انٹرویو Interview
رکنِ شوریٰ حاجی ابوماجد محمد شاہد عطّاری مدنی (قسط : 01)
“ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ مئی 2022ء
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! آج ہم جس شخصیت کا انٹرویو لے رہے ہیں وہ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن ، عظیم علمی و تحقیقی ادارے اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃُ العلمیہ کے نگران مولانا حاجی ابوماجد محمد شاہد عطّاری مدنی ہیں۔ آئیے!ان سے انٹرویو کا آغاز کرتے ہیں :
مہروز عطّاری : اپنے آبائی علاقے اور آباء و اجداد سے متعلق کچھ بتائیے۔
ابو ماجد شاہد عطّاری : ضلع جہلم ، پنجاب کی تحصیل پنڈ دادن خان میں “ پپلی “ نام کا ایک گاؤں ہے ، سالہا سال سے ہمارے آباء و اجداد یہاں رہتے تھے۔ کچھ عزیزوں کے بقول ہمارے آباء و اجداد منڈی بہاؤ الدّین کے قصبے “ ھِلّاں “ سے یہاں آئے تھے۔ ہمارے گاؤں کی پچھلی جانب پہاڑ ہیں ، ڈھلان پر یہ گاؤں واقع ہے اور اس کے آگے کھیت ہیں۔ میری پیدائش اسی گاؤں میں 19جون 1974ء مطابق جُمادَی الاُخریٰ 1394ھ کو ہوئی لیکن تقریباً 5 سال کی عمر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ لاہور آگیا۔
میرے مرحوم والد زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن فطری طور پر ان میں دینی رجحان تھا۔ ہمارے قریبی علاقے جلالپور شریف میں سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے ایک بزرگ حضرت خواجہ غریب نواز سیّد غلام حیدر علی شاہ جلالپوری رحمۃُ اللہِ علیہ گزرے ہیں ، میرے مرحوم والد “ حاجی محمد صادق چشتی “ نے ان کے پوتے امیر حزب اللہ حضرت پیرسید محمدفضل شاہ جلالپوری سے بیعت کی اور ان کی صحبت میں بھی رہے۔
مہروز عطّاری : اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیے۔
ابو ماجد شاہد عطّاری : ویسے میرے اولین رہبر اور مُرَبّی میرے والد صاحب ہیں ، جب سے ہم نے آنکھیں کھولیں تو والد صاحب کو صَوم و صلوٰة اور نمازِ تہجد کا پابند دیکھا۔
ہمارے محلے کی مسجد میں محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد صاحب اور غزالیِ زماں علّامہ احمد سعید کاظمی رحمۃُ اللہِ علیہما کے شاگرد مفتی محمد شفیع رضوی رحمۃُ اللہِ علیہ امام و خطیب تھے۔ میں نے ان سے قراٰنِ کریم پڑھا اوران کی کافی صحبت پائی ، میری تربیت میں ان کا نمایاں کردار رہا ہے۔
مہروز عطّاری : دینی ماحول سے وابستگی کس طرح ہوئی؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : میرے والدِمرحوم سرکاری ملازم تھے ، ان کی سرکاری طور پر تین سال کے لئے ڈیوٹی عرب شریف میں رہی ، والد صاحب نے فیملی کو 4ماہ کے لئے وہیں بلالیا اور اسی دوران ہمیں حج کرنے اور مدینہ شریف حاضر ہونے کی سعادت بھی ملی ، ایک پہلے ہی گھر سے دینی ماحول ملا ، پھر بچپن ہی میں زیارتِ حرمین ملی۔ یوں کہیں کہ یہ میری زندگی کا ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور پھر آگے چل کر دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول نصیب ہوگیا۔ میرے استاذ مفتی محمد شفیع رضوی صاحب اکثر اس طرح کی گفتگو کرتے تھے کہ نیکی کی دعوت عام ہونی چاہئے ، اہلِ سنّت کا دینی کام ہونا چاہئے ، چنانچہ بچپن سے اس طرح کی سوچ بن گئی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی میں ساتھ پڑھنے والے اسٹوڈنٹس کو نماز کی دعوت دیتا اور اپنے ساتھ مسجد لے کر جاتا تھا۔ علمائے اہلِ سنّت کے بیانات میں عشقِ رسول کے تقاضے سننے کو بھی ملتے تھے لہٰذا جب داڑھی آنا شروع ہوئی تو میں نے چہرے پر داڑھی شریف سجالی اور پھر ہمارے محلے کی جامع مسجد محمدی (نشاط کالونی ، لاہور کینٹ) میں تین اسلامی بھائی حاجی محمد سہیل عطّاری ، حاجی محمد ارشد عطّاری اور حاجی محمد راشد عطّاری علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت دینے آئے۔ حاجی سہیل عطّاری نے دعوت دی تو دینی ماحول سے وابستگی کا آغاز ہوگیا۔
مہروز عطّاری : آپ نے دعوتِ اسلامی کا کون سا ایونٹ سب سے پہلے دیکھا؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : ہمارے گھر ایک سُنّی میگزین آتا تھا جو میں نے ہی لگوایا تھا ، میں اسے پڑھتا تھا ، اس میگزین میں ایک واقعہ پڑھا تھا جس میں ہند کے ایک مدنی قافلے کی مدنی بہار بیان کی گئی تھی ، پہلا تعارف تو یہاں سے ہوا ، پھر مینارِ پاکستان کے پاس ہونے والے دعوتِ اسلامی کے تین دن کے سالانہ اجتماع کے اشتہارات دیکھے۔ 1992ء میں جب میں میٹرک میں تھا تو حاجی سہیل عطّاری کی دعوت پر ہفتہ وار اجتماع میں پہلی مرتبہ شرکت ہوئی۔ پہلے ہی اجتماع نے کافی متأثر کیا۔
مہروز عطّاری : 1992ء میں دینی ماحول سے وابستگی کے بعد کون کون سی ذمہ داریاں نبھائیں؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : میرے مہربان اسلامی بھائی سہیل عطّاری صاحب لاہور کے علاقے صدر سے ہمارے یہاں نشاط کالونی تشریف لایا کرتے تھے ، انہوں نے مجھے پانچ مساجد پر نگران بنا دیا۔ ان دنوں ایک دن میں دو تین درس دینے کا موقع ملتا تھا ، پھر جب چوک درس کا سلسلہ شروع ہوا تو میں چوک درس بھی دینے لگا۔ میں نے شروع میں اپنے علاقے میں اکیلے ہی دینی کام کا آغاز کیا ، پھر عبداللہ عطّاری بھائی ساتھ مل گئے اور آہستہ آہستہ ماحول بننے لگا۔
میرے محلے کی مسجد سے مجھے کوئی خاص رسپانس نہیں ملا لیکن بلال مسجد جو کچھ فاصلے پر تھی وہاں کی انتظامیہ اور نمازیوں نے بہت تعاون کیا یہاں تک کہ کئی لوگوں نے داڑھی شریف رکھ لی جس پر میں خود بھی حیران رہ گیا ، پھر میرے جانے کے بعد اسی محلے کے اسلامی بھائی حاجی محمد خالد عطّاری وہاں کے ذیلی نگران بنے۔
مہروز عطّاری : پہلی بار امیرِ اہلِ سنّت کی زیارت کب ہوئی؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : 1992ء میں ہی امیرِ اہلِ سنّت لاہور کے کسی علاقے میں تشریف لائے تو وہاں زیارت ہوئی تھی۔
مہروز عطّاری : اسکول کی تعلیم کہاں تک حاصل کی اور پھر دینی تعلیم کی طرف کیسے بڑھے؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : میں نے کالج میں فرسٹ ایئر تک کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن وہاں دل نہیں لگتا تھا۔ والد صاحب نے اس بات کو محسوس کرلیا اور والدہ سے مشورہ کرنے کے بعد 1993ء میں مجھے ایک دارُالعلوم میں درسِ نظامی (یعنی عالم کورس) کرنے کیلئے داخل کروادیا۔
