مدنی مذاکرے کے سوال جواب

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء

کیا عید کی نماز تنہا پڑھ سکتے ہیں؟

سُوال : اگر کوئی مجبورى کى وجہ سے عید کی نماز باجماعت نہىں پڑھ سکا تو وہ تنہا نماز کىسے پڑھے گا؟

جواب : عىد کى نماز اکىلے نہىں ہوسکتى۔ (ھدایۃ ، 1 / 85) جماعت اس کیلئے ضروری ہے اور پھر اس کی جماعت کی بھى شرائط ہىں مثلاً جو امام پانچ وقت کى نماز کی امامت کی شرائط پر پورا اُترتا ہو تب بھی وہ عىد اور جمعہ نہىں پڑھا سکتا اس لئے کہ عید اور جمعہ کى امامت کیلئے مزىد کچھ شرائط ہىں ، بہرحال اگر کوتاہی کی وجہ سے کسی کی عید کی نماز رہ گئى اور پورے شہر مىں کہىں بھى نہ ملى تو گناہ گار ہوگا لہٰذا توبہ کرے۔ (مدنی مذاکرہ ، 5شوال المکرم1440ھ)

بے وقوف میکا

سُوال : بے وقوف مىکا کون سا ہوتا ہے؟

جواب : جو میکا شوہر اور سُسرال کے خلاف بھڑکائے اور چڑھائے کہ تو ىہ سُن کر آگئى!! بڈھى چڑىل نے تىرے کو یہ بولا اور تىرے کو جواب نہىں آیا!! کیا تىرے منہ مىں مونگ بھرے تھے تُو بھی ىوں جواب دىتى!! تو جو مىکا اس طرح لڑوا کر اپنى بىٹى کا یا بہن کا گھر تڑوائے وہ بیوقوف ہے۔ وہ بہو بہت بُری ہے جو سُسرال کى بُرائىاں اپنى ماں ، بہنوں ، بھائی اور باپ کے پاس جاکر کرے وہ بھی بے وقوف ہے ، لیکن یاد رکھئے! ہر ماں بہن اىسى بے وقوف نہىں ہوتى کہ اگر بہن یا بىٹى لڑ کر آگئى تو وہ اس کا حوصلہ بڑھائے بلکہ بعض تو اچھا ذہن بناتی ہیں۔ (مدنی مذاکرہ ، 5شوال المکرم1440ھ)

ڈکار سے وُضو و نماز نہیں ٹوٹتے

سُوال : اگر نماز کے دَوران سالن والى ، مِرچوں والی ڈکار آجائے تو کىا نماز و وُضو ٹوٹ جائیں گے؟

جواب : نماز کے دَوران سالن والى ڈکار سے نہ نماز ٹوٹے گى اور نہ وُضو ٹوٹے گا۔ (مدنی مذاکرہ ، 23رجب المرجب 1440ھ)

والد کو “ تُو “ یا “ تم “ کہہ کر پُکارنا کیسا؟

سُوال : اپنے والد کو “ تُو “ ىا “ تم “ کہہ کر پُکارنا کیسا ہے؟

جواب : جىسا عُرف ہو گا ویسا ہی حکم ہو گا مثلاً ہمارے ىہاں ماں کو “ تُو “ کہہ کر مخاطب کرتے ہىں اور اسے بے ادبى بھی نہىں سمجھا جاتا تو اسی طرح اگر اُردو مىں کہىں باپ کو “ تُو “ کہنے کا عُرف ہو تو حَرَج نہیں لیکن باپ کو “ تُو “ کہنے کا رَواج میری معلومات میں نہیں ہے اِس لئے اگر اُردو زبان مىں والد کو “ تُو “ کہہ کر مخاطب کیا جائے تو یہ بے ادبى کہلائے گى۔ (مدنی مذاکرہ ، 13رمضان المبارک1440ھ)

ایک شعر کا مطلب

سُوال : اِس شعر کا مطلب بتادیجئے :

ہم تو ہیں آپ دِل فِگار غم میں ہنسی ہے ناگوار

چھیڑ کے گُل کو نو بہار خون ہمیں رُلائے کیوں

(حدائقِ بخشش ، ص94)

