روشن ستارے
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ میں قلبی تعلق
*مولانا عدنان احمد عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2022ء
چار عزت و حرمت والے مہینوں میں ایک حشمت و عظمت والا اور بابرکت مہینا محرم الحرام کا ہے جب یہ مبارک مہینا آتا ہے تو جہاں اس کی عزت و حرمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے وہیں اس مہینے میں دو عظیم شخصیتوں کی شہادت و محاسن کا ذکر خیر بھی ضرور کیا جاتا ہے ، یکم محرم الحرام 24 ہجری کو حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضۂ اقدس میں مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضیَ اللہ عنہ کے پہلو میں عظیم شخصیت مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ کی تدفین ہوئی ، جبکہ دوسری عظیم ہستی نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ بتول ، امام عالی مقام امام حسین رضیَ اللہ عنہ کی پیاری اور مبارک ذات ہے جنہیں 10محرم الحرام 61 ہجری کونہایت مظلومانہ انداز میں شہید کردیا گیا تھا۔
یوں تو سب ہی صحابۂ کرام اور اہلِ بیتِ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نسبتِ بابرکت کے باعث ایک دوسرے سے الفت و محبت کا تعلق رکھتے تھے لیکن بعض ہستیاں ایسی بھی تھیں کہ جن کی باہمی عقیدت و محبت دیدنی تھی ، انہیں میں سے ایک امیرُالمؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی ہیں جن کی اہلِ بیتِ اطہار سے محبت و عقیدت اپنی مثال آپ ہے۔
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے محبت اور اہلِ بیت کی فاروقِ اعظم سے محبت تصویر کا کوئی نیا رخ نہیں ہے ، حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ فاروقِ اعظم کی تدفین کے موقع پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:اب آپ کے پیچھے کوئی ایسا شخص نہیں بچا جو مجھے آپ سے زیادہ محبوب ہو اور جس کے اعمال کی طرح اپنے اعمال لے کر بارگاہِ الٰہی میں حاضری دوں ، اللہ پاک کی قسم ! مجھے یقین تھا کہ اللہ کریم آپ کو پیارے حبیب اور پیارے صدیق کی رفاقت ضرور عطا فرمائے گا کیونکہ میں نے بارہا پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا ہے : ابوبکر اور عمر میرے ساتھ گئے ، ابو بکر اور عمر میرے ساتھ باہر نکلے ، ابوبکر وعمر میرے ساتھ فلاں گھر میں داخل ہوئے۔[1] ایک جانب مولا علی نے شانِ فاروقی میں یہ کلمات ادا کئے تو دوسری جانب بلند مقام و مرتبہ رکھنے والے فاروق اعظم رضیَ اللہ عنہ نےبھی ایک خاص موقع پر مولا علی کے بارے میں یہ کلمات کہے ہیں : اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا۔[2] فاروق اعظم نہ صرف مولا علی سے بلکہ ان کے شہزادوں امام حسن و امام حسین رضیَ اللہ عنہم سے بھی بےپناہ لگاؤ اور محبت رکھتے تھے۔ علّامہ اِبنِ کثیر دمشقی رحمۃُ اللہ علیہ ( سال وفات:774ھ ) فرماتے ہیں : یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حضرت عمر فاروق امام حسن اور امام حسین رضیَ اللہ عنہما کی بےپناہ عزت کرتے تھے ، انہیں گود میں اٹھایا کرتے تھے اور جس طرح مولا علی کو ( مال غنیمت میں سے حصہ ) دیتے تھے ویسے ہی ان دونوں شہزادوں کو بھی ( مال غنیمت سے حصہ ) عطا کرتے تھے۔[3]آئیے ذیل میں فاروقِ اعظم اور امام حسین کے کچھ واقعات پڑھئے:
