مصیبت وپریشانی میں بھی بھلائی ہے

حدیث شریف اور اس کی شرح

مصیبت و پریشانی میں بھی بھلائی ہے

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ اگست2022

 رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّصِبْ مِنْہُ یعنی اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اُسے مصیبت میں مبتلا فرمادیتا ہے۔  [1]

مصیبت کسے کہتےہیں ؟  ہر وہ ناپسندیدہ چیز جو انسان کو آزمائش میں ڈالے وہ مصیبت ہے۔[2]   نیز  مصیبت سے اولاد ،  بیماریوں اورمال کی صورت میں پہنچنےوالی آزمائش بھی مراد ہے یعنی بندے کو کبھی بیماری ،  کبھی اولاد اور کبھی مال کے ذریعے آزمایا جاتا ہے ،  یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے اور بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں گناہوں سے پاک ہوکر حاضری دیتا ہے ۔[3]

 حدیثِ پاک کا معنی و مفہوم شارحینِ حدیث نے اس مفہوم کی احادیث کی شرح میں جو کچھ بیان فرمایا ہے اُ ُس کا خلاصہ یہ ہے :

 ( 1 ) مؤمن کو آزمائش میں ڈالاجاتا ہےتاکہ یہ آزمائش اُس کے گناہوں کا کفّارہ بن جائے۔[4]

 ( 2 )  آزمائش آنے کی صورت میں بندے کو دو طرح سے بھلائی ملتی ہے :  ( 1 ) حال  ( Present )  کےاعتبار سےملنےوالی خیر یہ ہےکہ بندہ اِس مصیبت کی وجہ سے اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا و رجوع کرتا ہے (  اور یوں اللہ کریم  کےقریب ہوجاتا ہے )   ( 2 ) نتیجے  ( Result ) کےاعتبار  سے ملنے والی خیر یہ ہے کہ بندے کےگناہ مٹ جاتےہیں یااُس کےلئےنیکیاں لکھ دی جاتی ہیں یاگناہ مٹنےاورنیکیاں لکھنےکا سلسلہ ایک ساتھ ہوتا ہے۔[5]

 ( 3 ) جان و مال مصیبت و پریشانی سے محفوظ ہوں تو بسااوقات غفلت کا مرض بھی لگ جاتا ہےایسی صورت میں آنے والی مصیبت نفس کے لئے لگام کاکام دیتی ہےجس سے بندہ اللہ پاک کی بارگاہ کی طرف لوٹ آتا ہےاور  ( صبر اور دیگر نیکیاں کرکے )  ثواب کا حق دار قرار پاتا ہے۔[6]

 انعام یافتہ بندوں کی سیرت سےدرس حاصل کیجئے اللہ پاک کےانعام یافتہ بندوں میں انبیا و رُسُل ،  صدیقین ،  شہدا اور اولیا وصالحین شامل ہیں ، اِ ن حضرات کی زندگی آزمائشوں سے بھرپورہواکرتی ہے ، یہ آزمائشیں ہیں جواِن صبرواستقامت کی پیکرشخصیات کونمایاں کرتی ہیں ، مشکلات میں اِن حضرات کی زبان پرشکوےشکایات نہیں ہوتے بلکہ حکمت بھرے سنہرے الفاظ ہوتے ہیں ، اِن حضرات کی مبارک زندگی ظلم کے اندھیروں اورمصیبت کے طوفانوں میں بھی ایسی رہنمائی عطاکرتی ہے جس سے آنکھوں کوروشنی ،  دل کو ہمت اور کردار کو خوب صورتی نصیب ہوتی ہے اور ان حضرات کے   مصائب سہنے اور ان کی وجہ سے انہیں انعاماتِ خداوندی ملنے کے واقعات سے بندے پر واضح ہوجاتا ہے کہ  در اصل مصائب پر صبر کرنا ہی ہمارے لئے بارگاہِ الہٰی سے خیر حاصل کرنے کا ایک طریقہ  ہے۔ محرّمُ الحرام کا مبارک مہینا ہمیں شہدائے کربلا کی یاد دلاتا ہےاوریہ بھی سکھاتا ہے کہ بارگاہِ الہٰی سے بھلائی کےطلب گار ہوتوکربلا والوں کےکریمانہ انداز اپناؤ اور میدانِ کربلا میں اِن پر آنے والی آزمائشوں سے بھی درس حاصل کروتاکہ مصیبت و آزمائش میں صبروشکر کے ساتھ کھڑے ہونا سیکھ سکو۔

