فریاد
اپنےمسائل کس سےڈسکس کریں ؟
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست 2022ء
ایک بزرگ رحمۃُ اللہ علیہ کچھ پریشانیوں میں گھِرے ہوئے تھے مگر وہ اپنی پریشانیاں گھر میں کسی کو بتاتےنہیں تھے ، اس کی وجہ انہوں نے کچھ یوں ارشادفرمائی کہ ” مجھے پتا ہےکہ میری ان پریشانیوں کا حَل میرے گھر والوں کے پاس نہیں ہے ، فی الحال تو صرف میں پریشان ہوں ، اگر میں اپنی یہ پریشانیاں اپنے گھر والوں سے شیئر کروں گاتو میرے ساتھ ساتھ وہ بھی پریشان ہوجائیں گے اور پھر میری پریشانیاں مزید بڑھیں گی کم نہیں ہوں گی ۔ “
اے عاشقانِ رسول! یقیناً پریشانیاں اور مسائل انسان کی زندگی کاحصہ ہیں ، زندگی کو آسان بنانے کے لئے انہیں بَروقت حل کرنابھی ضروری ہوتاہے ، اس کے لئے کسی نہ کسی سے بات بھی کرنی پڑجاتی ہےمگر آدمی بات اسی سے کرے کہ جس سےوہ پریشانی حل ہوسکتی ہو ، ہرایک کے سامنےہی اپنی کتاب کھول کربیٹھ جانا اپنی ہی عزت وحیثیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ نیزیہ بات بھی اپنے ذہن میں بٹھا لیجئے کہ ” عام طور پر مسائل اپنے وقت پرہی حل ہوتےہیں “ مثال کے طور پر بعض اوقات دروازےمیں انگلی آجاتی ہے اور شاید خون جمنے کی وجہ سے ناخن پرکالانشان پڑجاتا ہے ، اس نشان کوختم کرنے کے لئے آپ چاہےجتنی دوا استعمال کرلیں یہ نشان ختم نہیں ہوتا بلکہ اسے ختم کرنے کے لئے آپ کو کچھ دن انتظار کرنا پڑتا ہے ، آہستہ آہستہ اوّلاً درد ختم ہوتاہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ نشان بھی خود بخودمِٹ جاتا ہے۔ اسی طرح سارے مسائل نہ سہی البتہ کئی مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج ” وقت “ ہوتا ہے کہ وہ وقت پرشروع ہوتے ہیں اور انہیں اپنے وقت پرہی ختم ہونا ہوتا ہے ، وہ کم وقت کے مسائل بھی ہوسکتے ہیں اور زیادہ وقت کے بھی ، مگروہ حل اپنے وقت پر ہی ہوتے ہیں ، انہیں حل کرنے اورختم کرنےکی تدابیرکرنی چاہئیں ، مگر جب تقدیر غالب ہو تو تدبیر کام نہیں آتی ، اس لئے کئی پرابلمزمیں ضبط و صبر کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہوتا۔
میڈیکلی طورپر ڈاکٹرز ایک ٹَرم استعمال کرتے ہیں جسے ” ویٹ اینڈ واچ “ کہا جاتا ہے ، اس کامطلب یہ ہےکہ پہلی مرتبہ ڈاکٹرآپ کودوا نہیں دےگا ، وہ کہےگا کہ آپ تھوڑا سا ٹائم فیکٹر یُوز کریں ، ہوسکتا ہے کہ آپ کایہ مسئلہ خود بخود حل ہوجائے ، نیز نفسیاتی طورپراس میں یہ بھی ہوتا ہےکہ جب پرابلم شروع میں آپ کےپاس آتی ہےتو آپ کو پتا نہیں چلتا کہ میں اس سے نمٹنے کے لئے کیا کروں اور کیا نہ کروں ؟ جلدی میں آپ صحیح معنوں میں اس کاجائزہ نہیں لے پاتے ، اور ہوسکتا ہے کہ پرابلم چھوٹی سی ہو مگر آپ کے پریشان اور نَروَس ہونے کی وجہ سے وہ چھوٹی سی پرابلم بھی بڑی بن جائے ، مثال کے طور پر ( انگزائٹی Anxiety ) کی ٹریٹمنٹ اوّلاً اس طرح ہوتی ہےکہ جن کو کسی چیز سے انگزائٹی ہوئی ان کو کہاجاتا ہے کہ آپ آرام سے بیٹھ جائیں ، کچھ ٹائم میں آپ کی انگزائٹی خود بخود نیچے آنا شروع ہوجائے گی۔تو مسائل کے حل کے سلسلے میں ایک تو ٹائم فیکٹرکا بڑا ایشو ہے ، اچانک مسائل آتے ہیں تو شروع میں آپ انہیں ایک دوگھنٹےیا ایک دودن اپنی حدتک محدود رکھیں ، تب تک یاتووہ مسائل خودبخود حل ہوجائیں گے یا پھر ہوسکتا ہےکہ آپ کےاپنےذہن میں ہی کوئی اچھاساحَل آجائے۔
