اسلام کی روشن تعلیمات
نصیحت اور اُس کے تقاضے
* مولانا سيدنعمان عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء
جیسے جسمانی صحت خراب ہونے کی صورت میں بَروقت دوا لینا ضروری ہے یونہی معاشرتی صحت خراب ہو تو بَروقت نصیحت کرنا اور اُسے قبول کرنا ضروری ہے یہی وجہ ہےکہ اسلام نے “ نصیحت کرنے “ کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے : (اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ) ترجَمۂ کنزُ الایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔ [1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
جس نصیحت کے ساتھ ربّ کے راستے کی طرف بلانے کا حکم ہے اُس کا “ حَسَنَہ “ ہونا ضروری ہے۔ انبیائے کرام علیہمُ السّلام نے اللہ پاک کے دین کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کا جو اندازِ نصیحت اختیار فرمایا وہ بلاشبہ “ حَسَنَہ “ کا معیار بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اللہ پاک کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حُسنِ اَخلاق اور سمجھانے کے خوب صورت انداز کا نتیجہ تھا کہ جہالت ، قتل و غارت گری کا خاتمہ ہوا اور امن قائم ہوا اور اقوامِ عالم کیلئے اسلام قبول کرنا آسان ہوا۔ باعمل مسلمان اسی نبوی طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھے اور معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر طرح کے بگاڑ کو سُدھارنے کے لئے عملی کوششوں کے ساتھ پُر اثر نصیحت کے ذریعے بھی دعوتِ دین کا سلسلہ جاری رکھا۔ نصیحت کو مسلمان کا حق قرار دیتے ہوئے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب تم سے (کوئی مسلمان) نصیحت طَلَب کرے تو اسے نصیحت کرو۔ [2] نصیحت کے کئی فوائد ہیں مثلاً غیرمسلم کسی کی نصیحت سُن کر مسلمان ہوتے ہیں تو گناہ گار نصیحت سُن کر گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ کسی کو نیک کام کرنے کا جذبہ ملتا ہے تو کسی کو دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے ، کسی کے ایمان کو تازگی ملتی ہے کسی کی روح کو سکون ملتا ہے۔
پُر اثر نصیحت کیسے کریں؟ نصیحت کو مؤثر بنانے کے چند آداب ملاحظہ کیجئے :
(1)مشہور ہے کہ گفتگو لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق کرنی چاہئے۔ اس کے مطابق نصیحت کرنے کے لئے سامنے والے کی نفسیات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ یہ دل و دماغ میں جلد اثر انداز ہوتی ہے ، ایک فرضی حکایت ملاحظہ کیجئے : ایک بزرگ چند شاگردوں کے ساتھ دریا کے کنارے کنارے جا رہے تھے ایک مقام پر کھڑے ہوگئے ، کافی دیر گزرنے کے بعد شاگردوں نے پوچھا : ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں؟ بزرگ نے کہا : اس انتظار میں کہ سارا دریا بہہ جائے تو دوسری طرف جائیں ، یہ سُن کر شاگردوں نے کہا : یہ کیسے ممکن ہے! نہ تو سارا دریا بہے گا اور نہ ہم کبھی اُس پار جاسکیں گے؟ تو بزرگ نے نصیحت بھرے انداز میں کہا : بیٹا! یہی بات میں آپ لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہم لوگ ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ایک بار گھر کی ذمّہ داریاں پوری ہوجائیں تو پھر نماز پڑھیں گے ، حج کریں گے ، فلاں نیک کام کریں گے اور فلاں نیک کام کریں گے۔ یاد رکھو! جیسے دریا پار کرنے کے لئے پانی ختم ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے ایسے ہی نیکیاں کرنے کیلئے دنیا کی ذمہ داریاں ختم ہونے کا بھی انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ شاگردوں کے چہرے بتارہے تھے کہ بزرگ کی یہ نصیحت اُن کے دل و دماغ میں اُتر چکی ہے (2)نصیحت کرتے ہوئے لوگوں کی طبعی کیفیات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مالی نقصان کی وجہ سے پریشان ہونے والے کو تسلی دینے کے بجائے اسی کی غلطیاں بتانے لگ جانا ، یونہی بیمار کو دعائیں دینے کے بجائے اسی کی بدپرہیزیاں بتانے لگ جانا درست نہیں کہ اس طرح لوگ آپ سے بد ظن ہوسکتے ہیں یا پھر نوبت لڑائی جھگڑے تک بھی پہنچ سکتی ہے (3)نصیحت غلطی کا احساس دِلانے اور آئندہ اس سے بچنے کے لئے کی جاتی ہے لہٰذا اِس میں الفاظ اور لہجے کی نرمی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السّلام کو فرعون کی جانب جانے کا حکم فرمایا تو ساتھ ہی اس سے نرم بات کہنے کا حکم بھی فرمایا۔ [3] جب منکرِخدا کو نرمی سے نصیحت کرنے کی تاکید ہے تو اللہ پاک پر ایمان لانے والے نرمی کے زیادہ حق دار ہیں ، لہٰذا نصیحت کرتے ہوئے نرمی نرمی اور نرمی کیجئے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو نرمی سے محروم ہوا وہ خیر سے محروم ہوا۔ [4] ایک موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا : نرمی کو لازم کرلو اور سختی و فحش سے بچو ، جس چیز میں نرمی ہوتی ہے ، اس کو زینت دیتی ہے اور جس چیز سے جدا کرلی جاتی ہے ، اُسے عیب دارکردیتی ہے۔ [5] دُرست موقع پر نصیحت کیلئے خراب اور سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کے اُلٹے نتائج نکلتے ہیں جیسا کہ ایک مرتبہ مسجد میں جماعت کے دوران ایک نوجوان کا فون بجنے لگا ، نماز ختم ہوئی تو لوگوں نے پیار و محبت سے نصیحت کرنے کے بجائے اسے بے عزت کرنا شروع کردیا جس پر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب مسجد نہیں آئے گا (4)نصیحت کرنے کیلئے موقع اور جگہ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ نصیحتیں کرتے رہنے سے لوگ آپ سے بیزار ہوجائیں گے اور اگرچہ سامنے کچھ نہ کہیں مگر دِل میں تکلیف محسوس کریں گے (5)سب کے سامنے نصیحت کرنے کے بجائے اکیلے میں کرنا زیادہ بہتر ہے کہ حضرت اُمِّ دَرداء رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں : جس نے اپنے بھائی کو سب کے سامنے نصیحت کی اس نے اس کو ذلیل کردیا اور جس نے تنہائی میں نصیحت کی اس نے اس کو مُزَیَّن (آراستہ) کردیا۔ [6]
دورِ حاضر میں امیرِاہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کااندازِ نصیحت اپنے بہترین نتائج اور دور رَس اثرات کے ساتھ ہمارےسامنے ہے ، لہٰذا اگر ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق اصولِ نصیحت کو عملی طور پر سیکھنا چاہتے ہیں تو دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہیں اور امیرِ اہلِ سنّت کے مدنی مذاکرے دیکھنے کا معمول بنائیں ایسا کرنے سے اپنی اور ساری دنیا کی اصلاح کی کوشش کرنے کاجذبہ ملے گا اور یہی جذبہ نصیحت کو کار آمد بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃُ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)کراچی
[1] پ14 ، النحل : 125
[2] مسلم ، ص919 ، حدیث : 5651
[3] پ16 ، طٰہٰ : 44
[4] مسلم ، ص1073 ، حدیث : 6602
[5] بخاری ، 4 / 108 ، حدیث : 6030
[6] شعب الایمان ، 6 / 112 ، حدیث : 7641۔
Comments