احکامِ تجارت
* مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء
پنشن کا کیا حکم ہے اور یہ کس کی ملکیت ہے؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ پنشن کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا اس کا لینا جائز ہے یا ناجائز ؟ نیز ملازم کے انتقال کے بعد بیوہ کو ملنے والی پنشن کا مالک کون ہوگا؟ کیا یہ وُرَثاء میں تقسیم ہوگی یا بیوہ کی ملکیت ہوگی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : ملازم کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کی طرف سے ملازم کو جو پنشن دی جاتی ہے وہ حکومت کی طرف سے ملازم کو ملنے والا ایک انعام اور تحفہ ہوتا ہے ، اس کا لینا بالکل جائز ہے اور اس کا مالک ملازم ہی ہوگا۔
ملازم کے انتقال کے بعد جس کے لئے دی جائے گی وہی اس کا مالک کہلائے گا۔ شوہر کی پنشن اگر اس کے انتقال کے بعد بیوی کو دی جاتی ہے تو وہی تنہا اس کی مالک کہلائے گی لہٰذا اس صورت میں بیوہ کو ملنے والی پنشن کی رقم ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگی بلکہ یہ بیوہ کی ملکیت ہوگی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جی پی فنڈ کا شرعی حکم اور اس پر زکوٰۃ کا مسئلہ
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ جی پی فنڈ کی رقم کا کیا حکم ہے کیا یہ ہماری ملکیت ہے؟ نیزاس کا لینا جائز ہے اور اس کی زکوٰۃ کس پر لازم ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : جی پی فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے ایک مقررہ رقم ہر ماہ کاٹی جاتی ہے اور اس رقم کے برابر رقم ادارہ اپنی طرف سے ملاتے ہوئے دونوں طرح کی رقم بینک میں رکھوادیتا ہے اور اس پر حاصل ہونے والا نفع بھی ملازم کو دیا جاتا ہے ، اس تفصیل کے بعد اس کا حکم یہ ہے کہ جو اصل رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اور اس کٹوتی والی رقم کے برابر جو رقم ادارے کی طرف سے ملائی جاتی ہے یہ دونوں طرح کی رقم ملازم کی ہی ملکیت ہے اور اس کے لئے حلال ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی اجنبی رقم ہے ہاں ایک سسٹم کے تحت اسے الگ کرکے رکھاگیا ہے لیکن بہرحال وہ رقم ملازم ہی کی ملکیت ہے اسی کے کھاتے میں اسے شمار کیا جا رہا ہوتا ہے ، سود لینا ہے یا نہیں لینا اس کا فارم وغیرہ ملازم کو بھرنا ہوتا ہے ، لہٰذا اس رقم پر شرائطِ زکوٰۃ پائے جانے کی صورت میں زکوٰۃ بھی لازم ہوگی اور باقی معاملات میں بھی اس حیثیت یعنی مالک ہونے کوسامنے رکھنا پڑے گا۔ ہاں زکوٰۃ میں یہ رخصت ہے کہ جب تک وہ رقم مکمل یا کم از کم نصاب کے پانچویں حصے کے برابر وصول نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی ادائیگی واجب نہیں ہوگی لیکن جب وصول ہوگی تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اس لئے بہتر ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جس پر دیگر اموال کی زکوٰۃ نکالنا فرض ہے تو وہ ہر سال اس رقم کی بھی زکوٰۃ نکالتا رہے جو جی پی فنڈ میں جمع ہوتی رہی ہے تاکہ بعد میں ایک ساتھ نکالنے کی دشواری نہ ہو۔
لیکن جو سودی اضافہ ہے اس پر زکوٰۃ نہیں کہ زکوٰۃ پاک مال پر ہوتی ہے ۔
واضح رہے کہ ادارے کی طرف سے یہ رقم بینک وغیرہ میں رکھواکر اس پر جو نفع دیا جاتا ہے وہ نفع سود ہے کیونکہ بینک میں اس رقم کو رکھوانا قرض ہے اورقرض پر ملنے والا نفع سود ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سود کی رقم کا حکم یہ ہے کہ ملازم کو جب کُل رقم ملے تو سودی رقم بِلانیتِ ثواب شرعی فقیر کو دے دی جائے۔ اور اگر کمپنی یا ادارہ یہ آپشن دیتا ہے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میری رقم پر سود کا اضافہ نہ کیا جائے تو ایسا کرنا ضروری ہوگا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
