گناہِ بےلذت

تفسیرقراٰن کریم

گناہِ بے لذت

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضان مدینہ اگست 2022

 اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) ترجمۂ کنزالعرفان : مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(پ18 ، النور : 51) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر :  اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی شان بیان فرمائی ہے کہ اُن کا طریقہ ہر حکمِ خداوندی تسلیم کرنا اور اُس کے سامنے اپنا سر جھکا دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کا نام  ” اطاعت “  ہے اور حکم پر عمل نہ کرنے کا نام ” مَعْصیت یعنی نافرمانی “  ہے۔ نافرمانی کے لئے قرآن مجید میں بہت سے الفاظ بیان ہوئے ہیں جیسے  ” فِسْق ، عُدْوان ، حَرام “  اور  ” اِثم “  وغیرہا ، قرآنِ پاک میں ہے :  یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ ترجمہ :  اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشورہ کرو تو گناہ اور حد سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو۔(پ28 ، المجادلۃ : 9) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اِن سب الفاظ میں گناہ کا مفہوم مشترک ہے۔

گناہوں کی کچھ تفصیل :  گناہ چھوٹا ہو یابڑا ، خفیہ ہو یا اعلانیہ ، اُس میں لذّت ہو یا نہ ہو ، بہر صورت گناہ ، گناہ ہی ہے اور خدا کی طرف سے ہونے والی پکڑ کا ہمیں علم نہیں کہ کس گناہ پر گرفت فرما دے۔ ہمارے معاشرے میں گناہوں کا چَلن اِس حد کو پہنچ گیا ہے کہ نوجوانوں میں ایسے گناہ بھی کثرت سے نظر آنے لگے ہیں جن میں کوئی لطف و لذت بھی نہیں ، بس خوامخواہ مختلف اداکاروں ، گلو کاروں اور بُرے لوگوں کے پیچھے لگ کر وہ کام شروع کر دیتے ہیں ، جیسے مَردوں کا کانوں میں بالیاں ، انگلیوں میں سونے یا عام دھاتوں کی انگوٹھیاں ، ہاتھوں میں بریسلٹ ، کڑے اور گلے میں دھاتی چین(زنجیر) پہننا ، یونہی شارٹس کے نام پر ایسی چڈیاں پہننا جن میں گھٹنے اور رانیں کھلی نظر آتی ہیں ، بدن پر ٹیٹو (رنگ برنگے پختہ ڈیزائن) بنوانا ، یونہی داڑھیوں کی عجیب و غریب فیشن والی تراش خراش کرنا۔ یہ عجیب بےلذت گناہ ہیں کہ اپنے خیالوں میں خود کو کچھ منفرد سمجھتے پھرنا ہے اور حقیقت میں حاصل وصول کچھ بھی نہیں۔

اِن گناہوں کے اسباب :  ایسے گناہوں کے اِرتکاب کی دو وجہیں ہوتی ہیں۔

ایک وجہ لاعلمی ہے کہ اُس شے کا گناہ ہونا ہی معلوم نہیں۔

دوسری وجہ نفس و شیطان کی پیروی اور خدا کے حکم پر عمل کا شوق نہ ہونا۔ دونوں وجوہات ہی مسلمان کی آخرت کو نقصان پہنچانے والی اور اُس کے ایمانی ذوق کے خلاف ہیں۔ اِن دونوں وجوہات کے خاتمے کا طریقہ نیچے پیش کیا جاتا ہے۔

ارتکابِ گناہ کے پہلے سبب  ” لاعلمی “  کا تدارُک!

پہلا سبب لاعلمی ہے اور اوپر بیان کردہ بے لذت گناہوں کے حوالے سے اِس کا حل یہ ہے کہ شرعی حکم اور ان گناہوں پر وعیدیں جان لیں۔ آئیے احکامِ شریعت و گناہوں کی وعیدیں پڑھتے ہیں :

