*مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مَدَنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2022ء
( 01 ) چھینکنے والے نے الحمدُلِلّٰہ آہستہ کہا تو کیا جواب دینا واجب ہوگا؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بہار ِشریعت میں لکھا ہے کہ اگر چھینکنے والے نے حمد نہیں کی تو جواب نہیں۔ سوال یہ ہے کہ بعض اوقات چھینکنے والا شخص ہلکی آواز میں اَلحمدُ لِلّٰہ کہتا ہے ، جس کی آواز حاضرین کو نہیں آتی ، اس وجہ سے حاضرین کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ اس چھینکنے والے نے اَلحمدُ لِلّٰہ کہا ہے یا نہیں کہا تو کیا اس صورت میں چھینک کا جواب دینا واجب ہوگا ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
چھینک کا جواب دینا اس وقت واجب ہوتا ہے کہ جب چھینک کے ساتھ ساتھ چھینکنے والے سے حمد ( اَلحمدُ لِلّٰہ ) بھی سنی جائے ، لہٰذا چھینکنے والے نے ہلکی آواز میں اَلحمدُ لِلّٰہ کہا اور حاضرین نے نہیں سنا ، تو جواب دینا واجب نہیں ، البتہ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب یہ معلوم نہ ہو کہ چھینکنے والے نے حمد کی ہے یا نہیں کی تو پھر یوں مشروط جواب دے دینا چاہیےکہ اگر تونے حمد کی ہے تو یَرْحَمُکَ اللہ۔
واضح رہے اگر کوئی شخص بہت سارے لوگوں کی موجودگی میں چھینکا اور اَلحمدُ لِلّٰہ کہا ، تو سننے والوں میں سے ایک نے بھی جواباً یَرْحَمُکَ اللہ کہہ دیا تو سب سننے والوں کی طرف سے واجب ادا ہوجائے گا ، اب سب کو جواب دینا واجب نہیں۔
بخاری شریف میں موجود حدیثِ پاک کا حصہ ہے : ” فاذا عطس فحمد اللہ فحق علی کل مسلم سمعہ ان یشمتہ “ یعنی کسی کو چھینک آئے اور وہ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد کرے تو ہر سننے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کا جواب دے۔ ( بخاری ، 4 / 162 ، حدیث:6223 )
لمعات التنقیح میں ہے : ” فان لم یحمد لم یستحق الجواب ، وان اخفی بحیث لم یسمعہ الحاضر لم یلزمہ ایضاً “ یعنی اگر چھینکنے والے نے حمد نہیں کی تو جواب کا مستحق نہیں اور اگر اس نے آہستہ حمد کی ، حاضر شخص نے نہیں سنی تو بھی جواب لازم نہیں۔ ( لمعات التنقیح ، 8 / 80 )
ردالمحتار میں ہے : ” اذا عطس رجل ولم یسمع منہ تحمید یقول من حضرہ یرحمک اللہ ان کنت حمد ت اللہ تعالٰی “ یعنی کوئی چھینکا اور اس سے حمد نہ سنی گئی تو جو موجود ہے وہ یوں جواب دے کہ اگر تو نے حمد کی تو یَرْحَمُکَ اللہ۔ ( ردالمحتار ، 9 / 684 )
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 02 ) جو شخص امام کو پہلی رکعت کے دوسرے سجدے میں پائے تو نماز میں کیسے شامل ہو؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص مسجد میں آئے اور امام صاحب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے میں ہوں تو اس شخص کو پہلی رکعت تو نہیں ملی ، جس کی وہ قضا امام کے سلام کے بعد کرے گا ، سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے سجدے میں امام کے ساتھ شامل ہوسکتا ہے ، اگر شامل ہوگیا تو جو ایک سجدہ رہ گیا ہے وہ سجدہ بھی اس کو کرنا ہوگا یا ایک سجدہ کرکے امام صاحب کے ساتھ کھڑا ہوجائے ؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جب کوئی شخص امام کو دوسرے سجدہ میں پائے تو نماز میں ملنے کا طریقہ یہ ہے کہ قیام کی حالت میں تکبیرِتحریمہ کہے پھر سجدہ میں جانے کے لئے تکبیر کہے اور سجدہ میں امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اس صورت میں مقتدی پر اس سجدہ کی قضاء لازم نہیں ہوگی جوامام پہلے کر چکا ہے ، بلکہ رہ جانے والی رکعت کو جب وہ ادا کرے گا تو اس رکعت کے سجدے بھی ادا ہو جائیں گے۔
اگر کوئی شخص اس موقع پر امام کے کھڑے ہونے کا انتظار کرے پھر نماز میں شامل ہو تو ایسا کرنا گناہ نہیں البتہ مستحب یہ ہے کہ امام جس حالت میں بھی ہو اس کے ساتھ شریک ہوا جائے ، انتظار نہ کیا جائے۔
ترمذی شریف میں ہے : ” قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذا اتی احدکم الصلاۃ والامام علی حال فلیصنع کما یصنع الامام “ یعنی جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے آئے اور امام کسی حالت میں ہو تو وہ شخص بھی وہی کرے جو امام کر رہا ہے۔ ( ترمذی ، 2 / 103 ، حدیث:591 )
بخاری شریف میں وارد حدیثِ پاک کا جز ہے : ” فما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا “ یعنی امام کی نماز سے جو تم پا لو وہ پڑھ لو اور جو تم سے فوت ہوجائے اس کو بعد میں مکمل کرو۔ ( بخاری ، 1 / 230 ، حدیث:636 )
مذکورہ حدیثِ پاک کی شرح میں علامہ بدرالدین عینی رحمۃُ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں : ” فیہ استحباب الدخول مع الامام فی ای حالۃ وجدہ علیھا “ یعنی اس حدیثِ پاک سے پتا چلا کہ امام کو جس حالت میں بندہ پائے اس حالت میں شریک ہوجائے ، یہ مستحب ہے ۔ ( عمدۃ القاری4 / 213 ، تحت الحدیث:636 )
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
( 03 ) خدا و رسول کی قسم یہ کام نہ کروں گا ، یہ قسم کیوں نہیں؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بہارِ شریعت ، جلد دوم ، صفحہ 302 پر مسئلہ نمبر 14 ہے ” خدا و رسول کی قسم یہ کام نہ کروں گا یہ قسم نہیں۔ “ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ یہاں قسم کا لفظ موجود ہے تو قسم کیوں نہیں ہو رہی؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قسم منعقد ہونے کی متعدد شرائط ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام مبارک اور جس چیز پر قسم اٹھا رہا ہے اس کے الفاظ ، دونوں ایک ساتھ بولے جائیں ، ان میں کوئی اجنبی فاصل ہو تو جملہ قسم نہیں بن سکتا۔ بہارِ شریعت میں موجود جملہ ” خدا و رسول کی قسم “ میں ” رسول کی قسم “ کا لفظ قسم نہیں بن سکتا ، جب لفظ ” خدا “ اور ” یہ کام نہیں کروں گا “ کے درمیان لفظ ” رسول کی قسم “ اجنبی فاصل کے طور پر حائل ہو گیا تو یہ مکمل جملہ قسم نہیں بن سکتا۔ ( فتاویٰ ہندیہ ، 2 / 58 ، جد الممتار ، 5 / 295 )
وَاللہ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ( محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی )
Comments