انٹرویو
مفتی سجاد عطّاری مدنی ( قسط : 01 )
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2022ء
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!آج ہمارے ساتھ سلسلہ ’’ انٹرویو ‘‘ میں ایک ایسی شخصیت موجود ہے جنہیں آپ مدنی چینل کے سلسلے ’’ دارُالافتاء اہلِ سنّت ‘‘ میں دیکھتے رہتے ہیں ، جو طویل عرصے سے دارُالافتاء اہلِ سنّت سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ جامعۃ المدینہ میں تدریس بھی فرمارہے ہیں ۔ بلکہ آپ کے کثیر شاگرد بھی منصبِ تدریس پر فائز ہیں۔آج ہمارے مہمان ہیں مفتی محمد سجاد عطّاری مدنی صاحب۔
مہروز عطّاری : آپ کی پیدائش کب اور کس شہر میں ہوئی؟
مفتی سجاد عطّاری : میری پیدائش ڈیرہ غازی خان میں ہوئی تھی ، ویسے میرا تعلق ہیرو شرقی ( Hero Sharqi ) نامی گاؤں سے ہے۔ سرکاری کاغذات کے مطابق میری تاریخِ پیدائش 15 مئی 1977ء ہے۔
مہروز عطّاری : آپ کا تعلق کس ذات یا برادری سے ہے اور آپ کے والدصاحب کی کیامصروفیت تھی ؟
مفتی سجاد عطّاری : ہماری مین کاسٹ تو بلوچ ہے جبکہ اس کی ذیلی شاخوں میں سے ہمارا تعلق نتکانی بلوچ برادری سے ہے۔ میرے والد صاحب یونین کونسل میں سرکاری ملازم تھے۔ میرا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے لیکن والد صاحب نے ہماری تعلیم کے سلسلے میں بہت محنت و جدوجہد فرمائی۔
مہروز عطّاری : آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی اور آپ کی تعلیم میں آپ کےوالدصاحب کاکیاکرداررہا؟
مفتی سجاد عطّاری : پرائمری اور ہائی اسکول تک تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی ، بچپن اورنابالغی کی عمرمیں قراٰنِ کریم بھی اپنے محلے کی ہی ایک خاتون سے پڑھا ، جو اپنے گھر میں پڑھاتی تھیں۔ والد صاحب ہماری تعلیم میں بہت دلچسپی لیتے تھے اور شدید مجبوری کے بغیر ہمیں چھٹی نہیں کرنے دیتے تھے۔ اسکول میں ہونے والے ٹیسٹ ، امتحانات اور ان کے نتائج سے متعلق اپ ڈیٹ رہتے اور نمبر کم آنے پر پوچھ گچھ بھی کرتے تھے۔ نماز کی بہت پابندی کرواتے اور باقاعدہ پوچھتے بھی تھے کہ فلاں نماز میں مسجد میں نظر کیوں نہیں آئے۔
ہمارے بچپن میں والد صاحب کی اس تربیت سے ہم نے یہ سیکھا کہ باپ یا سرپرست اپنے ماتحتوں کو شروع سے ان چیزوں کا عادی بنائے اور پوچھ گچھ کا سلسلہ رکھے تو انسان ساری زندگی کے لئے ان چیزوں کا پابند بن جاتا ہے۔بچپن میں ہمیں والد صاحب کی یہ پابندیاں بُری لگتی تھیں لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ ہماری شخصیت کی تعمیر کے لئے یہ کتنی ضروری تھیں۔
مہروز عطّاری : والد صاحب کا مزاج کیسا تھا؟
مفتی سجاد عطّاری : اللہ کے کرم سے ہمارے ساتھ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا کہ جیسے ہم قید و بند میں ہوں۔عصر سے مغرب کے درمیان ہم عموماً والی بال یا کرکٹ کھیلتے تھے ، بعض اوقات والد صاحب بھی آکر ہمیں کھیلتے ہوئے دیکھتے تھے۔ قراٰن خوانی ، محفلِ میلاد اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں شرکت کی عام اجازت تھی۔
مہروز عطّاری : آپ دعوتِ اسلامی سے کیسے وابستہ ہوئے اور درسِ نظامی کا ذہن کیسے بنا ؟
مفتی سجاد عطّاری : انٹر کرنے تک میرے ذہن میں کوئی ایسا خیال نہیں تھا کہ کسی دینی ادارے میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنی ہے ، نہ ہی گھر والوں کا ایسا کوئی ذہن تھا۔میرے ایک دوست تھے جن کا کوئٹہ اور کراچی آنا جانا تھا ، کراچی میں وہ مزدوری کرتے تھے جبکہ کوئٹہ میں ان کے بھائی ملازمت کرتے تھے۔ وہاں انہوں نے دعوتِ اسلامی کا ماحول دیکھا اور ماحول سے وابستہ ہوگئے۔اسی دوران کراچی سے ہمارے شہر تونسہ شریف میں مدنی قافلے آنا شروع ہوگئے۔ دعوتِ اسلامی کا ایک تعارف اس دوست کے ذریعے ملا اور دوسرا تعارف مدنی قافلے والوں کے ذریعے ہوا۔ مدنی قافلے والے ہماری مسجد میں بھی آکر درس دیا کرتے تھے اور پھر آہستہ آہستہ میں نے اپنی مسجد میں درس دینا شروع کردیا اور مجھے اس کی ذمہ داری دی گئی۔
انہی دنوں کراچی میں جامعۃُ المدینہ کا آغاز ہوا تو میرے اس دوست نے ترغیب دلائی کہ آپFSC کرنے کے بعد جامعۃُ المدینہ میں داخلہ لے کر درسِ نظامی کرلیں تو آپ کو دین کا علم حاصل ہوجائے گا اور ساتھ میں MA کے برابر سند بھی مل جائے گی۔ان دنوں میرا ذہن ڈگریاں حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھا لہٰذا یہ بات مجھے کافی سمجھ آئی۔
اس دوران درس کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ بعض لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ درس دیتے ہیں لیکن عمامہ نہیں پہنتے اور ننگے سر گھومتے ہیں ، تو میں نے آہستہ آہستہ عمامہ شریف پہننا شروع کردیا اور دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستگی پختہ ہوتی چلی گئی۔
مہروز عطّاری : درسِ نظامی کے لئے جب کراچی آئے تو کیا جذبات تھے؟
مفتی سجاد عطّاری : کراچی میں درسِ نظامی کرنے کے لئے مجھے گھر والوں سے ضد کرنی پڑی۔ میرے بڑے بھائی ماحول سے وابستہ ہوچکے تھے اور میرے درسِ نظامی کرنے پر راضی تھے لیکن والد صاحب چاہتے تھے کہ میں گریجویشن کرکے کوئی ملازمت کرلوں کیونکہ گھر کے حالات مالی لحاظ سے اتنے مضبوط نہیں تھے۔ اس موقع پر والدہ نے بھی میری حمایت کی اور آخرِ کار میں والد صاحب کو راضی کرکے کراچی آگیا۔
جب کراچی پہنچا تو میرے لئے جامعۃُ المدینہ کا ماحول ایک بالکل نئی دنیا تھی اور کوئی جان پہچان والا نہیں تھا۔شروع میں مجھے گھر کی یا دآتی تھی لیکن پھر یاد آتا کہ فلاں فلاں نے کہا تھا کہ چند دنوں میں اس کا شوق پورا ہوجائے گا اور یہ سب چھوڑ چھاڑ کر واپس آجائے گا ، یہ یاد آنے پر میرا ذہن بنتا کہ چاہے کتنی ہی مشکل آئے اب مجھے اپنی تعلیم مکمل کرکے ہی واپس جانا ہے ، پھر آہستہ آہستہ جامعۃُ المدینہ کے ماحول میں دل لگتا گیا اور دیگر اسلامی بھائیوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان دنوں میں نے جامعۃُ المدینہ میں دیکھا کہ کئی اسلامی بھائی نئے آنے والے طالبِ علم پر خاص توجہ دیتے ، اس کی رہنمائی کرتے اور استقامت کے ساتھ پڑھنے کی ترغیب دلاتے۔ جب پہلی ششماہی کے امتحان ہوئے تو اس میں میری پوزیشن آئی اور مجھے ’’ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘ نامی کتاب تحفے میں ملی۔پوزیشن ملنے سے میرا دل پڑھائی کے سلسلے میں مزید مضبوط ہوگیا اور والد صاحب کو خبر ملی تو وہ بھی خوش ہوگئے۔
الحمد للہ دورِ طالب علمی میں دوسرے طلبہ کو سبق سمجھاتا تھا جس کی برکت سے میرا اپنا سبق کافی مضبوط ہوجاتا تھا ، یوں بھی مجھے پڑھائی پر استقامت حاصل ہوگئی۔
بچپن میں ہم نے قراٰنِ کریم مجہول انداز سے پڑھا تھا۔ کراچی آنے کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ میں نے قراٰنِ کریم درست پڑھنا سیکھنا ہے۔میں گودھرا کالونی کے مدرستہُ المدینہ میں مغرب و عشا کے درمیان ایک قاری صاحب سے قاعدہ پڑھتا تھا اور یوں میں نے درست قراٰن پاک پڑھنا بھی سیکھ لیا۔
مہروز عطّاری : آپ کے گھر میں اور بھی مدنی علما ہیں؟
مفتی سجاد عطّاری : کراچی آنے کے لئے والد صاحب نے یہ شرط رکھی تھی کہ آپ نے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم بھی جاری رکھنی ہے اور گریجویشن کا امتحان بھی پنجاب بورڈ سے دینا ہے ، میں نے وعدے کے مطابق اپنے طور پر گریجویشن کی پڑھائی بھی جاری رکھی اور جب امتحان دیا تو اچھے نمبر حاصل کئے ، ساتھ ساتھ درسِ نظامی کے درجات میں بھی پوزیشنز آتی رہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے والد صاحب کو اعتماد ہوگیا کہ بیٹا دین اور دنیا دونوں میں اچھی طرح آگے بڑھ رہا ہے ۔ہم کُل 9 بھائی ہیں ، پھر بعد میں والد صاحب نے مجھ سے چھوٹے بھائیوں کو بھی میٹرک کے بعد درسِ نظامی کے لئے کراچی بھیجا اور آج اَلحمدُ لِلّٰہ ہم کُل 5 بھائی مدنی ہیں۔
مہروز عطّاری : دارالافتاء کی فیلڈ سے کیسے وابستگی ہوئی؟
مفتی سجاد عطّاری : میں جامعۃُ المدینہ کے دوسرے بیج میں فارغ التحصیل ہوا تھا اور اُن دنوں چونکہ دعوتِ اسلامی میں فارغُ التحصیل علما کی تعداد کم تھی اس لئے دورانِ تعلیم ہی اساتذۂ کرام طلبہ کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے تعیُّن کرتے تھے کہ فلاں فلاں کو تدریس یا اِفتا نویسی میں آگے بڑھانا ہے۔
اَلحمدُ لِلّٰہ مجھے دورۂ حدیث کے دوران ہی تدریس کی ذمہ داری دے دی گئی تھی چنانچہ میں صبح اول وقت جامعۃُ المدینہ میں پڑھتا اور پھر ظہر کے بعد کلاس پڑھاتا تھا ، جبکہ فراغت کے بعد جب دارالافتاء کے لئے بھی انتخاب ہوا تو عصر تا مغرب فتویٰ نویسی کی مَشق کرتا تھا ۔
مہروز عطّاری : آپ نے سب سے پہلے فتویٰ کب اور کون سا لکھا؟
مفتی سجاد عطّاری : درس نظامی سے فراغت کے بعد عصر تا مغرب فتوی نویسی کی مشق ہو تی تھی ، میں نے اَلحمدُ لِلّٰہ اس وقت بھی فتاویٰ لکھے جبکہ باقاعدہ پہلا فتویٰ دارالافتاء اہلِ سنّت کنزُالایمان مسجد بابری چوک میں جاکر وراثت سے متعلق لکھا تھا ، غالباً یہ 2003 یا 2004 کی بات ہوگی۔
مہروز عطّاری : آپ کو تدریس ( Teaching ) کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ ہوا ہے ، طلبہ کی کون سی بات زیادہ پریشان کرتی ہے؟
مفتی سجاد عطّاری : طلبہ کا پڑھائی پر توجہ نہ کرنا اور پڑھائی کے دوران بات چیت یا دیگر امور میں مشغول رہنا مجھے سب سے زیادہ پریشان کرتا ہے ، اگر میں کسی طالبِ علم کو ایسا کرتے دیکھ لوں تو حتی الامکان اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
مہروز عطّاری : میں نے دورِ طالبِ علمی میں دیکھا بھی ہے اور دوسروں سے سنا بھی ہے کہ کلاس میں قدم رکھتے ہی آپ کی کیفیت کچھ اور ہوتی ہے اور کلاس سے باہر کچھ اور ، اس کی کیا وجہ ہے؟
مفتی سجاد عطّاری : عموماً کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں لوگوں کے درمیان سخت طبیعت مشہور ہوجاؤں لیکن مجھے اس بات پر دلی اطمینان ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کو ہم پر اعتماد کرکے ہمارے حوالے کرتے ہیں ، طالبِ علم کو احساس نہیں ہوتا لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات ضائع کررہا ہے۔اگرچہ عمومی طور پر بچّوں کے والد پوچھنے نہیں آتے کہ میرا بیٹا پڑھائی میں کیسا جارہا ہے ، لیکن یہ طالبِ علم میرے بیٹے یا چھوٹے بھائی کی طرح ہے ، اب اگر میں اس میں کوئی کمزوری دیکھوں تو اسے اس کے حال پر کیسے چھوڑدوں؟یہ بہت آسان ہے کہ استاد طالبِ علم میں کمزوری دیکھ کر بھی اس کے حال پر چھوڑ دے کہ میرا کیا جاتا ہے ، لیکن میں اس بات کو کیسے برداشت کرلوں کہ میرا کوئی طالبِ علم محروم و ناکام ہوکر واپس جائے۔اس لئے کلاس کے اندر کچھ سختی اور ڈسپلن والا رَوَیَّہ رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔
کلاس کے بعد نرمی اور شفقت والا پہلو اس لئے غالب ہوتا ہے تاکہ طلبۂ کرام کو اگر کوئی مشورہ کرنا ہے ، اپنے ذاتی معاملات میں بھی کوئی رائے لینی ہے تو وہ بِلاجھجک رابطہ کرسکیں۔
مہروز عطّاری : ما شآءَ اللہ آ پ کے سینکڑوں طالبِ علم ہیں اور ایک شُہرَت ہے ، جس اسلامی بھائی نے آپ کو درسِ نظامی کا ذہن دیا ان کے لئے اور اپنے والد صاحب کے لئے آپ کے کیا جذبات ہیں؟
مفتی سجاد عطّاری : میں تو ہمیشہ ہی اپنے والدین اور محسنین کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے ساتھ خیر خواہی کی اور صحیح راستہ دکھایا۔تقریباً 5 سال پہلے والد صاحب انتقال فرما گئے تھے ، اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے۔اَلحمدُ لِلّٰہ ان کی زندگی میں ہی ہم میں سے اکثر بھائی عالم بن چکے تھے اس لئے وہ اس بات سے بہت مطمئن تھے کہ میرے بیٹے دین اور دنیا دونوں اعتبار سے میرے لئے فائدہ مند ہیں اور ہم پر فخر کیا کرتے تھے۔
مہروز عطّاری : آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے؟
مفتی سجاد عطّاری : دیسی ساگ مکھن کے ساتھ۔
مہروز عطّاری : آپ سے بڑے بھائی بھی موجود ہیں اور چھوٹے بھی ، گھر میں کوئی فیصلہ کرنا ہو تو آپ کی رائے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے؟
مفتی سجاد عطّاری : والد صاحب مرحوم بھی میری رائے کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اب بڑے بھائی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
( جاری ہے۔۔۔ )
Comments