اپنےبزرگو ں کو یادرکھئے
* مولانا ابو ماجد محمد شاہد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2022ء
محرمُ الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام ، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عرس ہے ، ان میں سے 77 کا مختصر ذکر ” ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ محرمُ الحرام 1439ھ تا 1443ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے۔ مزید11کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:
صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان : ( 1)امینُ الاُمَّہ حضرت ابوعبیدہ عامر بن عبدُاللہ بن جراح رضی اللہ عنہ قرشی فہری قدیمُ الاسلام صحابی ، حبشہ و مدینہ ہجرت کرنے والے ، نہایت نِڈر سپہ سالار ، دُبلے پتلے ، دراز قد ، حُسنِ ظاہری و باطنی سے مالا مال ، منکسرُ المزاج و حُسنِ اَخلاق کے پیکر ، عابد و زاہد ، راویِ حدیث ، صراحتاً جنّت کی خوشخبری پانے والے ( عشرہ مبشرہ سے ) تھے۔ آپ نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی ، کئی سرایا میں سپہ سالار مقرر ہوئے ، فتحِ شام میں مسلمانوں کے قائد رہے ، طاعونِ عمواس ( محرم و صفر ) 18ھ کو 58سال کی عمر میں وفات پائی۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اِنَّ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَمِينًا وَاِنَّ اَمِينَنَا اَيَّتُهَا الاُمَّةُ اَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الجَرَّاح یعنی ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے اور میری اُمّت کا امین ابوعبیدہ بن جراح ہے۔ مزار مبارک غوربیسان میں ہے۔[1]
*شہدائے غزوۂ خیبر:غزوۂ خیبر محرم و صفر 7ھ کو مدینۂ منورہ سے شمال کی جانب 150کلو میٹر پر واقع مقامِ خیبر میں ہوا ، اس میں مسلمانوں کی تعداد 16سو اور یہود کی 10ہزار تھی ، اس میں مسلمانوں کو فتح اور یہود کو شکست ہوئی ، بشمول خیبر ان کے سارے قلعے فتح ہوئے ، 15مسلمان شہیدہوئے ، اسی غزوہ کے بعد رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُمُّ المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے نکا ح فرمایا تھا۔[2]
اولیاء و مشائخ عظام رحمہمُ اللہ السَّلام : (2)زندہ پیر حضرت سیّد ابوالمحاسن فضیل قادری ٹھٹھوی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت سندھ میں 14صفر871ھ کو ہوئی اور 17محرم 934ھ کو ٹھٹھہ سندھ میں وفات پائی ، مزارِمبارک درگاہ حضرت سیّد عبدُاللہ شاہ اَصحابی رحمۃُ اللہ علیہ سے چند گز کے فاصلے پر ایک گنبد میں ہے۔ آپ اعلیٰ پائے کے بزرگ اور کثیرُ السیاحۃ و الکرامات تھے [3] ( 3)حضرت خواجہ درویش محمد رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 16شوال 846ھ کو ہوئی اور 19 محرم 970ھ کو وصال فرمایا ، مزار موضع اسفزار نزد ماوراءُالنہر ترکی میں ہے۔آپ اپنے ماموں خواجہ محمد زاہد رحمۃُ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے ، آپ متقی و پرہیزگار اور احتیاط و عزیمت پر عمل پیرا تھے ، آپ اپنے زمانے کے مرجع خاص و عام تھے۔ [4] ( 4)محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ محمد صادق گنگوہی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 17ربیعُ الآخر 987ھ اور وفات 19محرم 1053ھ کو ہوئی ، مزار گنگوہ شریف ضلع انبالہ ( مشرقی پنجاب ہند ) میں ہے ، آپ صاحبِ کشف و کرامت بزرگ ، عبادت و ریاضت ، زہد و تقویٰ کے پیکر اور سلسلۂ چشتیہ صابریہ کے شیخِ طریقت ہیں۔[5] ( 5)شمسُ الملّۃ والدین حضر ت خواجہ مرزا مظہر جان جاناں علوی دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 11 رمضان 1110ھ میں ہوئی ، آپ دینی و دنیاوی علوم و فنون میں ماہر ، فارسی و اُردو کے بہترین شاعر ، حُسنِ ظاہری و باطنی سے مالا مال ، پابندِ شریعت و سنّت ، مَذہباً حنفی اور مَشرَباً نقشبندی و شیخِ طریقت تھے ، ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے اور10 محرم 1195ھ کو جامِ شہادت نوش فرمایا،مزارخانقاہ شاہ ابوالخیر دہلی میں ہے ، دیوانِ مظہر ( فارسی ) سمیت چھ کتب تصنیف فرمائیں۔