روشن ستارے
حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ
*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون2023ء
سن 2 ہجری میں حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کانکاح حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے ہوا تو رہائش کا انتظام کاشانۂ اقدس سے کچھ فاصلے پر تھا ، رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت بی بی فاطمہ سے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ تمہیں اپنے ( گھر کے) قریب بسالوں ، بی بی فاطمہ نے عرض کی : آپ حضرت حارثہ سے گھر خالی کرنے کی بات کیجئے آپ چاہیں گے تو وہ میرے لئے اپنا گھر خالی کردیں گے ، ارشاد فرمایا : حارِثَہ نے ہمارے لئے ( اتنی بار ) اپنا گھر خالی کردیا ہے کہ اب مجھے ( اس بارے میں بات کرتے ہوئے) حیا آتی ہے۔ یہ بات حضرت حارثہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے حضرت بی بی فاطمہ کے لئے اپنا گھر خالی کردیا اور بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے : یارسولَ اللہ ! آپ بی بی فاطمہ کو اپنے گھر کے قریب بلالیجئے ، میرے گھر آپ کے لئے بنو نَجَّار کے گھروں سے زیادہ قریب ہیں ، میں اور میرا مال اللہ اور اس کے رسول کےلئے ہے ، اللہ کی قسم ! آپ میری جو چیز قبول کرلیتے ہیں وہ مجھے اس چیز سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے جس کو آپ نے قبول نہ کیا ہو ، یہ بات سُن کر زبان رسالت پر یہ دعائیہ کلمات جاری ہوگئے : تم نے سچ کہا اللہ تمہیں برکت دے ، پھر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت حارِثَہ کے گھر میں منتقل ہوگئیں۔ )[1](
پیارے اسلامی بھائیو ! صحابیِ رسول حضرت سیدنا حارثہ رضی اللہ عنہ کا پورا نام ابو عبداللہ حارثہ بن نعمان ہے۔ )[2](
فضائل : آپ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں ، آپ کا شمار عالم فاضل صحابہ میں ہوتا ہے۔)[3]( بعض عُلَما نے آپ کو اہلِ صُفَّہ میں بھی شمار کیا ہے۔ )[4](
اپنے گھر تحفے میں پیش کرتے رہے : آپ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے خوش نصیب ہیں جنہوں نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی رہائش کے لئے اپنی زمین اور گھر تحفہ میں پیش کیا۔)[5]( مکۂ مکرمہ سے ہجرت کرکے آنے والی معزَّز خواتین کے قیام کا بندوبست آقا کریم نے آپ کے گھر میں کیا ، ان معزز خواتین میں شہزادیِ رسول حضرت بی بی فاطمہ ، حضرت اُمِّ کُلثوم ، آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضاعی والدہ حضرت اُمِّ ایمن ، حضرت اسماء بنت ابو بکر ، اُمّ المؤمنین حضرت سَوْدَہ بنتِ زَمْعَہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نَّ بھی شامل تھیں۔)[6](سن 7 ہجری جنگِ خیبر کے بعد حضرت صَفِیَّہ رضی اللہ عنہا نبیِّ کریم کے نکاح میں آئی تھیں ، جب مدینے پہنچیں تو حضرت حارثہ بن نعمان کے گھر میں ہی قیام پذیر ہوئیں۔)[7](نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب نیا نکاح فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ پیارے آقا کے لئے اپنا قریبی گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں منتقل ہوجاتے یہاں تک کہ آپ کے ( قریب کے) سارے گھر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ازواجِ مطہَّرات کے ہوگئے۔)[8](
ایک تندور سے روٹی بنتی رہی : ایک مہینے تک یا سال بھر سے زیادہ عرصے تک آپ کے گھرانے اور پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کاشانۂ اقدس کے لئے روٹی ایک ہی تندور سے تیار ہوتی رہی ، ایک روایت میں دو سال کا ذکر بھی ملتا ہے۔ )[9](
غزوات : آپ رضی اللہ عنہ نے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہمراہی میں میدانِ بدر ، غزوۂ اُحُد ، معرکۂ خندق بلکہ تمام ہی غزوات میں شرکت کی ہے۔)[10](
