آخر درست کیا ہے؟
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
* مفتی محمد قاسم عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء
قرآنِ مجید خدا کا وہ روشن کلام ہے جس کی آیات کے انوار ہر زمانے میں چمکتے آ رہے ہیں اور جس کی بے مثل تعلیمات کا اِطلاق و انطباق ہر زمانےپرشان دار انداز میں ہوتا رہتاہے۔عقل خدا کی عظیم نعمت ہےجس سے دین و دنیا کا نظام چلتا ہے لیکن یہ لامحدود نہیں بلکہ اس کے اِدراکات کی انتہاہے، جیسےآنکھ، کان کے اِدراکات کی ایک انتہا ہے،جیسے آنکھ دیوار تک دیکھ سکتی ہے، اُس سے پار نہیں،کان ایک خاص فاصلے تک سن سکتے ہیں،اس سے آگے نہیں، یہی معاملہ عقل کا ہے۔آنکھ اور کان کی عمومی صلاحیت سے آگے استعمال کے لئے کیمرا،ہیڈفون وغیرہ استعمال کرنا ضروری ہے،اسی طرح عقل کی نعمت سے محدودات میں فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس سے آگے کے لئے یا جہاں عقل فیصلہ نہ کرسکے اس سے زائد کے لئے نعمتِ عقل سے استفادہ کےلئے اِسے عطا کرنے والا خالق و مالک کی رہنمائی ضروری ہے۔ جہاں مالکُ الملک کی ہدایت کے خلاف یہ عقل استعمال کریں گے، وہیں سے خرابی شروع ہوجائے گی۔حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے مقابلے میں نمرود نے اپنی عقلِ کوتاہ اندیش ہی کامظاہرہ کیا تھاکہ بے گناہ کو قتل کرکے اور سزائے موت کے مستحق کو چھوڑ کر کہنے لگا،دیکھو میں بھی زندگی اور موت دیتا ہوں۔فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے جھٹلانے پر آمادہ کرنے کےلئے اپنی عقل ِ عَیّار ہی استعمال کرکے اپنی قوم کو بیوقوف بنایا تھا، قرآن میں فرمایا:تو فرعون نے اپنی قوم کوبیوقوف بنالیا تو وہ اس کے کہنے پر چل پڑے بیشک وہ نافرمان لوگ تھے۔ (پ25، الزخرف: 54) اور قارون نے زکوٰۃ دینے سے انکار کےلئے بھی خدائی حکم کے مقابلے میں اپنے علم و فہم اور عقل و دانش ہی کو استعمال کیا، چنانچہ اس نے کہا: یہ تو مجھے ایک علم کی بنا پرملا ہے جو میرے پاس ہے۔(پ20،القصص:78)
اسی سلسلے کا ایک اور واقعہ قرآنِ مجید میں حضرت شعیب علیہ السّلام کی قوم کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت شعیب علیہ السّلام نے اپنی قوم یعنی اہلِ مدین کو دو باتوں کا حکم دیا تھا: ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو تنہا معبود تسلیم کریں اورکسی دوسرےکو خدا نہ مانیں۔دوسراحکم یہ تھا کہ ناپ تول میں کمی نہ کریں۔قوم نے ان دونوں باتوں کا جواب یوں دیا: اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں یا اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔ واہ بھئی! تم تو بڑے عقلمند، نیک چلن ہو۔(پ12، ھود: 87)
گویا پہلی بات یعنی عبادتِ خداوندی کے مقابلے میں انہوں نے جواب دیا ، ’’کیا ہم ان خداؤں کی عبادت کرنا چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں۔‘‘ اِس جواب سے اُن کی یہ مَت (سمجھ) ظاہر ہوئی کہ ان کے پاس بت پرستی پر دلیل اپنے آباء و اَجداد کی اندھی تقلید تھی ، اسی لئے انہیں بہت عجیب لگا کہ بتوں کی پوجا کا جو طریقہ ہمارے پہلے لوگوں نے اپنایا ہے اسے چھوڑ دیں۔ دوسری بات یعنی ناپ تول میں کمی بیشی نہ کرنے کا قوم نے یہ جواب دیا کہ ”کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق عمل نہ کریں۔‘‘ان کی اس بات کا مطلب یہ تھا کہ ہم اپنے مال میں پورا اختیار رکھتے ہیں،چاہے کم ناپیں یا کم تولیں۔گویا عقل استعمال کرنے میں بھی بےعقلی ہے۔اسی کے متعلق کہا گیا:
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