پہلا گناہ :  گناہِ بے لذت کی بڑی واضح اور عام پائی جانے والی مثال مختلف دھاتوں کے چھلے اور شرعی معیار سے ہٹ کر پہنی جانے والی انگوٹھیاں ہیں ۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ مرد کے لیے چاندی کی ساڑھے چار ماشے سے کم وزن کی ایک نگینے والی ایک انگوٹھی کے سِوا کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلے یا کڑے وغیرہا کچھ بھی جائز نہیں،چنانچہ ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس آیا،اس نے پیتل کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا کہ کیا بات ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو پاتا ہوں؟ اس نے وہ انگوٹھی اتار دی ، پھر آیا تو لوہے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا :  کیا بات ہے کہ میں تجھ پر جہنمیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں؟ اس نے وہ بھی اتار دی اور عرض کی :  یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا :  چاندی کی انگوٹھی بناؤ اور ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشے پورے نہ کرنا۔(ابو داؤد ، 4/122 ، حدیث : 4223)

دوسرا گناہ :  بہت سے نوجوان آج کل لوہے کے کڑے یا دیگر مختلف دھاتوں کے بریسلٹ(Bracelet) بھی پہنتے ہیں ، یہ بھی ناجائزو گناہ ہے۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے مَردوں کے کڑے پہننے پر سخت وعید بیان فرمائی ، چنانچہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھا ، تو فرمایا :  تجھ پر افسوس ہے ، تو نے کیا کردیا؟ اس نے عرض کیا :  یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! یہ میں نے بیماری کی وجہ سے پہنا ہے ، تو اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا :  اس سے تیری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس کڑے کو اتار دے ، کیونکہ اگر تو اس حالت میں مر گیا ، تَو تُو کبھی بھی فلاح پانے والوں میں نہیں ہوگا۔(مسندِ امام احمد ، 33/204 ، حدیث : 20000)

تیسرا گناہ :  لڑکوں کا اپنے کانوں میں بالیاں لٹکانا ہے ، یہ ناجائز و حرام ہے ، کیونکہ بالیاں پہننا عورتوں کا کام ہے اور مرد کو حکم ہے کہ وہ عورتوں کی مشابہت اختیار نہ کرے ، اور جو مرد عورتوں سے مشابہت اختیار کرے اُس پر لعنت ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اُن مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے اور اُن عورتوں پر جو مَردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں ، لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری ، 4/73 ، حدیث : 5885)

چوتھا گناہ :  مردوں کا سونے چاندی کی زنجیریں پہننا ہے۔ یہ بھی مَردوں پر حرام ہے ، کیونکہ چاندی یا سونے کی چین پہننا عورتوں کے لیے جائز ہے ، جبکہ مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی مخصوص شرائط کے ساتھ ہی جائز ہے ،  اِس کے سوا سونے اور چاندی کی کسی بھی قسم کی زینت مرد کو حلال نہیں۔ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنے دائیں ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ میں ریشم پکڑ کر ہاتھ بلند کر کے واضح الفاظ میں فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری امت کے مَردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہیں۔(ابن ماجہ ، 4/157 ، حديث : 3595)

پانچواں گناہ :   ” شارٹس/Shorts “  (چھوٹے سائز کی چڈیاں) پہننا ہے۔ آج کل کے لڑکے گلیوں،سڑکوں پر ایسے شارٹس (چھوٹے سائز کی چڈیاں) پہن کر پھِرتے ہیں ، جنہیں پہن کر گھٹنے اور رانیں کھلی ہوتی ہیں ، حالانکہ گھٹنااور رانیں سِتر یعنی چھپانے والے اعضاء میں داخِل ہیں ، چنانچہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایک آدمی کے پاس سے گزرے تو اُس کی ران کھُلی ہوئی تھی ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا :  اپنی ران چھپا لو کیونکہ یہ بھی مرد کے سِتر (پردہ) میں سے ہے۔(مسندِ امام احمد ، 4/295 ، حدیث : 2493) اِسی طرح نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے بالخصوص  ” گھٹنے “  کے متعلق ارشاد فرمایا :  گھٹنا عَورت سے ہے ، یعنی سِتر (چھپانے والے اعضاء)کا حصہ ہے۔(دار قطنی ، 1/431 ، حدیث : 889)