لانڈری والے سے کپڑے جَل جائیں یا پَھٹ جائیں تو؟
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ لانڈری والے سے کپڑے خراب ہوجائیں پھٹ جائیں یا جل جائیں تو اس کا تاوان کس پر ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : اعلیٰ حضرت علیہ الرَّحمہ نے فتاویٰ رضویہ شریف میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے “ المنی والدرر لمن عمد منی آرڈر “ جب منی آرڈر ایجاد ہوا تو اس کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہو اکہ یہ جائز ہے یا نہیں تو امامِ اہلسنت علیہ الرَّحمہ نے اسے دیگر لوگوں کی طرح سود کی دکان قرار نہیں دیا بلکہ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک سروس پرووائڈر ادارہ ہے جو پیسے بھیجتا ہے۔ پھر سوال کھڑا ہو اکہ پیسے تو اس کے پاس امانت ہوتے ہیں اور امانت ضائع ہوجائے تواس پر تاوان نہیں ہوتا لیکن منی آرڈر میں تو ایسا نہیں ہوتا بلکہ رقم ضائع ہونے پر وہ ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے اس اشکال کے جواب میں امامِ اہلسنت نے علم و فن کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جدید دور کے درپیش مسائل میں ایسے عمدہ کام کی مثال نہیں ملتی۔ آپ نے ثابت کیا کہ فقہِ حنفی میں رہتے ہوئے اس طریقے سے رخصت دی جاسکتی ہے۔
آپ نے وہاں تفصیل بیان کی ہے کہ اگر اجیر ِمشترک اور آجِر کے درمیان یہ طے ہوجاتا ہے کہ نقصان پر ضمان دینا ہوگا تو ٹھیک ہے پھر تاوان لیا جاسکتا ہے ۔ لہٰذا یہاں بھی اگر دونوں کے درمیان پہلے سے طے ہو تو پھر نقصان کا تاوان اجیر پر لازم ہوگااور دھوبی کو تاوان دینا ہوگا۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرّحمٰن فرماتے ہیں : “ اگرپہلے سے شرط ہوجائے جب تو بالاجماع اس پر ضمان لازم۔ جامع الفتاوٰی والنوازل واشباہ والنظائر وغیرہما میں اسی پر جزم فرمایا۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 19 / 571)
مزید ایک مقام پرفرماتے ہیں : “ ڈاک خانہ اجیرِ مشترک کی دکان ہے اور اس کی وضع ہی اجیر بننے کے لئے جو فیس دی جاتی ہے یقیناً اجرت ہے اور اقرار ذمہ داری اور ان اقوالِ مفتٰی بہا کی بنا پر حکمِ شرعی وصحیح ومقبول ہی لزوم ِضمان کے لئے کافی ووافی۔ “ (فتاویٰ رضویہ ، 19 / 575)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کرپٹو کرنسی کے لین دین کا شرعی حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کرپٹو کرنسی کے لین دین کا شرعی حکم کیا ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب : دارالافتاء اہلسنّت کی مجلس تحقیقاتِ شرعیہ میں متفقہ طور پر یہ طے ہوچکا ہے کہ کرپٹو کرنسی کا لین دین ناجائز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں دھوکے اور غرر کا عنصر واضح ہے۔ ہمیں ڈیجیٹل سروسز کی اہمیت سے انکار نہیں بلکہ بہت سی ڈیجیٹل سروسز ہیں جنہیں ہم روز مَرَّہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں جیسے ویب سائٹ کے لئے سَروَر لیا جاتا ہے اور اس کی فیس دی جاتی ہے ، ای میل ڈومین کی فیس دی جاتی ہے ، ان ڈیجیٹل سروسز کی اپنی ایک اہمیت ہے ، ان کا رواج اور عرف ہے اور ان میں کوئی غرر کا پہلو نہیں ہے لیکن کرپٹو کرنسی میں غرر اور دھوکے کا پہلو واضح ہے۔ لہٰذا اس کی خرید و فروخت ناجائز ہے ، مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس سے دور رہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محققِ اہلِ سنّت ، دارُ الافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر کراچی
Comments