاں سے گزرنے والوں کے لئے جگہ تنگ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اس کی ہرگز اجازت نہیں۔
بالفرض اگر کوئی ایسی صورت ہو کہ قانوناً منع نہ ہو ، لوگوں کے لئے ضرر اور تنگی کا باعث بھی نہ ہو تب بھی چونکہ وہ جگہ آپ کی نہیں لہٰذا آپ اس جگہ کا کرایہ تو وصول نہیں کرسکتے البتہ اس صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ آ پ اپنا کوئی خالی کیبن وہاں رکھ دیں یا اسٹال تخت پر لگنا ہے تو تخت رکھ دیں اور اس کیبن یا تخت کا کرایہ وصول کرلیں۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فلیٹ یا دکان تعمیر ہونے سے پہلے خریدنا یا بیچنا کیسا ؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ( 1 ) فلیٹ یا دکان تعمیر ہونے سے پہلے خریدنا یا بیچنا کیسا کیونکہ عموماً خریداری کے وقت ان کا وجود نہیں ہوتا بلکہ بکنگ پہلے ہوجاتی ہے اور اس کے بعد بلڈنگ تیار ہوتی ہے تو کیا تیار ہونے سے پہلے اس بلڈنگ کی دکانیں یا فلیٹس وغیرہ خرید سکتے ہیں ؟ ( 2 ) جس نے فلیٹ بک کروایا تھا کیا وہ اس فلیٹ کے قبضے میں آنے سے پہلے اسے آگے بیچ سکتا ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : ( 1 ) عمومی حکم تو یہی ہے کہ کسی چیز کو بیچتے وقت اس کا موجود ہونا ضروری ہے البتہ دوصورتیں ایسی بھی ہیں کہ جہاں مال موجود ہونا یا ملکیت میں ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ ایک بیع سلم ہے اور دوسری صورت بیع استصناع کی ہے۔ بیع استصناع وہ صورت ہے جس میں کوئی پراڈکٹ آرڈر پر تیار کرکے دی جاتی ہے اور سودا کرتے وقت وہ پراڈکٹ موجود نہیں ہوتی۔
سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے یہ بھی بیع استصناع کی صورت ہے اس لئے یہاں بھی فلیٹس کا سودے کے وقت موجود ہونا ضروری نہیں۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں فلیٹس بننے سے پہلے ان کی بکنگ کرنا اور کروانا ، جائز ہے۔
( 2 ) مجلس تحقیقاتِ شرعیہ جو کہ دعوتِ اسلامی کے شعبے دارُالافتاء اہلسنت کی تحقیقاتی مجلس ہے اس نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ جو شخص فلیٹ بک کرواتا ہے وہ قبضے سے پہلے اپنا حق چھوڑتے ہوئے یہ فلیٹ آگے بیچ سکتا ہے اور اس کا نفع بھی حلال ہوگا۔
اس موضوع پر تفصیلی فیصلہ دارُالافتاء اہلسنت کی ویب سائٹ www.daruliftaahlesunnat.net پر موجود ہے ، وہاں سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی
Comments