جواب : یعنی ہمارا دِل پہلے ہی زخمی ہے اور اسے ہنسی اچھی نہیں لگ رہی کیونکہ جب کسی پر غم طاری ہوتا ہے اسے ہنسی اچھی نہیں لگتی بلکہ ناگوار گزرتی ہے۔ پس اے نئی نئی آنے والی بہار! تو پُھول کو مَت چھیڑ کیونکہ تو پُھول کو چھیڑ تی ہے تو وہ پُھول مزید کِھلتا ہے اور اس میں نِکھار آجاتا ہے چونکہ میں غم زدہ ہوں اور مجھے ہنسی ناگوار گزر رہی ہے تُو کیوں پُھول کو چھیڑ کر مجھے خون کے آنسو رُلا رہی ہے۔ غالباً یہ کلام سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ  نے مدینۂ پاک سے جُدائی کے موقع پر لکھا ہے۔ (مدنی مذاکرہ ، 29شعبان المعظم1440ھ)

دُکان پر یا رات میں ناخن کاٹنا کیسا؟

سُوال : کىا ىہ دُرُست ہے کہ دُکان ىا کاروبارى جگہ پر ناخن کاٹنے سے نحوست ہوتى ہے؟ نیز کىا رات میں ناخن کاٹ سکتے ہىں؟

جواب : ناخن کاٹنا نحوست کا کام نہىں بلکہ اَدائے سُنَّت اور حکمِ شریعت پر عمل کی نیت سے کاٹیں گے تو ثواب بھی ملے گا۔ اگر ناخن کاٹنے کے سبب دُکان مىں نحوست آتی ہوتی تو پھر گھر مىں بھی نہ کاٹے جائیں کہ وہاں بھی نحوست ہو گی۔ بہرحال ناخن کاٹنا نحوست کا سبب نہیں بلکہ 40 دن کے اندر ناخن کاٹنا ضروری ہے۔ اگر 40 دن سے زىادہ ہوگئے اور اب تک ناخن نہىں کاٹے تو بندہ گناہ گار ہوگا۔ نیز رات میں بھى ناخن کاٹنا جائز ہے۔ عوام میں یہ غَلَط مشہور ہے کہ رات میں ناخن کاٹنا منع ہے۔    (مدنی مذاکرہ ، 22شعبان المعظم1440ھ)

مُرغی کے پوٹے کھانا کیسا؟

سُوال : مُرغی کے پوٹے کھانا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب : پوٹوں کا چھلکا جو نجاست کے ساتھ ملا ہوا ہے اُسے اُتار کر جو گوشت بچے اُسے کھا سکتے ہیں۔

(مدنی مذاکرہ ، 9رجب المرجب 1440ھ)

شراب پینے والے کا نکاح

سُوال : اگر کسى شخص نے شراب پى لی اور40دِن ابھی نہیں گزرے تھے کہ اس کا نکاح کروادیا گیا ، کیا نکاح ہو جائے گا؟

جواب : شراب بڑى خراب ہے۔ اِس کا تو اىک قطرہ بھى پىنا حرام اور جہنم مىں لے جانے والا کام ہے۔ شراب پینے والا سخت گناہ گار ہے اور اِس پر فرض ہے کہ توبہ کرے اور آئند ہ نہ پىنے کا عہد کرے ، البتہ نکاح کا اس سے کوئى تعلق نہىں ہے لہٰذا شراب پىنے والے کا نکاح ہو جائے گا۔ (مدنی مذاکرہ ، 25جمادی الاخریٰ 1440ھ)

کیا مَیِّت والے گھر چولہا جَلانا منع ہے؟

سُوال : جس گھر مىں مَیِّت ہو جاتى ہے تو کہتے ہىں کہ تىن دِن تک چولہا نہىں جَلا سکتے اور نہ گھر مىں کوئى چىز پکا سکتے ہیں ، کیا ىہ بات دُرُست ہے؟

جواب : مَیِّت والے گھر میں چولہا جَلانے مىں کوئى حرج نہىں ہے ، کھانا پکانا بھى جائز ہے۔ ىہ عوام نے اپنے اوپر خود مشکلات ڈالى ہوئى ہىں (شریعت میں اِن باتوں کی کوئی حقیقت نہیں)۔ [1] (مدنی مذاکرہ ، 9رجب المرجب 1440ھ)



[1] اعلیٰ حضرت ، امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ   کی بارگاہ میں اِسی طرح کا سُوال ہوا کہ “ مَیِّت والے کے یہاں کیا روٹی پکانا منع ہے؟ “ تو آپ  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے اس کے جواب میں اِرشاد فرمایا : موت کی پریشانی کے سبب وہ لوگ پکاتے نہیں ہیں ، پکانا کوئی شرعاً منع نہیں ، یہ سُنَّت ہے کہ پہلے دن صِرف گھر والوں کے لئے کھانا بھیجا جائے اور انہیں بااصرار کھلایا جائے ، نہ دوسرے دن بھیجیں ، نہ گھر سے زیادہ آدمیوں کے لئے بھیجیں۔ (فتاویٰ رضویہ ، 9 / 90)


Share