مراحلِ طلاق اور عورت پر اسلام کے احسانات (قسط 01)

آخر درست کیا ہے؟

مراحلِ طلاق اور عورت پر اسلام کے احسانات

 ( قسط01 )

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ اگست 2022

 حضرتِ آدم علیٰ نَبِیِّنَا و علیہِ الصّلوٰۃُ و السّلام کے زمانے سے لے كر آج تک سلسلہِ  نکاح انسانی زندگی میں نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ نکاح کے بغیر جنسی تعلقات قائم کرنا جانوروں کا فطری طریقہ ہے ، انسانوں کا نہیں۔ اِس لئے تمام آسمانی مذاہب ، بلکہ غیر آسمانی مذاہب میں بھی نکاح کو بہت اہمیت دے کر بیان کیا گیا ہے۔ نکاح کے ساتھ جڑا ہوا ایک معاملہ طلاق کا بھی ہے کہ بعض اوقات ایک ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے تو جدائی تک نوبت آجاتی ہے۔ اب اِس جدائی کا طریقہ کیا ہونا چاہئے ، اس معاملے میں مختلف مذاہِب میں مختلف طریقے رائج ہیں ، لیکن اِسلام کا طریقہ اُن سب میں مُعْتَدِل اور فریقین کے لئے بہترین ہے۔ اِس طریقے پر عمل نہ کرکے اگر کوئی شخص نقصان اٹھائے یا دوسرے کو نقصان پہنچائے تو یہ اُس کا اپنا معاملہ ہے ، طریقے پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ حقیقت ہے کہ اسلامی طریقے کی پوری طرح پیروی کی جائے تو پھر اِس سے بہتر طریقہ ممکن نہیں۔

ازدواجی زندگی میں پہلی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کا حصہ ، اپنی ذات کے لئے تسکین ، اپنی خوبیوں کے لئے زینت اور اپنی خامیوں کے لئے پردہ سمجھیں ، چنانچہ فرمایا : وَمِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ (۲۱) ترجمۂ کنزالعرفان :  اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کی طرف آرام پاؤ اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھی۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ ( پ21 ، الروم :  21 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ازدواجی زندگی کی دوسری ہدایت یہ ہے کہ بیوی بچوں سے بعض اوقات جانے انجانے میں شوہر کے حقیقی فائدے کے خلاف کوئی فعل سرزد ہوجاتا ہے ، جو ایک قسم کی دشمنی ہے ، لیکن بیوی بچے حقیقت میں دشمن نہیں ہوتے ، لہٰذا اگر ایسا کچھ ہوجائے تو شوہر بیوی بچوں کے ساتھ عَفْو و درگزر کا معاملہ رکھے ، چنانچہ فرمایا :  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ-وَاِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۴) ترجمۂ کنزالعرفان : اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا ، بہت مہربان ہے۔ ( پ28 ، التغابن : 14 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ازدواجی زندگی کی تیسری ہدایت یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں کچھ اَن بَن ہوجائے تو آپس میں اِفہام و تفہیم یعنی بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھا کر معاملہ صحیح کرلیں اور اپنی زندگی لوگوں ، خاندان اور اپنے بچوں کے سامنے تَماشَہ نہ بنائیں ، چنانچہ فرمایا :   وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّۚ-فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا (۳۴)  ترجمۂ کنزالعرفان :   اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور  ( نہ سمجھنے کی صورت میں )  ان سے اپنے بستر الگ کرلو اور  ( پھرنہ سمجھنے پر )  انہیں مارو پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو  ( اب )  ان پر  ( زیادتی کرنے کا )  راستہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ بہت بلند ، بہت بڑا ہے۔ ( پ5 ، النسآء :  34 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہاں مارنے سے مراد آج کے زمانے کی جاہلانہ مار نہیں ، بلکہ ایک تادیبی تفہیم ہے اور جو اس میں بھی حد سے گزرنے کا عادی ہو یا جسے قوی اندیشہ ہو ، اُسے اِس کی بھی اجازت نہیں۔