اہل ِ مدین کے جواب میں ایک اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ مدین والے اپنے گمان میں حضرت شعیب علیہ السّلام کو بےوقوف اور جاہل سمجھتے تھے ا س لئے طنز کے طور پر انہوں نے حضرت شعیب علیہ السّلام سے کہا کہ تم تو بڑے عقلمند اور نیک چلن ہو۔(پ12، ھود: 87) یہ جملہ ایسے ہی ہے جیسے کنجوس آدمی کو آتے دیکھ کر کوئی کہے ،جناب حاتم طائی تشریف لارہے ہیں۔ اہلِ مدین کے نزدیک خدائی احکام مَعاذَاللہ بے وقوفی اور جہالت تھے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے آج کل دین پر عمل کو لبرل، دین بیزار لوگ دقیانوسیت، قبائلی زندگی کہہ کر قومِ مدین سے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
دین کے احکام اور اس پر عمل کا مذاق اڑانا، عمل کرنے والوں پر تمسخر کرنا، انہیں کم عقل، ناسمجھ اور پرانے زمانے کے لو گ قرار دینا یا ان پر طنزیہ جملے کسنا ہمیشہ سے دین دشمنوں کا وطیرہ رہا ہے، ایک اور مثال ملاحظہ کریں۔حضرت لوط علیہ السّلام نے اپنی قوم میں پائی جانے والی گندی عادت پر انہیں سمجھاتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ تم خدا کا پیدا کردہ فطری طریقہ چھوڑ کر غیر فطری انداز میں جنسی تسکین کی طرف جاتےہو، یہ تمہاری جہالت ہے اور تم جاہل لوگ ہو۔(پ19، النمل:55) تو قوم نے ایسی پاکیزہ تعلیم قبول کرنے کی بجائے یہ جواب دیا ہے کہ ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو۔ (پ 19، النمل: 56) پھر کردار کی پاکیزگی اور خدائی ہدایت پر عمل ہی کو مذاق بناتے ہوئے کہنے لگے:”یہ لوگ تو بڑی پاکیزگی چاہتے ہیں۔“(پ19، النمل: 56) گویا پاکیزگی ان کیلئے باعث ِ اِستہزا بن گئی اور اس قوم کا ذوق اتنا خراب ہوگیا تھا کہ انہوں نے اس صفت ِمدح کو عیب قرار دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ دین دشمنی اور شرعی احکام سے بیزاری کے نتیجے میں عقل اوندھی ہوجاتی ہے،اسے اچھی چیزیں بری اور بری چیزیں اچھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی آزادی کے نام پر لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ وبا عام ہے اور یہ لوگ جب کسی کو دین کے احکام پر عمل کرتا دیکھتے ہیں تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور ا س خرابی کے باعث داڑھی رکھنا برا اور نہ رکھنا اچھا سمجھتے ہیں،داڑھی والے کو حقارت کی نظر سے لیکن داڑھی منڈے کونگاہِ تحسین سے دیکھتے ہیں۔ داڑھی والےکے ساتھ رشتہ کرنا باعثِ عار جبکہ داڑھی منڈے سے رشتہ کرنا قابلِ فخر تصور کرتے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی اور سنتوں پر عمل کرنے والے انہیں اپنی نگاہوں میں عجیب اور اجنبی لگتے ہیں لیکن گانے باجوں،فلموں ڈراموں میں مشغول لوگ، اپنے اپنے محسوس ہوتے ہیں۔عورتوں کا پردہ کرنا فرسودہ عمل جبکہ بےپردہ ہونا جدید دور کا تقاضا سمجھتے ہیں۔صرف اپنی بیوی سے باوفا رہنے کو تنگ ذہنی اوراِدھر اُدھر منہ مارنے کو روشن خیالی کہتے ہیں۔ اپنی عورتوں کے غیرمحرموں سے دور رہنے کو ندامت جبکہ ان کے غیر مردوں سے ملنے اور قریب جانے کو معاشرتی عزت تصور کرتے ہیں۔ حرام کمائی کو اپنا حق جبکہ حلال کمائی کوصرف وقت گزاری قرار دیتے ہیں۔ امانت و دیانت داری اور سچائی کو بھولپن جبکہ خیانت، جھوٹ ،دھوکہ اور فریب کاری کو چالاکی اور مہارت سمجھتے ہیں۔ سرِدست یہ چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ تھوڑا سا غور کریں تو اچھے کام کو برا اور برے کام کو اچھا سمجھنے کی سینکڑوں مثالیں سامنے آجائیں گی۔دین کے مقابلے میں عقل کے ایسے غلط اوربےجا استعمال کی حقیقت کُشائی کےلئے قرآنِ مجید کی اس آیت کو مشعل ِراہ بنائیں۔فرمایا: تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا (ہی) سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟) (پ22، فاطر :08)مراد یہ کہ یہ شیطان کی کارستانی ہے جو برے عمل کو اچھا بناکر پیش کرتا ہے۔
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقاتِ شرعیہ، دارالافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ کراچی
Comments