 ” مصیبت وآزمائش “  جعلی تو نہیں ؟  کئی مصیبتیں اور آزمائشیں وہ ہوتی ہیں جو ” اصلی “ نہیں ہوتیں بلکہ جعلی ہوتی ہیں اور یہ جعلی مصیبتیں ہماری حسرتوں ، خواہشوں اورحرص و لالچ جیسی خراب عادتوں سےپیداہوتی ہیں ، لوگوں کی چمکتی گاڑیاں یا سہولیات سےبھرپورلائف اسٹائل کوحسرت بھری نظروں سےدیکھ کراپنی قسمت کوکوستےرہنا ، خود کو پیسے والا ثابت کرنے کے لئے غیر ضروری خرچہ کرنا وغیرہ جیسے کام وہ جعلی مصیبت و آزمائشیں ہیں جو ہماری زندگی سے خوشیاں چھین لیتی ہیں۔ اس بات کو واضح انداز میں سمجھنے کے لئے  یہ حکایت پڑھئے:

ایک سکّے کےلیے 99سکّوں کی خوشی گنوادی ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا : میرےفلاں خدمت گار کے پاس کچھ بھی نہیں پھر بھی وہ مجھ سےزیادہ خوش رہتا ہے ؟  وزیر نے مسکراکر کہا:آپ 99 کا قانون استعمال کرکے دیکھئے۔ بادشاہ نے پوچھا : بھئی !  یہ 99 کا قانون کیا ہے ؟ وزیر نےعرض کی : بادشاہ سلامت !  ایک تھیلی میں چاندی کے نناوے سکّے ڈالئے اور ایک پرچی پر یہ لکھ کرتھیلے کے باہر لگادیجئے : چاندی کے 100 سکّے تمہارے لئے ہیں۔ یہ تھیلی اُس کے گھرکے باہر کسی خادم کے ذریعے رکھوا دیجئے ،  وہ دروازہ بجاکر اِدھر اُدھر ہوجائے اور آپ وہاں چھپ کرتماشہ دیکھئے۔ بادشاہ نے وزیر کی تجویز پر عمل کیا اور رات کو نناوے چاندی کےسکّوں کی تھیلی پر 100 سکّوں والی تحریرلکھواکر اس خدمت گار کے گھر کے باہر رکھوادی اور رکھنے والا دروازہ بجاکر اِدھر اُدھر ہوگیا۔

دروازہ بجنے کی آواز سُن کر خدمت گار باہر آیا ، نظرتھیلی پر لکھی تحریر پرپڑی توبہت خوش ہوا ، تھیلی درواز ے سے اندر لایا ،  دروازہ بند کیا اور وہیں بیٹھ کر چاندی کے سکّے گننے لگا ، گنتی پوری ہوئی مگرسکّے نناوے نکلے ، اُس نے دوبارہ گنے ، اب بھی نناوے تھے یوں اُس نے مزیدچند بار یہ سکّے گنے مگر ہر مرتبہ یہ سکّے نناوے ہی نکلے ، اُس نے سوچا کہ گھر کے آس پاس ہی کہیں ایک سکّہ گر گیا ہوگالہٰذا اُس نے گھر کے سارےلوگوں کوجگایا اور گھر کے اردگرد ایک سکّہ ڈھونڈنے پرلگادیا ، آدھی رات تک جب سکہّ نہ ملاتو اُس نےناکامی پراپنے بیوی بچّوں کی خوب بے عزّتی کی اورغصے اور بےچینی کی حالت میں خود گھر سے باہر بیٹھ گیا۔ بادشاہ نےیہ تمام منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وہ سمجھ گیا کہ جوبےشمارنعمتیں ہونے کے باوجود ایک خوشی حاصل کرنے میں اپنے آپ کو اتناتھکا دیتے ہیں کہ اُنہیں زندگی کا ذائقہ کڑوا لگنے لگتا ہے اور یہ کڑواہٹ ٹپک ٹپک کر اِدھر اُدھر گرتی ہے جومعاشرے میں بےسکونی پھیلنے کاسبب بنتی ہے۔ بادشاہ یہ سوچنے لگا کہ  آج تک میں نے بھی یہی کیا ہے اس لئے میں بھی کسی ایک نعمت سے محروم ہونے کاغم لے کر بےشمار نعمتوں کی لذّت سےمحروم رہا ۔

یاد رکھئے ! زندگی کاحقیقی مزہ انہی کے حصّے میں آتا ہے جو اللہ کریم کی رضا میں راضی رہنا سیکھ جاتے ہیں اورجسےیہ ہُنَر نہیں آتا وہ آزمائشوں کا اشتہار بن کر مایوسی پھیلانے کا سبب  بن جاتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں ہر حال میں اپنی رضا پرراضی رہنے کی توفیق عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ( ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ،  المدینۃ العلمیہ  ( اسلامک ریسرچ سینٹر )  ،  کراچی )



[1] بخاری ،4/4، حدیث: 5645

[2] لمعات التنقیح،4/19،تحت الحدیث:1536

[3] الکوثر الجاری،9/231،تحت الحدیث:5645

[4] شرح بخاری لابن بطال،9/372

[5] دلیل الفالحین، 1/180،تحت الحدیث:39

[6] کشف المشکل من احادیث الصحیحین، 3/529 ، تحت الحدیث:2039ماخوذاً


Share