ابو جہل کو منہ توڑ جواب : بیعتِ عقبہ میں جب انصار کے کچھ افراد نے اسلام قبول کیا اور یہ خبر مکے میں پھیل گئی تو قریش کے بڑے بڑے سردارانصار صحابہ کے پاس آگئے ، ابوجہل بولا : اے اَوْس اور خَزْرَج قبیلے والو ! تم ہمارے بھائی ہو لیکن تم نے بہت بُری حرکت کی ہے ، تم چاہتے ہو کہ ہماری قوم کے ایک بندے ( محمد عربی) کو ساتھ ملاکر ہم پر فتح یاب ہوجاؤ گے ، اس پر حضرت حارثہ بن نعمان نے فرمایا : تیری ناک خاک آلود ہو اگر ہمیں یہ معلوم ہوجاتا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم ہے کہ ہم تجھے یہاں سے نکال دیں تو ہم تجھے یہاں سے ضرور نکال دیتے۔)[11](
حیا نے سنوار دیا : آپ کی عادت تھی کہ دنیا وی کاموں میں جلد بازی سے کام نہیں لیتے تھے ، غزوۂ حُنین کے موقع پر پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : کون ہے جو رات کے وقت نگہبانی کرے گا ؟ حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے یہ دیکھ کر کسی نے عرض کی : یارسولَ اللہ ! حیا نے حضرت حارثہ بن نعمان کو بگاڑ ( یعنی سست کر)دیا ہے ، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حیا کسی کو بھی نہیں بگاڑتی ، اگر تم لوگ یہ کہتے کہ ”حیا نے انہیں سنوار دیاہے “ تو ضرور تم لوگ سچ بات کہتے۔)[12](
ماں کی خدمت : ایک روایت کے مطابق حضرت حارثہ لوگوں میں اپنی ماں سے سب سے زیادہ بھلائی کرنے والے تھے۔)[13](آپ رضی اللہ عنہا پنے ہاتھ سے انہیں کھانا کھلاتے تھے ، ان کی ماں ( بہت بوڑھی تھیں لہٰذا ) جس بات کا حکم دیتی تھیں اگر اسے کبھی نہ سمجھ پاتے تھے تو پھر جو شخص وہاں موجود ہوتا باہر آکر اس سے پوچھتے کہ میری ماں نے کیا بات کہی تھی ؟)[14]( پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : میں سویا تو اپنے آپ کو جنت میں پایا وہاں تلاوت ِقر اٰن کی آواز آرہی تھی ، میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ عرض کی گئی : یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ پھر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : نیکی ایسی ہی ہوتی ہے۔)[15](
صدقہ اپنے ہاتھ سے دیتے : جب آخری عمر میں آپ رضی اللہ عنہ کی بصارت چلی گئی تو آپ نے گھر میں اپنی نماز کی جگہ سے لے کر حجرے کے دروازے تک ایک ڈوری باندھی ، پھر اپنے پاس کھجور کے پتوں سے بنی ایک ٹوکری رکھ لی ، جب کوئی مسکین آتا اور کچھ مانگتا تو آپ اس ٹوکری سے کھجور نکالتے پھر ڈوری کے کنارے کو پکڑتے ہوئے آتے اور مسکین کو کھجور دے دیتے ، حالانکہ گھر والے یہ کہا کرتے تھے : ہم یہ کام خود کرلیں گے آپ کو فکر کرنےکی ضرورت نہیں ، لیکن آپ فرمایا کرتے : میرے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسکین کو ( صدقہ) دینا بُری موت سے بچاتا ہے۔)[16](
حضرت جبرائیل کو دیکھا : آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام کو دو مرتبہ دیکھا)[17](ایک روایت کے مطابق آپ نے حضرت جبرائیل کو سلام نہیں کیا تھا جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے سلام کیا تھا اور حضرت جبرائیل علیہ السّلام نے سلام کا جواب بھی عطا فرمایا تھا۔)[18](
وصال مبارک : حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کا وصال سن 51ھ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور ِحکومت میں ہوا۔)[19](
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
[1] طبقات ابن سعد ، 8 / 132
[2] الوافی بالوفیات ، 11 / 204
[3] الوافی بالوفیات ، 11 / 204
[4] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 436
[5] وفاء الوفا للسمہودی ، جز2 ، ص 718
[6] طبقات ابن سعد ، 8 / 132 ملخصاً
[7] طبقات ابن سعد ، 8 / 100
[8] الوفاء لابن الجوزی ، 1 / 202
[9] معجم کبیر ، 25 / 142
[10] الوافی بالوفیات ، 11 / 204
[11] سبل الہدیٰ والرشاد ، 3 / 206
[12] مکارم الاخلاق للخرائطی ، ص68 ، حدیث : 127
[13] مستدرک ، 5 / 209 ، حدیث : 7329
[14] موسوعہ لابن ابی الدنیا ، رسالہ : مکارم الاخلاق ، 3 / 470 ، رقم : 224
[15] حلیۃ الاولیاء ، 1 / 436
[16] الوافی بالوفیات ، 11 / 205
[17] مغازی للواقدی ، ص499
[18] معجم کبیر ، 3 / 227- الوافی بالوفیات ، 11 / 204
[19] الوافی بالوفیات ، 11 / 205-البدایۃ والنہایہ ، 5 / 547
Comments