ہماری کمزوریاں
خود غرضی (Selfishness)
* مولانا محمد ابورجب آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ نومبر 2021
ایک شخص کی نئی کار سڑک کنارے کھڑے ٹرک سے ٹکرا گئی جس سے اس کی لیفٹ سائیڈ کی ہیڈ لائٹ ٹوٹ گئی ، وہ گاڑیوں کے پرانے اسپیئر پارٹس کی مارکیٹ گیا اور ہیڈ لائٹ تلاش کرنا شروع کی ، دکان دکان گُھومنے کے بعد بھی اسے لیفٹ سائیڈ کی ہیڈ لائٹ نہیں ملی ، تھک ہار کر واپس ہونے سے پہلے اس نے ایک پرانی دکان والے سے پوچھا کہ آخر یہ لیفٹ سائیڈ کی ہیڈ لائٹ کیوں نہیں مل رہی ، اس دکاندار نے اپنا تجزیہ اور تجربہ بیان کیا کہ دراصل اس مارکیٹ میں زیادہ تر سامان وہ بکتا ہے جو ایکسیڈنٹ والی گاڑیوں کا ہوتا ہے اور ہمیں ان گاڑیوں میں زیادہ تر ڈرائیور والی رائٹ سائیڈ کی ہیڈ لائٹ سلامت ملتی ہے جبکہ اُلٹی سائیڈ والی ٹوٹی ہوئی یا تباہ حال ملتی ہے۔ اس شخص نے دکاندار سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ لگتا ایسا ہے کہ جب ڈرائیور کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اب وہ اپنی کار وغیرہ کو ٹکرانے سے نہیں بچاسکتا تو لاشعوری طور پر وہ کار کو سیدھی طرف گھما دیتا ہے جس سے اس کی سائیڈ کا نقصان کم جبکہ دوسری سائیڈ کا نقصان زیادہ ہوتا ہے ، اب چاہے اس کے ساتھ اس کی بیوی بیٹھی ہو یا کوئی اور عزیز! اس کے ذہن کے کسی نہ کسی خانے میں چھپی خود غرضی سیکنڈز میں اپنا کام دکھا دیتی ہے ، اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے مفاد کو ترجیح دینے اور خود کو بچانے کے لئے وہ کر بیٹھتا ہے جس پر اسے زندگی بھر پچھتانا پڑتا ہے۔
اے عاشقانِ رسول! ہماری زندگی میں بھی کئی مراحل ایسے آتے ہیں جب ہم صرف وہ کام کرتے ہیں جس میں ہمارا فائدہ ہو۔ یہ انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔ یہ عادت اس وقت تک مثبت ہے جب تک ہم اپنے فائدے کی بنیاد دوسروں کے نقصان پر نہیں رکھتے۔ امتحان دینے والے اسٹوڈنٹس ، جاب کیلئے انٹرویو دینے والے امیدوار ، ذہنی آزمائش کے پروگرام یا اسی طرح کے اور مقابلوں میں شرکا جیتنے کے لئے تو میدان میں اُترتے ہیں۔ لیکن جب اپنے فائدے کی بنیاد دوسروں کے نقصان پر رکھی جائے تو یہ رویہ خود غرضی کہلاتا ہے ، ایسا شخص پھر یہی سوچتا ہے کہ مجھے کیا ملے گا؟ دوسروں کے مفاد کی اسے کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اسی پلاننگ میں مصروف رہتا ہے کہ کس طرح دوسروں سے اپنا کام نکلوایا جائے۔ یہ لوگوں سے بھی اسی وقت تک تعلقات رکھتاہے جب تک اس کا مطلب نکلتا رہتا ہے ورنہ یہ آنکھیں پھیر لیتا ہے۔
خود غرضی کے نقصان :
ہم میں سے کسی کو بھی اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی اسے خود غرض (selfish) کہہ کر پکارے۔ خود غرضی انسان کو دیگر بُرائیوں کی طرف لے جاتی ہے مثلاً جھوٹی خوشامد کرنا ، فراڈ کرنا ، دوسروں پر ظلم کرنا ، کسی کا حق مارنا ، چوری کرنا ، ڈاکہ مارنا ، اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے کسی کو قتل کرنا یا کروا دینا ، دوسروں کی جان خطرے میں ڈالنا ، جعلی دوائیاں بیچنا ، اپنا کمیشن بنانے کیلئے مریضوں کو غیر ضروری ٹیسٹ لکھ کر دینا ، رشوت لینے کیلئےکسی کے کام میں مختلف رکاوٹیں کھڑی کرنا ، اپنی ترقی کے لئے دوسروں کے خلاف سازشیں کرنا ، تہمت لگانا ، امدادی پیکج وغیرہ کے لئے جھوٹا کلیم کرنا ، پیٹرول پمپ ، بینک ، ویکسی نیشن سینٹرز وغیرہ پر قطار کو بائی پاس کرکے اپنا کام پہلے کروانا ، بلیک مارکیٹنگ کرنا ، الغرض خود غرضی کی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں مل جائیں گی۔ ذرا سوچئے! کہ جب خود غرضی کا رویہ عام ہوجائے تو ہماری سوشل لائف کیسے پُرسکون ہوسکتی ہے! ایسا نہیں کہ دنیا ایثار پسند ، دوسروں کی خیرخواہی کرنے والوں سے خالی ہوگئی ہے لیکن ایسوں کی تعداد بہت تھوڑ ی ہے۔
