خوشیاں بانٹیں نیکیاں پائیں

حدیث شریف اور اس کی شرح

خوشیاں بانٹیں نیکیاں پائیں

* مولانا سید سمر الہدیٰ عطاری یمنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2022ء

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَى اللهِ بَعْدَ الْفَرَائِضِ اِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُسْلِمِاللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔[1]

علامہ مناوی  رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس حدیث کی شرح میں جو فرمایا اُس کاخلاصہ یہ ہے: فرضِ عین یعنی فرض نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی کےبعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ مسلمان کو خوش کیا جائے۔ خواہ اسے کچھ دے کریا اس سے غم و تکلیف کو دور کرکے یا مظلوم کی مدد کرکے یا اس کے علاوہ ہر وہ عمل جو خوش کرنے کا ذریعہ ہو۔

خوشی اس دلی لذت کو کہتے ہیں جو کسی نعمت کے حاصل ہونے یا اس کے ملنے کی امیدپر محسوس کی جاتی ہے۔[2]

لوگوں میں خوشیاں بانٹنا اور غم دورکرنا قُربِ الٰہی کے حُصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ کے بندوں کا غم ہَلکا کرنے والے، انہیں خوشیاں دینے والے گھاٹے میں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا یہ عمل بے فائدہ ہے بلکہ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔

ہمارے بُزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم نے بھی اس کی اہمیت ارشاد فرمائی ہے، چنانچہ جب کسی نےحضرت محمد بن منکدر  رحمۃُ اللہِ علیہ  سے پوچھا: وہ کیا چیز ہےجو آپ کے لَذّت و سُرور کو باقی رکھتی ہے؟ فرمایا: مسلمان بھائیوں سے ملاقات کرنا اور ان کے دلوں کو  خوش کرنا۔[3]

خوشیاں بانٹنے کے دنیوی ثمرات:

خوشیاں بانٹنے میں بےشمار حکمتیں اور فوائد ہیں، اس کے مفید اَثرات پورے معاشرے پر اَثر انداز ہوتے ہیں، مثلاً: (1)مسلمان بھائی کی پریشانی دور ہوتی ہے (2)لوگوں کے دِلوں میں اس کے لئے عزّت و بلند مقام پیدا ہوتا ہے (3)دوسروں کو اس کی ترغیب ملتی ہے (4)مسلمانوں کی دعائیں ملتی ہیں۔

خوشیاں بانٹنے والوں کے لئے اخروی انعامات:

(1)مومن کو خوش کرنا اللہ پاک کی بارگاہ میں پسندیدہ عمل ہے: رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے کسی نے پوچھا کہ اللہ پاک کے نزدیک زیادہ پسندیدہ بندہ اور پسندیدہ عمل کون ساہے؟ فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک زیادہ پسندیدہ بندہ وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع دینے والا ہے اور اللہ پاک کے ہاں پسندیدہ عمل مؤمن کو خوش کرنا ہے۔[4]

(2)اس کی مغفرت کردی جاتی ہے: حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےفرمایا: تمہارا اپنے مسلمان بھائی کا دل خوش کرنا، اس کا پیٹ بھرنا اور اس کی تکلیف دُور کرنا مغفرت کو واجب کرنے والی چیزیں ہیں۔[5]

(3)قبر کی وحشت و گھبراہٹ سے بچا لیا جاتا ہے: نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: جو کسی مؤمن کا دل خوش کرتا ہے تو اللہ پاک اس سے ایک فرشتہ پیدا فرماتا ہے جو اُس کی عبادت میں مصروف رہتا ہے۔ جب وہ بندہ قبر میں چلا جاتا ہے تو وہی فرشتہ آکر کہتاہے: تم مجھے نہیں پہچانتے؟ وہ کہتا ہے تم کون ہو؟ فرشتہ کہتا ہے: میں وہ خوشی ہوں جسے تم نے فُلاں کے دل میں داخل کیا تھا، میں آج وحشت میں تجھے اُنْس پہنچاؤں گا، جوابات میں ثابت قدم رکھوں گا، رب کی بارگاہ میں تیری سفارش کروں گا اور تجھے جنّت میں تیرا ٹھکانا دکھاؤں گا۔[6]