دوسری ضروری بات یہ ہےکہ آپ اپنا مسئلہ ڈسکس کس سے کررہے ہیں ، جس سے آپ اپنامسئلہ بیان کر رہے ہیں وہ آپ کامسئلہ حل کرسکتا ہے یا نہیں ، اگر وہ حل نہیں کرسکتا تو اب ایک کے بجائے دوبندے پرابلم کا شکار ہوجائیں گے بلکہ بسا اوقات گھرمیں ڈسکس کرنےسے سارے گھروالےپریشانی میں مبتلا ہوجاتےہیں ، کیونکہ گھرسے باہر کے مسائل اور پرابلمز گھرمیں ذکر کرنے سے گھر میں Panic ( خوف و ہراس ) پھیلتا اور آپ کے گھروالے پریشانی اور ٹینشنز کا شکار ہوجاتے ہیں ، پہلےآپ کی زوجہ نارمل تھی ، گھرکےکام کاج کرنے ، چیزوں کو رکھنے اوراٹھانے میں اسے کوئی پرابلم نہیں تھا ، لیکن جب آپ نے باہر کے مسائل ذکر کرکے اسے ٹینشن دےدی تو اب وہ پلیٹ بھی گراسکتی ہے ، کپ بھی اس کےہاتھ سے چھوٹ سکتاہے ، چولہے پر اس کاہاتھ بھی جل سکتاہےاوربھی کچھ نہ ہونے کا اس سے ہوسکتا ہے ، کیونکہ اسے گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے ، اور ” گھبراہٹ ڈاٹ کام “ گھر میں شروع ہوجائے تو پھریہ ویب سائٹ بڑی عجیب صورتِ حال پیدا کردیتی ہے۔ اسی طرح بعض اوقات کچھ اسلامی بھائیوں کے نیچر کے بارے میں پتا چلتا ہےکہ وہ اپنی تنظیم کے میٹر بھی گھر میں ڈسکس کرتےہیں حالانکہ تنظیم کی باتیں گھرمیں ڈسکس کرنا بنتانہیں ہے ، بلکہ دعوتِ اسلامی کا تویہ طریقۂ کار ہے کہ اپنا مسئلہ متعلقہ اسلامی بھائی سے بیان کر کے خاموش ہو جائیں ، مثلاً اپنے نگران سے بات کرکے چُپ ہوجائیں ، مگر کچھ اسلامی بھائی نگران سے بات کرکے تو خاموش ہوجاتے ہوں گے مگر گھر میں سب سے بات کرتے ہوں گے ، حالانکہ تنظیمی مسائل کا حَل گھرسے نہیں نکلتا ، اسی طرح کاروباری مسائل کا حل بھی گھر سے نہیں نکلتا ، البتہ کاروبارمیں آمدنی کم ہے اور اس کم آمدنی کی بنیاد پر گھر کے اندرآپ اخراجات کو ڈسکس کرناچاہتے ہیں تو وہ ٹاپک بنتا ہے کہ اس معاملےکوآپ گھرمیں ڈسکس کریں۔ یوں ہی بعض مسائل انسان کےفزیکلی ہوتے ہیں جنہیں اگرگھرمیں ذکرکیا جائے تو گھر والےپریشان ہوجاتے ہیں ، اگر ضرورت نہ ہو تو ان کا تذکرہ بھی گھرمیں نہ کیا جائے ، گھر سے باہر کے مسائل گھر میں ذکر کرنےکی ایک بڑی خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ ایسی صورت میں عام طور پر غیبت ، تہمت ، بہتان اور بَدگمانی جیسےگناہوں میں مبتلا ہونے کاامکان رہتا ہے۔
میری تمام عاشقانِ رسول سےفریادہے! صبر وہمت سے کام لیجئے ، بلاوجہ اپنے مسائل ہر ایک سے بیان مت کیجئے اور پرابلمز کے بَروقت حل کے لئے صرف اور صرف متعلقہ افراد ہی سےبات چیت کیجئے۔ اللہ کریم ہمارے حال پر رحمت کی نظر فرمائے اور دنیا و آخرت کی پریشانیوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments