احکامِ تجارت
* مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2022ء
مُضارَبَت میں نقصان کیا ہے اور اس کے اصول کیا ہیں؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کاروبار کرنے کے لئے بکر کو پانچ لاکھ روپے دے اور طے یہ کرے کہ نفع ہمارے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہوگا اور نقصان میں بھی ہم دونوں برابر کے ہی شریک ہوں گے تو کیا اس صورت میں یہ کاروبار کرنا درست ہے ؟ اور اس سودے میں نقصان کب رَبُّ المال ( Investor ) کی طرف لوٹے گا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : اولاً تو یہ یاد رہے کہ ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرے کی فقط محنت ہو تو شرعی اصطلاح میں کاروبار کے اس طریقۂ کار کو ” مضاربت “ کہتے ہیں۔ مضاربت میں نقصان کا اصول یہ ہے کہ مُضارِب فقط اپنی کوتاہی سے ہونے والے نقصان کا ذمّہ دار ہوتا ہے مطلقاً نقصان کی شرط اس کے ذمہ لگانا درست نہیں کہ یہ شرط ہی سرے سے باطل ہے۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے : ” مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے وہ اپنی تعدِّی و دست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں جو نقصان واقع ہو سب صاحبِ مال کی طرف رہے گا۔ “ ( فتاوٰی رضویہ ، 19 / 131 )
بہارِ شریعت میں ہے : ” اگر ( مضاربت میں لگائی گئی ) اس شرط سے نفع میں جہالت نہ ہو تو وہ شرط ہی فاسد ہے اور مضارَبت صحیح ہے مثلاً یہ کہ نقصان جو کچھ ہوگا وہ مضارِب کے ذمہ ہوگا یا دونوں کے ذمہ ڈالا جائے گا۔ “ ( بہارشریعت،3 / 3 )
ما قبل تفصیل کی روشنی میں پوچھی گئی صورت میں اگر مضارب ( Working Partner ) کی کوتاہی کے بغیر رَاسُ المال ( Capital ) میں نقصان ہوجاتا ہے تو یہ نقصان رَبُّ المال ( Investor ) کا ہوگا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں زید کا بکر مضارب کو نقصان میں برابر شریک کرنے کی شرط لگانا باطل و بے اثر ہے ، لیکن اس باطل شرط کی وجہ سے مضاربت فاسد نہیں ہوگی۔
رہا یہ سوال کہ مضاربت میں نقصان ہے کیا ؟ اور وہ کب رب المال ( Investor ) کی طرف لوٹتا ہے تو اس بارے میں واقعی بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جیسا کہ بعض اوقات مطلقاً نفع کی کمی کو بھی نقصان سمجھ لیا جاتا ہے ، حالانکہ یہ درست نہیں۔ مضاربت میں کون سا نقصان رب المال پر آئے گا اس تعلق سے تین صورتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔
( 1 ) اوّلاً ہونے والے نقصان کو کاروباری نفع سے پورا کیا جائے گا۔ لہٰذا اس صورت میں نقصان پورا کرنے کے بعد نفع میں سے اگر کچھ بچتا ہے تو وہ فریقین میں طے شدہ تناسب سے تقسیم کردیا جائے گا ، نفع نہ بچنے کی صورت میں کسی فریق کو نفع کے طور پر کچھ بھی نہیں ملے گا۔
( 2 ) اگر فریقین دورانِ کاروبار حساب کرکے نفع تقسیم کرلیتے ہیں اور مضاربت کوحسبِ دستور باقی رکھتے ہیں تو اب نقصان ہونے کی صورت میں یہ سابقہ تقسیم شدہ نفع واپس لے کر اوّلاً اس نفع سے نقصان کی تلافی کی جائے گی تاکہ راس المال ( Capital ) نقصان سے محفوظ رہے۔ یہاں فقہائے کرام نے یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اگر عقدِ مضاربت کو ایک مخصوص وقت کے لئے کیا جائے مثلاً چھ ماہ یا سال ، پھر جاری رکھنا ہو تو دوبارہ معاہدہ کر لیا جائے تو یوں دوبارہ عقد ہونے کی صورت میں نقصان ہونے پر سابقہ عقد کے نفع سے نقصان پورا نہیں کیا جائے گا۔