اے عاشِقانِ رسول! ہمارے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِاَخِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهٖ یعنی تم میں کامل ایمان والا وہ ہے جو اپنے بھائی کےلئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ (بخاری ، 1 / 16 ، حدیث : 13) اسلام کی روشن تعلیمات تو ہمیں ایثار ، خیرخواہی ، ہمدردی اور غم خواری سکھاتی ہیں۔
اپنی جان پر دوسروں کو ترجیح دی :
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تربیت یافتہ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے تو ایسے وقت میں بھی دوسروں کا بھلا سوچا جب انہیں اپنی جان بچانے کے لئے پانی کی ضرورت تھی ، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : یرموک کی جنگ میں بَہُت سے صَحابۂ کرام شہید ہوگئے۔ میں پانی ہاتھ میں لئے زخمیوں میں اپنے چچا زاد بھائی کو تلا ش کر رہاتھا ، آخِر اُسے پالیا ، وہ دَم توڑ رہے تھے ، میں نے پوچھا : اے ابنِ عَم! یعنی اے چچا زاد بھائی آپ پانی نوش فرمائیں گے؟ کپکپاتی ہوئی آواز میں آہِستہ سے کہا : جی ہاں۔ اتنے میں کسی کے کَراہنے کی آواز آئی ، جاں بَلَب چچا زاد بھائی نے اشارے سے فرمایا : پہلے اُس زخمی کو پانی پلا دیجئے۔ میں نے دیکھا وہ حضرتِ ہِشام بن عاص رضی اللہُ عنہ تھے ، اُن کی سانس اُکَھڑ رہی تھی میں انہیں پانی کے لئے پوچھ ہی رہا تھا کہ قریب ہی کسی اور کے کراہنے کی آواز آئی ، حضرتِ ہِشام رضی اللہُ عنہ نے فرمایا : پہلے اُن کو پلائیے ، میں جب اُن زخمی کے قریب پہنچا تو ان کو میرا پانی پینے کی حاجت نہ رہی تھی کیوں کہ وہ شہادت کا جام پی چکے تھے۔ میں فوراً حضرتِ ہِشام رضی اللہُ عنہ کی طرف لپکامگر وہ بھی شہیدہوچکے تھے۔ پھر میں اپنے چچا زاد بھائی کی طرف پہنچا تو وہ بھی شہادت پاچکے تھے۔ رضی اللہُ عنہم اجمعین ۔ (کیمیائے سعادت ، 2 / 648)
چراغ بجھایا گیا لیکن کسی نے ایک لقمہ نہ کھایا :
ہمارے بزرگانِ دین نے اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کی اس حوالے سے کیسی شاندار تربیت کی ، ذرا پڑھئے : حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابوالحسن انطاکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس ایک بار بَہُت سے مہمان تشریف لے آئے۔ رات جب کھانے کا وَقت آیا تو روٹیاں کم تھیں ، چُنانچِہ روٹیوں کے ٹکڑے کرکے دَسترخوان پر ڈالدئیے گئے اور وہاں سے چَراغ اُٹھا دیا گیا ، سب کے سب مہمان اندھیرے ہی میں دَسترخوان پر بیٹھ گئے ، جب کچھ دیر بعد یہ سوچ کر کہ سب کھاچکے ہونگے چَراغ لایاگیا تو تمام ٹکڑے جُوں کے تُوں موجود تھے۔ ایثار کے جذبے کے تحت ایک لقمہ بھی کسی نے نہ کھایا تھاکیونکہ ہر ایک کی یِہی سوچ تھی کہ میں نہ کھاؤں تاکہ ساتھ والے مسلمان بھائی کا پیٹ بھر جائے۔ (اتحاف السادۃ ، 9 / 783)
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین!
سوشل لائف کو بہتر بنانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے منفی رویوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے جس میں سے ایک خودغرضی بھی ہے۔ اس کے لئے ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ میں خودغرضی کی کون سی اسٹیج پر ہوں پھر خود کو بہتر بنانے کے لئے ایثار اور خیرخواہی جیسے اَخلاقی اوصاف اپنانے کے لئے کوشاں ہو۔
اللہ کریم ہمیں حقیقی معنوں میں اچھے اخلاق والا بنا دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* اسلامک اسکالر ، رکنِ مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی
Comments