نئے لکھاری
تکبر کی مذمّت پر 5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
*محمد ذوہیب عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2022ء
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جس طرح کچھ نیکیاں ظاہِری ہوتی ہیں جیسے نماز اورکچھ باطِنی مثلاً اِخلاص۔اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اوربعض باطِنی جیسے تکبُّر۔امام غزالی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حسد ، رِیا اور تکبُّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔
( منہاج العابدین ، ص13 ملخصاً )
تکبر کی تعریف : تكبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔
( المفردات للراغب ، ص421 )
تکبر کی اقسام اور احکام : ( 1 ) اللہ پاک کے مقابلے میں تکبر۔تکبر کی یہ قسم کفر ہے۔ ( 2 ) اللہ پاک کے رسولوں کے مقابلے میں تکبر۔تکبر کی یہ قسم بھی کفر ہے۔ ( 3 ) بندوں کے مقابلے میں تکبر۔یعنی اللہ پاک اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ مخلوق میں سے کسی پر تکبر کرنا ، اس طرح کہ اپنے آپ کو بہتر اور دوسرے کو حقیر جان کر اس پر بڑائی چاہنا اور مساوات یعنی باہم برابری کو ناپسند کرنا۔ یہ صورت اگرچہ پہلی دو صورتوں سے کم تر ہے مگر یہ بھی حرام ہے۔ ( احیاءالعلوم ، 3 / 425 ، 424ماخوذاً )
احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے ، 5 احادیث آپ بھی ملاحظہ کیجئے :
( 1 ) متکبّرین کے لئے رُسوائی : اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا ، ہرجانب سے ان پر ذلّت طاری ہو گی ، انہیں جہنم کے ” بُولَس “ نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے کر ان پر غالب آ جائے گی ، انہیں ” طِیْنَۃُ الْخَبَال یعنی جہنمیوں کی پیپ “ پلائی جائے گی۔
( ترمذی ، 4 / 221 ، حدیث : 2500 )
( 2 ) تکبر اللہ کی صفت : نبیِّ اکرم نورِمجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : کبریائی میری چادر ہے۔ لہٰذا جو میری چادر کے معاملے میں مجھ سے جھگڑے گا میں اسے پاش پاش کر دوں گا۔ ( مستدرك ، 1 / 235 ، حدیث : 210 ) مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کبر سے مراد ذاتی بڑائی ہے۔ چادر فرمانا ہم کو سمجھانے کے لئے ہے کہ جیسے ایک چادر دو آدمی نہیں پہن سکتے یوں ہی کبریائی سوائے میرے ( یعنی اللہ کے ) دوسرے کے لئے نہیں ہو سکتی۔ ( مراٰة المناجیح ، 6 / 659 ملتقطاً )
( 3 ) ٹخنے سے نیچے پاجامہ لٹکانا : رحمتِ الٰہی سے محروم ہونے والوں میں متکبر بھی شامل ہوگا ، اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : جو تَکبر کی وجہ سے اپنا تہبندلٹکائے گا اللہ پاک قِیامت کے دن اُس پر نظرِ رحمت نہ فرمائے گا۔ ( بخاری ، 4 / 46 ، حدیث : 5788 ) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اِسبال ( یعنی تہبند اور پائنچے وغیرہ ٹخنوں سے نیچے رکھنا ) اگربراہِ عُجب وتکبر ہے ( تو ) حرام ورنہ مکروہ اور خلافِ اَولیٰ۔ ( فتاوی رضویہ ، 22 / 167 )
( 4 ) جنت میں داخل نہ ہو سکے گا : تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی ( یعنی تھوڑا سا بھی ) تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ( مسلم ، ص61 ، حدیث : 266 ) حضرت علامہ علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : جنت میں داخل نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ تکبر کے ساتھ جنت میں کوئی داخل نہ ہوگا بلکہ تکبر اور ہر بری خصلت کے سبب عذاب بھگتنے کے ذریعےیااللہ پاک کے عفو و کرم سے پاک و صاف ہو کر جنت میں داخل ہو گا۔ ( مرقاةالمفاتيح ، 8 / 828 ، 829 ، تحت الحدیث : 5107 )
( 5 ) رسولُ اللہ کی مجلس سے دور : فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے قابلِ نفرت اور میری مجلس سے دُوروہ لوگ ہوں گے جو واہیات بکنے والے ، لوگوں کا مذاق اُڑانے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں۔ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی : مُتَفَیْہِق کون ہیں؟ تو آپ علیہ السّلام نے اِرشاد فرمایا : اِس سے مراد ہر تَکَبُّر کرنے والا شخص ہے۔ ( ترمذی ، 3 / 410 ، حدیث : 2025 )
میٹھےمیٹھےاِسلامی بھائیو ! ذرا سوچئے کہ اِس تکبر کا کیا حاصل ! محض لذّتِ نفس ، وہ بھی چند لمحوں کے لئے ! جبکہ اس کےنتیجے میں اللہ ورسول کی ناراضی ، مخلوق کی بیزاری ، میدانِ محشر میں ذلت ورُسوائی ، رب کی رحمت اور اِنعاماتِ جنت سے محرومی اور جہنم کا رہائشی بننے جیسے بڑے بڑے نقصانات کا سامنا ہے ! غرور و تکبر نے نہ کسی کو شائستگی بخشی ہے اور نہ کسی کو عظمت و سربلندی کی چوٹی پر پہنچایا ہے ، ہاں ! ذلّت کی پستیوں میں ضرور گرایا ہے۔
تکبر کا علاج یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ اگر تکبر ، علم ، عبادت و ریاضت ، مال و دولت ، حسب و نسب ، عہدہ و منصب ، کامیابی و کامرانی ، حسن و جمال کی وجہ سے ہےتویہ سب نعمتیں تو اللہ پاک نے دی ہیں ، اس پر تکبر کرنا کیسا ؟ اگر خدانخواستہ اس تکبر کی وجہ سے کل بروزِ قیامت رب کریم ناراض ہو گیا اور جہنم میں شدید آگ کا عذاب دیا گیا ، تو اسے کیسے برداشت کریں گے؟
اللہ پاک دیگر باطنی امراض کے ساتھ ساتھ تکبر جیسے موذی مرض سے بھی بچائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ( درجۂ ثالثہ ، جامعۃُ المدینہ ڈگری ، سندھ )
Comments