[6] ( 6)زینتُ الاولیاء حضرت مولانا محمد زینُ الدین مکھڈوی رحمۃُ اللہ علیہ موضع انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے اور 13 محرم 1295ھ کو مکھڈ شریف ( تحصیل جنڈ ، ضلع اٹک ) میں وصال فرمایا۔ آپ علوم و فنون کے ماہر ، کُتبِ درسیہ کے حافظ ، مَرجعِ طلبۂ ہندوستان و افغانستان و بخارا ، استاذُالعلماء ، عاشقِ کُتبِ دینیہ ، صاحبِ کشف اور جانشینِ دوم دربارِ عالیہ حضرت مولانا محمد علی مکھڈوی تھے۔[7] ( 7)قُدْوَۃُ العُرَفاء حضرت مخدوم سیّد شاہ منصب علی کچھوچھوی رحمۃُ اللہ علیہ مخدوم شاہ قلندر بخش رحمۃُ اللہ علیہ کے بیٹے تھے ، آپ صبر و رضا و توکل سے متصف ، مرجعِ انام اور وسیع سلسلۂ رُشد و ہدایت رکھتے تھے ، خاندان کے حالات غیر موافق و غیر ہموار ہونے کے باوجود سلسلہ عالیہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے ، آپ کا وصال محرم 1307ھ کو کچھوچھہ شریف میں ہوا ، تدفین کنارہ تالاب نیر شریف مسجد شریف کے پاس ہوئی۔[8]
علمائے اسلام رحمہم اللہ السَّلام:(8)شیخُ القراء شحاذۃ الیمنی شافعی مصری رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت دسویں صدی ہجری کی ابتدا میں ہوئی ، آپ کا تعلق مصر کے صوبے قلیوبیہ کے علاقے کَفرُالیمن سے ہے ، آپ حافظ و قاریِ قراٰن ، مفتیِ اسلام ، مدرسِ جامعۃُ الازہر تھے ، آپ نے اپنے آپ کو علمِ قراءت کی ترویج و اشاعت کیلئے وقف کیا ہوا تھا ، آپ خیر و احسان ، تقویٰ و پرہیزگاری اور دین میں بہت بڑے مقام پر فائز تھے۔ ادائیگیِ حج کے بعد مدینہ شریف حاضر ہوئے اور وہیں محرم 978ھ یا 987ھ کو وصال فرمایا ، جنّتُ البقیع میں تدفین ہوئی۔[9] (9)عالمِ شہیر حضرت شاہ ولیُ اللہ احمدمحدث دہلوی فاروقی رحمۃُ اللہ علیہ کی پیدائش1110ھ میں دہلی میں ہوئی اور یہیں 29 محرم 1176ھ کو وصال فرمایا ، تدفین دہلی میں ہوئی ، آپ جیّد عالمِ دین،مسندُ العصر ، علمِ ظاہری و باطنی کے جامع ، علمائے ہند و حجاز سے مستفیض ، مصنفِ کتب ، مرجعِ خاص و عام ، مشہور عالم اور مؤثرشخصیت کے مالک تھے۔ مشہور کُتب میں الفوزُ الکبیر فی اصول التفسیر ، الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ ، ھمعات اور حجۃُ اللہ البالغہ ہیں۔[10] ( 10)خلیفہ امیرِ ملت حضرت مولانا حافظ ظفر علی پسروری رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 1290ھ کو پسرور ( ضلع سیالکوٹ ، پنجاب ) کے ہاشمی گھرانے میں ہوئی ، وصال 24محرم 1337ھ کو ہوا ، تدفین قبرستان نزدتحصیل دروازہ میں ہوئی،آپ حافظِ قراٰن ، واعظِ شیریں بیاں ، شاعرِ اسلام ، اَوراد و وَظائف اور ذکر و فکر کے پابند تھے ، تبلیغی دوروں میں امیرِملت پیر سیّد جماعت علی شاہ محدث علی پور سیداں رحمۃُ اللہ علیہ کے ہمراہ سفر فرماتے تھے۔[11] ( 11)حضرت مولانا قاضی ابوالحقائق عبدُالحق ہاشمی رحمۃُ اللہ علیہ کی ولادت 1334ھ اور وفات 4محرم1414ھ کو ہوئی ، تدفین قطبال ( تحصیل فتح جنگ ، ضلع اٹک ) میں ہوئی۔ آپ فارغُ التحصیل عالمِ دین ، درگاہ غوثیہ گولڑہ شریف سے وابستہ ، 14 کُتب و رَسائل کے مصنف ، جامع مسجد قطبال پھر مسجد ملکاں کے امام ، خطیب پاک آرمی اور محکمہ تعلیم میں خدمات سرانجام دینے والےتھے۔[12]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* (رکنِ شوریٰ و نگرانِ مجلس المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی)
[1] بخاری ، 2/545 ، حدیث: 3744 ، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، 3/475تا 478 ، تاریخ طبری ، 8/315 ، البدایۃ والنہایہ ، 10/40
[2] اسد الغابۃ ، 1/59 ، تاريخ طبری،2/240تا247 ، مصور غزوات النبی،ص52
[3] تذکرہ مشائخ قادریہ فاضلیہ،ص110تا113
[4] حضرات القدس ، دفتر اول ، ص256 ، تاریخ مشائخ نقشبند ، ص260
[5] حقیقت گلزارصابری،ص541 ، انسائیکلوپیڈیااولیائے کرام ، 3/107
[6] مرزا مظہر جان جاناں کے خطوط ، ص11تا20،دہلی کے بائیس خواجہ ، ص214
[7] تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع اٹک،ص57
[8] حیات مخدوم الاولیاء ، ص19تا 21
[9] المجلۃ التاریخۃ المصریۃ ، 55/138 ، فوائد الارتحال ، 4/583
[10] الفوز الکبیرفی اصول التفسیر ، ص6 ، 11 ، 17
[11] تذکرہ خلفائے امیرملت،ص39
[12] علامہ قاضی عبد الحق ہاشمی اور تاریخ علمائے بھوئی گاڑ ، ص81تا93
Comments