ننھے میاں کی کہانی
لائبریری کی سیر
* حیدر علی مدنی
ننھے میاں نہا دھو کر یونیفارم پہنے کچن میں آئے تو امّی جان نے فرائی پین سے آملیٹ پلیٹ میں ڈال کر ننھے میاں کے سامنے رکھ دیا اور ہاٹ پاٹ سے پراٹھا نکال کر ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا : آج میرا بیٹا پورا پراٹھا ختم کرے گا تو اسے ایک سرپرائز ملے گا۔
واؤ! پہلے یہ بتائیں کہ کیا ملے گا سرپرائز میں؟ ننھے میاں بولے۔
امّی جان مسکراتے ہوئے کہنے لگیں : یہ بتا دیا تو سرپرائز کیسے رہا ، آپ جلدی سے پراٹھا اور آملیٹ ختم کر کے اسکول جائیں ، واپسی پر آپ کا سرپرائز آپ کو خود مل جائے گا۔
اسکول جاتے ہوئے اور پھر وہاں بھی سارا وقت ننھے میاں کا ذہن سرپرائز کے گِرد ہی گھومتا رہا ، کبھی ان کے ذہن میں پچھلے دنوں بازار میں دیکھی سائیکل آتی جو انہوں نے ابو سے لینے کی فرمائش کی تھی ، یہ ہی سوچتے سوچتے ان کا سارا ٹائم گزر گیا ، چھٹی کے بعد گھر پہنچے تو جیسے ہی ہال میں داخل ہوکر اونچی آواز سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم کہنے لگے تو سامنے ماموں جان کو صوفے پر بیٹھا دیکھ کر سب کچھ بھول گئے اور بھاگ کر ان کے گلے لگ گئے ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم ماموں جان ، آپ کب آئے؟
اتنے میں پیچھے سے امّی جان ملک شیک کا جگ پکڑے آگئیں اور مسکراتے ہوئے کہنے لگیں : کیسا لگا میرا سرپرائز؟ یہ لو اب بیٹھ کر ملک شیک پی لو۔
آپ نے مجھے صبح کیوں نہیں بتایا ، میں آج اسکول ہی نہ جاتا۔
اسی ڈر سے تو انہوں نے نہیں بتایا ہوگا ، امّی جان کے بجائے ماموں جان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
چلو جلدی سے کپڑے بدلو اور فریش ہو کر آ جاؤ ، کھانا تیار ہے ، امی نے کہا۔
شام کو سو کر اٹھے تو عصر کی نماز کے بعد ماموں جان کہنے لگے : چلو ننھے میاں آج آپ کو لائبریری دکھاتے ہیں۔
ننھے میاں گاڑی سے اُترے تو سامنے لائبریری کی بڑی اور خوبصورت عمارت تھی ، جب ماموں کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوئے تو حیرانی سے دیکھتے ہی رہ گئے ، ہر طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں ، ماموں جان نے کتاب لینے سے پہلے ننھے میاں کو ہر ایک سیکشن گھمایا ، قراٰن ، حدیث ، قانونِ اسلامی ، سیرتِ نبوی ، تاریخ وغیرہ ہر ہر سیکشن میں سینکڑوں کتابیں تھیں ، ایک بڑے سے ہال میں کرسیاں اور ٹیبل رکھے ہوئے تھے جن پر بڑے لڑکے اور انکلز بیٹھے کتابیں پڑھ رہے تھے اور ایک بڑے سے کمرے کے باہر کڈز سیکشن لکھا ہوا تھا ، اندر بچوں کیلئے مختلف کتابیں اور سیکھنے والے چارٹس دیکھ کر ننھے میاں کا دل کر رہا تھا کہ یہیں بیٹھ جائیں۔
ننھے میاں کو ساری لائبریری دکھا کر ماموں جان لائبریرین کے پاس آ گئے اور اسے فتاویٰ رضویہ کی اکیسویں جلد لانے کا کہا جو اس نے کچھ ہی دیر میں پیش کر دی۔ ماموں جان نے اپنا شناختی کارڈ اسے جمع کروایا اور خود کتاب پکڑ کر لائبریری سے باہر لان میں رکھے بینچ پر آ کر بیٹھ گئے تو ننھے میاں بولے : ماموں جان آپ نے کتاب کے پیسے نہیں دیئے۔
ماموں جان مُسکراتے ہوئے بولے : ننھے میاں لائبریری سے کتابیں پیسوں کی نہیں خریدتے بلکہ یہاں تو کتابیں پڑھنے کے لئے مفت ملتی ہیں جو پڑھ کر واپس کرنا ہوتی ہیں۔
تو لوگ بازار سے وہ کتابیں کیوں نہیں خرید لیتے؟ ننھے میاں نے پوچھا۔
بیٹا ہر کوئی ہر کتاب نہیں خرید سکتا ، کچھ کتابیں مہنگی ہوتی ہیں اس لئے لائبریریاں بنائی جاتی ہیں تاکہ جو کتابیں خریدنا نہ چاہے یا خریدنے کی گنجائش نہ ہو تو وہ کم ازکم مطالعے سے مَحروم تو نہ رہے۔
ننھے میاں بڑی توجہ سے ماموں جان کی باتیں سُن رہے تھے ،
پھر ماموں کہنے لگے : یونہی کچھ لوگوں کےپاس کتاب تو ہوتی ہے لیکن وہ شور شرابے سے دور پُرسکون ماحول میں مطالعہ کرنے کے لئے بھی لائبریری آتے ہیں اسی لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں مختلف جگہوں پر اسٹیکر لگا ہوا تھا کہ “ اونچی آواز سے گفتگو کرنا منع ہے “ ، اور جنہیں میں نے کتاب لانے کا کہا تھا ناں ، انہیں لائبریرین کہا جاتا ہے یعنی کتابوں کی حفاظت کرنے والے۔ چلیں اب چلتے ہیں ، شام ہو رہی ہے ، ہمیں مغرب اپنی کالونی کی مسجد میں جا کر پڑھنی ہے اور ننھے میاں دل ہی دل میں آج کی سیر کی کہانی اپنے دوستوں کو سنانے کا سوچ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ
Comments