مہروز عطّاری : دارُالعلوم میں داخلہ لینے سے آپ کے معمولات میں کیا تبدیلیاں آئیں؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : اَلحمدُلِلّٰہ میں دارُالعلوم میں بھی دعوتِ اسلامی کے مدنی حلیے میں ہی ہوتا تھا اور وہاں بھی ہفتہ وار اجتماع میں حاضری اور دینی کام کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ دارُالعلوم دوسرے شہر میں تھا اس لئے ابتدا میں دارُالعلوم کے اندر ہی کچھ اسلامی بھائیوں کے ساتھ مل کر دینی کام کرتا تھا ، پھر تقریباً ڈھائی سال کے بعد مجھے ہی شہر نگران بنا دیا گیا۔
مہروز عطّاری : عام طور پر اسٹوڈنٹس کا ذہن ہوتا ہے کہ دورِ طالبِ علمی میں صرف پڑھائی پر فوکس کرنا چاہئے ، آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : اعتدال اور میانہ روی تو ہر جگہ ہی ضروری ہے۔ اگر کوئی طالبِ علم اپنی پڑھائی کو مکمل وقت دینے کے ساتھ ساتھ دینی کام بھی کرتا ہے تو اِنْ شآءَ اللہ اس کی تعلیم متأثر نہیں ہوگی بلکہ دینی کام کی برکت بھی شاملِ حال رہے گی۔
لاہور میں تو چونکہ اپنا گھر اور مکمل سپورٹ تھی اس لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا ، دارُالعلوم میں چونکہ ہاسٹل میں رہائش تھی اور گھر سے ملنے والے ماہانہ جیب خرچ 300 روپے میں ہی گزارہ کرنا ہوتا تھا اس لئے کچھ آزمائشوں کا سامنا ہوا ، مدنی مشوروں کے لئے آنے جانے کا کرایہ بھی اپنے پَلّے سے دینا پڑتا تھا لیکن بہرحال ، مشکل وقت آخر کار گزر ہی جاتا ہے۔
مہروز عطّاری : اپنے اس مشکلات بھرے دور کا کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو یادگار ہو؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : 1995ء میں ہم نے بھیرہ شہر کی ایک مسجد مولوی رحیم بخش سرکلر روڑ میں اجتماعی تربیتی اعتکاف کروایا ، اس شہر میں دعوتِ اسلامی کے تحت یہ پہلا اعتکاف تھا۔ اعتکا ف کے بعد چاند رات کو میں تقریباً پوری رات کا ایک دشوار گزار سفر کرکے اپنے گھر لاہور پہنچا۔ تین دن بعد ہفتہ وار اجتماع تھا ، نئے نئے اسلامی بھائی اعتکاف میں بیٹھے تھے اور اجتماع کی ذمّہ داری بھی میری تھی ، چنانچہ دو تین دن گھر میں گزارنے کے بعد میں واپس روانہ ہوا اور اجتماع میں شرکت کی۔ شہر میں عشا کے وقت بازار بند ہوجاتے تھے ، میں اپنے گھر سے ناشتہ کرکے روانہ ہوا تھا ، دوپہر اور رات کے کھانے کا ناغہ ہوا اور پھر اگلے دن چائے اور کیک کے ساتھ ناشتہ کیا۔ عید کے موقع پر مجھے گھر میں خط کے ذریعے ایک اسلامی بھائی کی بیماری کی خبر ملی تھی ، اب ناشتہ کرنے کے بعد میں ان کی عیادت کیلئے روانہ ہوا اور سرگودھا سے پنڈی بھٹیاں ، وہاں سے حافظ آباد اور پھر کالے کی منڈی سے آگے ان کے گاؤں پہنچا۔ یہ تقریباً پورے دن کا سفر تھا جس میں بارش بھی ہوگئی اور میرا عمامہ و کپڑے بھیگ گئے۔ تقریباً عصر کے وقت میں ان کے گاؤں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ تو حافظ آباد گئے ہوئے ہیں۔ بہرحال کچھ دیر ان کے گھر میں قیام کیا ، اس دوران ان کے بھائی اور ماموں کو امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمد الیاس قادری صاحب سے مرید ہونے کی ترغیب دلائی۔ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے امیرِ اہلِ سنّت سے ملاقات کی ہے ، میں نے جواب دیا کہ اب تک ملاقات نہیں ہوئی۔ بہرحال ایک حسرت تھی۔ اس رات جب میں سویا تو خواب میں امیرِ اہلِ سنّت کی زیارت ہوئی۔ اس وقت میں تیسرے درجے میں پڑھتا تھا۔ امیرِ اہلِ سنّت نے خواب میں پوچھا کہ درسِ نظامی مکمل کرنے کے بعد کیا ارادہ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس حاضر ہوجاؤں گا ، پھر جیسے آپ حکم فرمائیں۔
مہروز عطّاری : زمانۂ طالبِ علمی میں کوئی پریشانیاں بھی پیش آئیں؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : درسِ نظامی کی تعلیم کے دوران ہی میری دادی جان کا انتقال ہوگیا۔ ان دنوں میرے امتحانات تھے اس لئے والد صاحب نے مجھے اطلاع نہیں دی تاکہ میری تعلیم کا حرج نہ ہو۔ جبکہ تعلیم مکمل ہونے سے دو ڈھائی سال پہلے والد صاحب کا بھی انتقال ہوگیا تھا۔ ان کے پردہ فرمانے کے بعد میرے بڑے بھائی حاجی زاہد نے مجھے بڑا حوصلہ دیا اور میرے اخراجات بھی وہی پورے کرتے تھے۔ میرے یہ بھائی اس دور میں مالی لحاظ سے اتنے مضبوط نہیں تھے ، پھر بھی انہوں نے نہ صرف میری مالی کفالت کی بلکہ کبھی مجھ پر احسان بھی نہ جتایا کہ میں تمہارے خرچے اٹھا رہا ہوں۔ یوں سمجھ لیں کہ والد صاحب کے گزرنے کے بعد انہوں نے عملاً ایک والد کی طرح میری ذمہ داری اٹھائی۔
مہروز عطّاری : آپ لوگ کتنے بہن بھائی ہیں؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : ہم چار بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں۔ سب سے بڑے حاجی زاہد بھائی ہیں ، دوسرا نمبر میرا ہے ، تیسرے نمبر پر حاجی احمد رضا بھائی ہیں جبکہ سب سے چھوٹے بھائی حاجی حافظ محمد نوید رضا مدنی ہیں۔ میں نے اور حافظ نوید بھائی نے درسِ نظامی مکمل کیا ہے جبکہ احمد رضا بھائی نے پانچ درجے پڑھے ہیں۔
مولانا حاجی نوید رضا مدنی مَا شآءَ اللہ تقریباً10سال لاہور ڈیفنس کے جامعۃُ المدینہ فیضانِ عطّار میں استاذ و ناظمِ جامعہ اور لاہور ڈویژن کے رکنِ مجلس جامعاتُ المدینہ رہے ہیں جبکہ ابھی غالباً دوسال سے لاہور ڈویژن کے جامعاتُ المدینہ کے نگران ہیں۔
مہروز عطّاری : مَا شآءَ اللہ آپ کے کتنے بچے ہیں اور کیا وہ بھی دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں؟
ابو ماجد شاہد عطّاری : میرے3 بیٹے ہیں ، بڑ ے بیٹے ماجد رضا عطّاری نے قراٰنِ کریم کے 15 پارے حفظ کئے ہیں ، میٹرک بھی کیا ہے اور آج کل درسِ نظامی کے پہلے سال کے امتحانات دے رہے ہیں۔ دوسرے بیٹے حامد رضا عطّاری ہیں جو جامعۃُ المدینہ میں درجہ متوسطہ میں پڑھ رہے ہیں جبکہ چھوٹے بیٹے شعبان رضا عطّاری دارُ المدینہ میں کلاس 2 کے طالبِ علم ہیں۔
درسِ نظامی کے بعد رکنِ شوریٰ کی کیا مصروفیات رہیں؟ کن کن شعبہ جات میں خدمات سر انجام دیں؟ اور رکنِ شوریٰ کیسے بنے؟ اس جیسی مزید دلچسپ معلومات دیکھئے اگلے ماہ کے شمارے میں!
Comments