فریاد
دین کوترجیح دیجئے
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی2022ء
حضرت سَیّدُنا ابوالحسن سَری سَقَطی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک مرتبہ 60دینار کے بادام خریدے اور پھر انہیں بیچنے کے لئے ان کی قیمت 63 دینار رکھی ، ایک تاجر نےان سے سارے بادام خریدنے کےلئے قیمت پوچھی تو آپ نے فرمایا : 63 دینار۔ دوسروں کا بھلا چاہنے والے اس تاجر نے کہا : حضور! باداموں کا ریٹ بڑھ چکا ہے ، لہٰذا آپ 90دینار میں یہ بادام مجھے بیچ دیں۔ آپ نے فرمایا : میں نے اپنے ربِّ کریم سے وعدہ کیاہوا ہے کہ تین دینار سے زیادہ نفع نہیں لوں گا۔ جب اس تاجر نے یہ بات سنی تو کہنے لگا : میں نے بھی اپنے پاک پَرْوَردگار سے یہ عہد کر رکھا ہے کہ کبھی بھی کسی مسلمان بھائی کے ساتھ دھوکا نہیں کروں گا۔ لہٰذامیں تو آپ سے یہ بادام 90 دینار میں ہی خرید وں گا۔ چنانچہ نہ تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ تین دینار سے زیادہ نفع لینے پرراضی ہوئے اورنہ وہ تاجر 90دینار سےکم میں خریدنے پر تیار ہوا ۔ [1]
اے عاشقانِ رسول! دیکھا آپ نے کہ ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم کا اندازِ تجارت کیسا اعلیٰ اور شاندار ہوا کرتا تھا ، وہ واقعی اپنی قبر و آخرت کی فکر کرنے والے ، مسلمانوں کا بھلا چاہنے والے ، اپنے دین کو دنیا پر ترجیح دینے والے تھے ، ان کے نزدیک دین کے مقابلے میں دنیا کےمال واسباب کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی تھی ، ان کی تجارت بھی اپنے رب کو راضی کرنے کا ذریعہ ہوتی تھی مگر افسوس! آج مسلمانوں کی ایک بھاری تعدادنے دنیا ہی کو اپنا سب کچھ سمجھ رکھا ہے ، مَرنے ، اندھیری قبرمیں اُترنے اور قیامت کے دن ربِّ قَہّار و جَبّار کی بارگاہ میں حساب و کتاب کےلئےپیش ہونے کو شاید ایک تعداد بالکل بھول ہی چکی ہے ، ان کی تجارت میں جھوٹ ، بددیانتی ، دھوکا اور سود و رِشوت خوری جیسی کئی طرح کی لعنتیں شامل ہوچکی ہیں ، ہوسکتا ہےکہ ان ہی طرح کی چیزوں اور تجارت کی مزید خرابیوں کو دیکھتے ہوئے حضرت سَیِّدُنا مالک بن دینار رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا ہو : ’’اَلسُّوْقُ مُکْثِرَۃٌ لِّلْمَالِ مُذْھِبَۃٌ لِّلدِّیْنِ یعنی بازار مال کو تو بڑھاتا ہے مگر دین لے کر چلا جاتا ہے۔ “ [2] آج دنیا کی ذلیل دولت کمانے کی خاطر اور دین پر دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو لوٹ رہا ہے ، فانی دنیا کے چندسِکّوں کی خاطر اپنے دین کونقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کچھ بدنصیب تو مَعاذَ اللہ اس حَدتک جا پہنچےکہ انہوں نے فانی دنیا کے لئے اپنے سچےدین کو بھی چھوڑدیا اور جہنّم کی آگ میں ہمیشہ رہنے کو ترجیح دی ، اس کے نظارے ماضی قریب وبعید میں دیکھے اور سُنے جاچکے ہیں۔ حالانکہ جس آخری نبی محمدِعربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں ان کی تعلیمات اورخود ان کی ساری حیاتِ طیّبہ تو دنیا پر دین کی ترجیح کو ثابت کرتی اور ہمیں اس پیارے دین پر مضبوطی سے قائم رہنے کا درس دیتی ہے ، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے : “ یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِک “ اے دلوں کو بدلنے والے میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ [3] نیز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِعبرت بنیاد ہے : لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا بندوں سے اللہ پاک کے غضب کوہمیشہ دور کرتا رہے گا ، یہاں تک کہ لوگ جب اس حالت کو پہنچیں گے کہ ان کی دنیا سلامت ہوگی اور انہیں اپنے دینی نقصان کی کوئی پرواہ نہ ہوگی پھر وہ یہ کلمہ کہیں گے تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا کہ “ تم جھوٹے ہو۔ “ [4] تابعی بزرگ حضر ت سَیِّدُنا حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اے ابنِ آدم! اپنے دین کی خوب حفاظت کر کیونکہ تیرا دین ہی تیرا گوشت اور تیرا خون ہے۔ اگر تیرا دین سلامت رہے گا تو تیرا گوشت اور خون بھی سلامت رہے گا لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا یعنی تیرا دین سلامت نہ رہا تو پھر ہم (جہنّم کی) نہ بجھنے والی آگ ، نہ بھرنے والے زخم اور نہ ختم ہونے والے عذاب سے اللہ پاک کی پنا ہ مانگتے ہیں۔ [5] یقیناًمسلمان کا زندگی کے تمام معاملات میں اپنے دین پر عمل کرنا اور اسے دنیا پر ترجیح دینا مٹی پر سونے کو اور جہنّم پرجنّت ہی کو ترجیح اور اسے ہی اہمیت دینا ہے ، حضرت سَیّدُنا احمد بن حرب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : (گرمیوں میں )لوگ سورج (کی تَپِش سے بچنے کے لئے دھوپ ) پر سائے کو تو ترجیح دیتے ہیں مگر جہنّم پر جنّت کو ترجیح نہیں دیتے۔ [6]
میری تمام عاشقانِ رسول سےفریادہے! دنیانےایک دن فنااورختم ہو ہی جانا ہے ، اپنےمعمولاتِ زندگی میں دین اور شریعت ہی کو اہمیت دینا ہمیں قبر وآخرت میں نجات دلوا سکتا ہے۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہےکہ ہم اپنے دین کو دنیا پر ترجیح دیں ، ہر وہ بات جو آپ بولنا اور ہر وہ کام جو آپ کرنا چاہتے ہیں ، اس میں غورکیجئے کہ آپ کا دین اس حوالے سے آپ کی کیا راہنمائی کرتاہے ؟ آپ کا خالق ومالک ورَزّاق ربِّ کریم اس بارے میں کیاحکم فرماتا ہے؟اس کے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس حوالےسے کیا تعلیمات ہیں؟ وارثینِ انبیا یعنی علمائےاہلِ سنّت اس بارے میں آپ کو دین و شریعت کا کیا مسئلہ بتاتے ہیں۔ اورپھردین وشریعت کی معلومات ملنے کے بعد اللہ پاک مجھے اور آپ سب کو اپنے دین کو ترجیح اور اہمیت دیتے ہوئے اس راہنمائی کے مطابق خود کو چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
[1] عیون الحکایات ، ص164 ملخصاً
[2] حلیۃ الاولیاء ، 2 / 436
[3] ترمذی ، 4 / 55 ، حدیث : 2147
[4] نوادرالاصول ، 2 / 784 ، حديث : 1091
[5] حلیۃ الاولیاء ، 2 / 167
[6] مکاشفۃ القلوب ، ص151۔
Comments