(4)دارُالْفَرح میں داخل کیا جائے گا: حضرت عائشہ  رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: بے شک جنّت میں ایک گھر ہے جسے دارُالْفَرح کہا جاتا ہے۔ اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو بچّوں کو خوش کرتے ہیں۔[7]

خوشیاں بانٹنے کی چند صورتیں:

یاد رکھئے! بےشمار ایسے اعمال ہیں کہ جنہیں کرنے کے لئے نہ تو بھاری بھرکم سرمایہ خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی جسمانی مَشقّت برداشت کرنی پڑتی ہے بلکہ ان میں صرف ہماری تھوڑی سی توجہ درکار ہوتی ہےاور پھر آپ خود دیکھیں گے کہ چلتے پھرتے ہم بہت سی نیکیاں کمائیں گے۔ اس کی مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

(1)اگر آپ نے کسی پیاسے کو پانی پلا دیا تو بظاہر یہ بہت بڑا عمل نہیں ہے لیکن اس سےسامنےوالےکادل خوش ہوگا اور اس پر بخشش کی خوش خبری بھی سنائی گئی ہے۔

(2)اپنے تجربات کی روشنی میں آپ نے کسی کو مفید مشورہ دے دیا تو اس میں آپ کا کچھ خرچ تو نہ ہوا لیکن آپ کی وجہ سے کسی کی زندگی سنور سکتی ہے۔

(3)ماتحت کی کسی کاوش پرحوصلہ افزا جملے کہہ دیئے تو آپ کے یہ جملے اس کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنیں گے اور وہ خوش ہو کر پہلے سے بھی زیادہ محنت سے کام کرے گا نیز اس کے دل میں آپ کا احترام بھی بڑھے گا۔

(4)کسی کو دیکھا کہ بوجھ اٹھائے جارہا ہے، آپ نے اس سے وہ بوجھ لے لیا اور چند قدم نہ چلے مگر آپ نے اس کے دل میں گَھر کر لیا۔

(5)آپ نےکسی سے ملاقات کی اور مسکرا کر حال اَحوال دریافت کیا، اسے اہمیت دیتے ہوئے کچھ وقت دے دیا تو وہ خوش ہوگا اور آپ کا یہ انداز یاد رکھے گا۔

(6)آپ بہت مصروف تھے اس دوران کسی نے آکر کوئی ایسی بات شیئر کرنا چاہی جس میں آپ کو کوئی دل چسپی نہ تھی، اس کے باوجود آپ نے توجہ سے اس کی بات سُن لی اور پریشانی دور کردی تو آپ کے ان چند لمحوں نے اس کا بہت بڑا بوجھ ہلکا کردیا۔

ان مثالوں پر غور کریں تو محسوس کریں گے کہ محض معمولی سی توجہ کے سبب بغیر مَشقت بہت تھوڑے سے وقت میں لوگوں کادل خوش کیاجاسکتااوربہت سی نیکیاں کمائی جاسکتی ہیں، بظاہر چھوٹی نظر آنے والی ان نیکیوں کا ثمرہ جب روزِ قیامت ظاہر ہوگا تو پھر خواہش کریں گے کہ کاش! ہم نے دنیا میں کوئی ایک نیکی بھی نہ چھوڑی ہوتی تو آج نامۂ اعمال نیکیوں سے بھرا ہوتا۔ لہٰذا اُس دن کی حسرت و یاس سے کہیں بہتر ہے کہ زندگی، صحت و فراغت کو غنیمت جانیئے اور جس قدر ممکن ہولوگوں کوخوش کرتےجائیےاور نیکیاں کرتے جائیے۔

اللہ پاک ہمیں دوسروں کے لئے خوشیوں کا سبب بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ فیضان ِ حدیث، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)،کراچی



[1] معجم کبیر، 11/59، حدیث: 11079

[2] فیض القدیر،1/216،تحت الحدیث:200مفہوماً

[3] حلیۃالاولیاء،7/347،رقم:10798

[4] معجم اوسط،4/293،حدیث:6026

[5] جمع الجوامع، 3/150، حدیث: 7936

[6] التر غیب والترھیب،3/266، حدیث:23 ملتقطاً

[7] جامع صغیر،ص140، حدیث:2321۔


Share