( 3 ) بالفرض اگر نفع میں سے کسی بھی صورت نقصان پورا نہ ہوسکے تو اب اس نقصان کو راس المال ( Capital ) کی جانب پھیرا جائے گا۔ اس صورت میں یہ نقصان رب المال ( Investor ) برداشت کرے گا اور مضارب کی فقط محنت ضائع ہوگی ، راس المال ( Capital ) میں ہونے والے نقصان میں مضارب ( Working Partner ) کو شریک نہیں کیا جاسکتا۔
مضاربت میں ہونے والا نقصان اولاً نفع سے پورا کریں گے اس بات کی مکمل وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں : ” مالِ مضارَبت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہوگا وہ نفع کی طرف شمار ہوگا راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جاسکتا مثلاً سو روپے تھے تجارت میں بیس20روپے کا نفع ہوا اور دس 10روپے ضائع ہوگئے تو یہ نفع میں منہا کیے جائیں گے یعنی اب دس 10 ہی روپے نفع کے باقی ہیں اگر نقصان اتنا ہوا کہ نفع اُس کو پورا نہیں کرسکتا مثلاً بیس20 نفع کے ہیں اور پچاس 50 کانقصان ہوا تویہ نقصان راس المال میں ہوگا مضارِب سے کُل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں اگر چہ وہ نقصان مضارِب کے ہی فعل سے ہوا ہو۔ ہاں اگر جان بوجھ کر قصداً اُس نے نقصان پہنچایا مثلاًشیشہ کی چیز قصداً اُس نے پٹک دی۔ اس صورت میں تاوان دینا ہوگاکہ اس کی اُسے اجازت نہ تھی۔۔۔ رب المال و مضارِب دونوں سال پر یا ششماہی یا ماہوار حساب کرکے نفع تقسیم کرلیتے ہیں اور مضاربت کوحسبِ دستور باقی رکھتے ہیں اس کے بعد کُل مال یا بعض مال ہلاک ہوجائے تو دونوں نفع کی اتنی اتنی مقدار واپس کریں کہ راس المال پورا ہوجائے اور اگرسارا نفع واپس کرنے پر بھی راس المال پورا نہیں ہوتا تو سارا نفع واپس کر کے مالک کودے دیں اس کے بعد جو اور کمی رہ گئی ہے اُس کا تاوان نہیں۔ “ ( بہار شریعت ، 3 / 19 ، 20 )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
شرکتِ عمل اور شرکتِ عقد میں کیا فرق ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ شرکت ِ عمل اور شرکتِ عقد میں کیا فرق ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : شرکت کی تین اقسام ہیں : ( 1 ) شرکتِ مِلک یعنی چند افراد بغیر عقدِ شرکت کسی چیز کے مشترکہ مالک ہوں جیسے کسی کا انتقال ہوا اور اس نے مال چھوڑا تو اس کے ورثاء مشترکہ طور پر اس ترکے کے مالک بن گئے یہ شرکتِ ملک ہے یا دو شخصوں نے مل کر مشترکہ طور پر ایک پلاٹ خریدا تو یہ بھی شرکتِ ملک ہے۔ ( 2 ) شرکتِ عقد یعنی آپس میں عقدِ شرکت کیا ہو جیسے عموماً پارٹنر شپ بزنس ہوتا ہے کہ دو یا زیادہ افراد رقم ملا کر اس سے کاروبار کرتے ہیں یہ شرکتِ عقد کہلاتی ہے۔ ( 3 ) شرکتِ عمل یعنی دو کاریگر کام پکڑ کر شرکت میں کام کریں اور جو مزدوری ملے آپس میں تقسیم کرلیں جیسے دو درزی مل کر بیٹھ گئے یا دو رئیل اسٹیٹ بروکر مل کر بیٹھ گئے کہ مل کر کام کریں گے ، یہ شرکتِ عمل کی صورت ہے۔
نوٹ : ان مسائل کے تفصیلی احکام جاننے کے لئے بہارِ شریعت حصہ 10 سے شرکت کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ( محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی )
Comments