ازدواجی زندگی کی چوتھی ہدایت یہ ہے کہ میاں بیوی اگر خود معاملہ نہ سنبھال سکیں تو دونوں کے رشتے دار مل کر ناراضی کا حل نکالنے کی کوشش کریں ، چنانچہ فرمایا : وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا (۳۵) ترجمۂ کنز العرفان :  اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک مُنْصِفْ مرد کے گھر والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک مُنْصِفْ عورت کے گھر والوں کی طرف سے  ( بھیجو )  یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا ، خبردار ہے۔ ( پ5 ، النسآء :  35 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ان سب کوششوں کے بعد بھی اگر معاملہ صحیح نہ ہوسکے تو اب کیا طریقہ اپنایا جائے۔ اس کے لئے پہلے زمانۂ جاہلیت کا طریقہ کار ملاحظہ کریں ، پھر دیکھیں کہ اسلام نے اُسے کس طرح حدود کا پابند کیا۔ زمانۂ جاہلیت میں شوہر بیوی کو ایک طلاق دیتا ، جب اُس کی عدت مکمل ہونے والی ہوتی تو فوراً رجوع کر لیتا ، پھر دوبارہ طلاق دیتا ، پھر اختتامِ عدت کے قریب رجوع کر لیتا ، مسلسل اِس حرکت کے ذریعے عورتوں کو برسوں لٹکا کر رکھا جاتا ، کہ جب بھی طلاق دیں گے ، رجوع کر لیں گے ، چنانچہ اِس انداز میں اُنہوں نے عورتوں کی زندگیوں کو عذاب بنا رکھا تھا ، چنانچہ زمانۂ نبوی میں ایسا ہی ایک واقعہ ہوا کہ ایک عورت نے سرکارِدوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا ، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر قرآن کی آیت نازل ہوئی ، ( البحر المحیط ، البقرۃ ، تحت الآیۃ :  229 ، 2/202 )  اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-۔۔۔۔۔۔ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ- وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (۲۲۹)  ترجمۂ کنزالعرفان :  طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا اچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔۔۔۔۔۔یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔  ( پ2 ، البقرۃ : 229 )  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

لہٰذا اللہ تعالیٰ نے طلاق اور رجوع کے لامتناہی سلسلے کو روکا اور یہ حکم نازل فرمایا کہ مرد کو دو طلاقوں تک رجوع کا اختیار رہے گا ، لیکن جیسے ہی تیسری طلاق دی تو معاملہ ختم ہوجائے گا اور اب صرف شوہر کے ہاتھ کا اختیار ختم ہوجائے گا اور دوبارہ ملاپ میں شوہر کی رضا کی طرح بیوی کو بھی اپنی مرضی کا برابر حق حاصل ہوجائے گا ، گویا اصل حقیقت یہ ہے کہ تین طلاق کی حدبندی سے عورتوں پر ہونے والے مسلسل ظلم و جَبْر کی رسم کا خاتمہ کیا گیا کہ جب تیسری طلاق دی جائے گی ، تو عورت ہمیشہ کے لئے شوہر پر حرام ہو جائے گی ، اب اُس عورت کی اپنی زندگی ہے ، عدت کے بعد وہ چاہے تو نکاح نہ کرے اور بغیر نکاح کے زندگی گزاردے اور چاہے تو اپنی مرضی سے جس مرد سے چاہے نکاح کرلے اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے ، لیکن اگر نئی جگہ شادی کی اور وہ شوہر فوت ہو گیا یا اُس نے بھی طلاق دے دی ، تو یہ پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو فرمایا کہ اب یہ عدت کے بعد اُس پچھلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ بھی عورت کی مرضی ہے ، کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا۔

آپ غور کیجئے تو سارے کا سارا معاملہ عورت کی رضامندی اور اُس کی مرضی پر موقوف ہے۔ مطلّقہ عورت کو نہ ہی دوسرے شوہر سے نکاح کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ، نہ دوسرے شوہر سے طلاق لینے پر جبر ہے اور نہ ہی دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرنے کی پابندی ہے ، بلکہ تینوں جگہ ہی عورت کی مرضی پر دار و مدار ہے ، اگر وہ چاہے تو ٹھیک ، ورنہ اُس کی اپنی زندگی ہے ، جیسے چاہے گزارے۔

میں یہ سب وضاحت اس لئے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ دینی مسائل کو مذاق بنا لیتے ہیں۔ بالخصوص جو دین دشمن اور دین بیزار لوگ ہوتے ہیں ، وہ اُن چیزوں کو کہ جنہیں خدا نے ظلم کے خاتمے کا ذریعہ بنایا ، مَعاذَاللہ اُسی کو ظلم کی تصویر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اِس طلاق والے مسئلہ کی حقیقی صورتِ حال یہی ہے ، جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے ، کہ اِس میں ظلم نہیں ہے ، بلکہ عورت کو اُس کے حقوق کی فراہمی کا بیان ہے۔مگر آیت کی اِس حقیقت کا اِدراک دانش مندوں کے لئے ہے ، دین بیزاروں کے لئے نہیں۔  ( جاری ہے۔۔۔ )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ( نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی )


Share

Articles

Videos

Comments


Security Code