تم اہلِ بیت ہمارے راہ نما ہوایک دن امام حسین حضرت عمر فاروق کے گھر گئے تو وہ حضرت معاویہ کے ساتھ تنہائی میں محو گفتگو تھے اور بیٹے عبداللہ بن عمر دروازے پر کھڑے تھے ( اور انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی ) حضرت عبد اللہ بن عمر واپس ہونے لگے تو امام حسین بھی ان کے ساتھ ساتھ لوٹ گئے۔ بعد میں امام حسین کی ملاقات حضرت عمر فاروق سے ہوئی تو حضرت عمر فاروق نے فرمایا : آپ تشریف نہیں لائے ، اس پر امام حسین نے عرض کی : اے امیر المؤمنین ! میں آیا تھا اس وقت آپ حضرت معاویہ کے ساتھ تنہائی میں تھے ، عبداللہ بن عمر واپس جانے لگے تو میں بھی لوٹ گیا،حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا : عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت ملنے کے حقدار آپ ہیں ، یہ بات ہمارے دل و دماغ میں راسخ ہوچکی ہے کہ اللہ کی جانب سے ہدایت ہے اور تم اہلِ بیت کی راہ نمائی ہے۔ پھر آپ نے ( شفقت سے ) اپنا ہاتھ امام حسین رضیَ اللہ عنہ کے سر پر پھیرا۔[4]
زیادہ حصہ مقرر کیا حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ جب منصب خلافت پر فائز ہوئے تواسلامی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا ، پھر ایک جگہ سے مالِ غنیمت مدینے پہنچا تو حضرت عمر فاروق نے اس میں سے صحابۂ کرام رضیَ اللہ عنہم کے لئے حصہ مقرر کیا ، اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر کے لئے تین ہزار جبکہ مولا علی کے لئے پانچ ہزار مقرر کئے اور امام حسن و امام حسین کیلئے قرابتِ رسول کی وجہ سے پانچ پانچ ہزار کے حصے مقرر کئے۔[5]
کپڑے عطا کئے ایک مرتبہ فاروق اعظم نے صحابہ کے بچوں میں کچھ کپڑے تقسیم کئے لیکن ان کپڑوں میں کوئی کپڑا ایسا نہ تھا جو امام حسن اور امام حسین کی شان کے لائق ہوتا لہٰذا آپ نے ان دونوں مقدس حضرات کیلئے یمن سے کپڑے منگوائے اور پھر کہا : اب میرا دل خوش ہوا ہے۔[6]
گواہ رہنا حضرت عمر فاروق رضیَ اللہ عنہ ایک مرتبہ مدینے میں کہیں جا رہے تھے کہ اچانک حضرت علی اور امام حسن و امام حسین رضیَ اللہ عنہم سامنے سے آگئے ، حضرت علی نے سلام کیا اور فاروق اعظم کا ہاتھ تھام لیا جبکہ امام حسن و امام حسین فاروقِ اعظم کے دائیں بائیں آ کر کھڑے ہوگئے ، اتنے میں فاروق اعظم پر گریہ طاری ہوگیا ، یہ دیکھ کر حضرت مولا علی نے عرض کی : اے امیر المؤمنین ! کس وجہ سے آپ رو رہے ہیں ؟ حضرت عمر فاروق نے فرمایا : اے علی ! مجھ سے زیادہ رونے کا حقدار کون ہے ؟ مجھے اس امت کا والی و حکمران مقرر کردیا گیا ہے میں ان میں فیصلے کرتا ہوں ، اب مجھے نہیں معلوم کہ اچھا فیصلہ کرتا ہوں یا غلطی کربیٹھتا ہوں ، حضرت علی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم نے کہا : خدا کی قسم ! آپ عدل و انصاف سے کام لیتے ہیں ، مگر حضرت علی کی یہ بات فاروق اعظم کے آنسو بند نہ کرسکی ، یہ دیکھ کر امام حسن نے حضرت عمر فاروق کی حکومت اور عدل و انصاف کے بارے میں گفتگو کی ، مگر حضرت عمر فاروق کے آنسو زار و قطار بہتے رہے ، پھر امام حسین نے بھی اسی طرح کلام کیا ، اِدھر حضرت امام حسین کا کلام ختم ہوا اُدھر فاروق اعظم کے آنسو تھم گئے ، اس کے بعد فاروقِ اعظم رضیَ اللہ عنہ کہنے لگے : اے میرے دونوں بھتیجو ! کیا تم اس بات پر گواہ بن کر رہو گے ؟ دونوں شہزادے خاموش رہے پھر اپنے والدِ محترم حضرت مولا علی کی جانب دیکھا تو حضرت علی نے فرمایا : تم دونوں اس بات پر گواہ بن جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ اس بات پرگواہ ہوں۔[7]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* (سینیئر استاذ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ ، کراچی)
[1] بخاری ، 2/527 ، حدیث:3685
[2] استیعاب،3/206
[3] البدایۃ والنہایہ ، 5/717
[4] الا صابہ فی تمییز الاصحابہ،2/69 ، تاریخ المدینہ لابن شبہ ، جز 3 ، ص799
[5] شرح معانی الاثار ، 3/228
[6] تاریخ الاسلام للذہبی ، 5/101
[7] ریاض النضرۃ ، 1/374 ، ازالۃ الخفاء ، 1/401۔
Comments