چھٹا گناہ :  جسم پہ مختلف ڈیزائن کے ٹیٹوز بنواناہے۔ یہ فعل اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیز کو تبدیل کرنا ہےجو حرام اور شیطانی کام ہے۔ قرآن پاک میں فرمایاگیا : وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِؕ- ترجمہ :  (شیطان نے کہا) اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں گے۔(پ5 ، النسآء :  119) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا :  اللہ پاک کی لعنت ہو گُودنے اور گودوانے والیوں ، بال اکھاڑنےوالیوں ، اور خوبصورتی کے لئے دانتوں میں کھڑکیاں بنوانے والیوں ، اور اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر۔(بخاری ، 4/87 ، حدیث : 5948) (گُودنا یہ ہے کہ کھال میں سوئی چبھو کر کوئی رنگ وغیرہ بھر دیا جائے ، یہ ٹیٹو بنانے کی قدیم صورت سمجھ لیں۔)

ساتواں گناہ :  داڑھی منڈوانا یا ایک مٹھی سے کم مختلف فیشن کی داڑھی رکھنا ہے۔نوجوانوں کی اکثریت اِس واجب کی تارِک نظر آتی ہے ، حالانکہ داڑھی سنتِ متواترہ ومتوارثہ ، دینی و مذہبی شِعار اور تمام انبیائے کرام کی سُنَّت ہے۔نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اپنی درجنوں احادیث میں داڑھی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا : مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کرو۔ حضرت ابنِ عمر  رضی اللہ عنہ ما نے جب حج یا عمرہ کیا تو آپ نے اپنی داڑھی کو ایک مٹھی میں لیا اور نیچے سے جو مٹھی سے زائد تھی ، اُسے کاٹ دیا۔(بخاری ، 4/75 ، حدیث : 5892)

ارتکابِ گناہ کا دوسرا سبب اور اُس کا تدارُک!

دوسری وجہ نفس و شیطان کی پیروی اور خدا  کے حکم پر عمل کا شوق و جذبہ نہ ہوناہے۔ یہ کیفیت بندے کو ہر طرح کے گناہوں پر آمادہ اور جرِی کرتی ہے۔ اس سبب کا ازالہ و علاج یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے احکام پر نظر ہو کہ ہمارا پاک پروردگار ہمیں کیا حکم فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗؕ- ترجمہ :  اور ظاہری اور باطنی سب گناہ چھوڑ دو۔(پ8 ، الانعام : 120) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)   اور اس پر بھی توجہ رہے کہ قیامت کے دن ہر چھوٹی بڑی اچھائی اور برائی انسان کے سامنے لائی جائے گی ، چنانچہ حضرت لقمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا :  یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶) ترجمہ :  اے میرے بیٹے! برائی اگررائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ پتھر کی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ، الله اسے لے آئے گا بیشک الله ہر باریکی کا جاننے والا خبردار ہے۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)  اور آدمی اس وقت کو یاد کرے جب نامۂ اعمال کھولا جائے گاتو ہر چھوٹا بڑا عمل اس میں لکھا ہوا ہوگا اور گناہوں پر کیسی شرمندگی ہوگی ، چنانچہ فرمایا :  وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْهِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَةً وَّ لَا كَبِیْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَاۚ-وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًاؕ-وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا۠(۴۹) ترجمہ :  اور نامہ اعمال رکھا جائے گا تو تم مجرموں کو دیکھو گے کہ اس میں جو (لکھا ہوا) ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے :  ہائے ہماری خرابی! اس نامہ اعمال کو کیا ہے کہ اس نے ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو گھیرا ہوا ہے اور لوگ اپنے تمام اعمال کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔(پ15 ، الکہف : 49) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

خدارا! اپنی آخرت کی فکر کریں اور بالعموم ہر طرح کے گناہ اور بالخصوص اِس طرح کے بے لذت گناہ (کانوں میں بالیاں ، انگلیوں میں  سونے یا عام دھاتوں کی انگوٹھیاں ، ہاتھوں میں بریسلٹ ، کڑے اور گلے میں دھاتی چین(زنجیر) پہننا ، یونہی شارٹس کے نام پر ایسی چڈیاں پہننا جن میں گھٹنے اور رانیں کھلی نظر آتی ہیں ، بدن پر ٹیٹو (رنگ برنگے پختہ ڈیزائن)بنوانا،یونہی داڑھیوں کی عجیب و غریب فیشن والی تراش خراش کرنا)چھوڑ دیجیے ، کہ اِسی میں دنیا کی عافیت اور آخرت کی نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے بچنے کا جذبہ اور توفیق عطا فرمائے۔آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* (نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضان مدینہ کراچی)


Share

Articles

Comments


Security Code