اختیاراتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اے عاشقانِ رسول! اللہ پاک کی عطا سے سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ جس چیز کو چاہیں ’’فرض و واجب ‘‘یا’’ ناجائز و حرام‘‘ فرمادیں اور کسی عام حکم میں سے جس کو چاہیں مستثنیٰ (الگ ، Exempt) فرمادیں۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصیات (Particularities) میں سے یہ ایک عظیمُ الشّان خصوصیت ہے جسے بڑے بڑے عُلَماء ، فُقَہاء ، مُفسّرین ، مُحدّثین اور مجتہدین نے بیان فرمایا ہے۔ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :  ائمۂ مُحَقِّقِین تصریح فرماتے ہیں کہ احکامِ شریعت حضور سیّد عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کو سپرد ہیں۔  جو بات چاہیں واجب کردیں ، جو چاہیں ناجائز فرمادیں ، جس چیز یا جس شخص کو جس حکم وغیرہ سے چاہیں مُسْتَثْنٰی (یعنی الگ)فرمادیں۔ ([i])

اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس خصوصی اختیار (Special Authority)کی کچھ تفصیل مُلاحَظَہ فرمائیے : 

حلال یا حرام کرنے کا اختیار: قراٰنِ کریم کی کئی آیات اور کثیر احادیث سے ثابت ہے کہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام ، فرض یا واجب فرما دیں۔ بطور دلیل ایک ایک آیت اور حدیث مُلاحظہ فرمائیے : 

اللہ کریم نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی 2صفات  یہ بیان فرمائی ہیں :   وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ ترجمۂ کنزالعرفان :  اور ان کیلئے پاکیزہ چیزیں حلال فرماتے ہیں اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں۔ ([ii])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :  اِنِّی حَرَّمْتُ كُلَّ  مُسْكِرٍ یعنی بے شک نشہ لانے والی ہر چیز میں نے حرام کردی ہے۔ ([iii])

عام حکم میں سے کسی کو خاص کردینا: اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ اختیار عطا فرمایا ہے کہ آپ کسی عام حکم میں سے جس کو چاہیں الگ کردیں۔ احادیث میں موجود کثیر مثالوں میں سے6ملاحظہ فرمائیں : 

(1)نماز کا عام حکم:فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :   اِنَّ اللَّهَ قَدْ اِفْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ      یعنی بے شک اللہ پاک نے اپنے بندوں پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔ ([iv])

تین نمازیں معاف فرمادیں: رب کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک صاحب اس شرط پر اسلام لائے کہ صرف 2 ہی نمازیں پڑھیں گے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن کی اس شرط کو قبول فرمالیا۔ ([v])

(2)گواہی کا عام حکم: اللہ    پاک کا فرمان ہے وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْۚ-   ترجمۂ کنزالعرفان :  اور اپنے مردوں میں  سے دو گواہ بنالو۔ ([vi])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ایک کی گواہی دو کے برابر قرار دے دی:سرکارِدوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ذُوالشَّہادَتَیْن حضرت سیدنا خُزَیمہ بن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ کی اکیلے کی گواہی ہمیشہ کےلئے دو مَردوں کی گواہی کے برابر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :  مَنْ شَهِدَ لَهٗ خُزَ يْمَةُ اَوْ شَهِدَ عَلَيْهِ فَحَسْبُهٗ یعنی خُزیمہ جس کے حق میں یا جس کے خلاف گواہی دیں تو ایک ان ہی کی گواہی کافی ہے۔ ([vii])

 (3) ریشم کا عام حکم: رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے سیدھے ہاتھ میں ریشم اور اُلٹے ہاتھ میں سونا لے کر ارشاد فرمایا :  اِنَّ هٰذَيْنِ حَرَامٌ عَلٰى ذُكُورِ اُمَّتِيْ یعنی بے شک یہ دونوں چیزیں میری اُمّت کے مَردوں پر حرام ہیں۔ ([viii])

 ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت:حضرت سیّدنا زبیر بن عوام اور حضرت سیّدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہماکے بدن میں  خُشک خارش تھی۔ سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی۔ ([ix])

 (4)سونے کا عام حکم: حضرت سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :  نَهَانَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ یعنی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔ ([x])

سونے کی انگوٹھی پہنادی: حضرت سیّدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سونے کی انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔ لوگوں کے اعتراض کرنے پر انہوں نے بیان کیا :  ہم رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر تھے اور آپ مالِ غنیمت تقسیم فرمارہے تھے۔ آخر میں جب صرف یہ انگوٹھی باقی رہ گئی تو نظر مبارک اٹھاکر حاضرین کو مُلاحظہ فرمایا اور نگاہیں جھکالیں ، دوسری بار بھی نظر یں اٹھاکر دیکھا اور نگاہ نیچی کرلی ، تیسری بار پھر نظرِ رحمت ڈالی اورفرمایا :  اے براء! میں قریب حاضر ہوکر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے بیٹھ گیا۔ انگوٹھی لے کر میری کلائی تھامی اور ارشاد فرمایا :   اِلْبَسْ مَا كَسَاكَ اللهُ وَ رَسُوْلُهٗ  یعنی اللہ و رسول تمہیں جو پہناتے ہیں اسے پہن لو۔ ([xi])

(5)عدت کا عام حکم:(شوہر کی)موت کی عِدّت چار مہینے دس دن ہے۔ ([xii])اللہ پاک کا فرمان ہے :   وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ- ترجمۂ کنزُالعِرفان :  اور تم میں سے جو مرجائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اوردس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ ([xiii])   (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تین دن کی عدّت: حضرت اسماء بنتِ عمَیس رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت سیّدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے ارشاد فرمایا :  تَسَلَّبِىْ ثَلَاثَا ثُمَّ اصْنَعِىْ مَا شِئْتِ یعنی تین دن تک بناؤ سنگھار سے الگ رہو ، پھر جو چاہو کرو۔ ([xiv])یہاں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو اس حکمِ عام سے اِسْتِثْناء فرمادیا کہ عورت کو شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ واجب ہے ۔ ([xv])

(6)جنابت کا عام حکم: (جُنبی یعنی)جس کو نہانے کی ضرورت ہو اس کو مسجد میں جانا حرام ہے۔ ([xvi])

 رُخصت: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے :  یَاعَلِیُّ!لَا یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّجْنَبَ فِیْ ھٰذَا الْمَسْجِدِ غَیْرِیْ وَغَیْرَکَ یعنی اے علی! میرے اور تمہارے سواکسی کو حلال نہیں کہ اس مسجد میں جنابت کی حالت میں داخل ہو۔([xvii])

تُو نائبِ خدا ہے محبوبِ کبریا ہے

ہے ملک میں خدا کے جاری نظام تیرا([xviii])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*ماہنامہ  فیضانِ مدینہ ، کراچی



([i])   زرقانی علی المواھب ، 7 / 346 ، فتاویٰ رضویہ ، 30 / 518

([ii])   پ9 ، الاعراف :  157

([iii])   نسائی ، ص886 ، حدیث :  5614

([iv])   بخاری ، 1 / 471 ، حدیث :  1395

([v])   مسند احمد ، 7 / 283 ، حدیث :  20309

([vi])   پ3البقرۃ :  282

([vii])   معجم کبیر ، 4 / 87 ، حدیث :  3730

([viii])   ابوداؤد ، 4 / 71 ، حدیث :  4057

([ix])   بخاری ، 4 / 61 ، حدیث :  5839

([x])   المجالسۃ وجواہر العلم ، 3 / 283 ، حدیث :  3639

([xi])   مسند احمد ، 6 / 427 ، حدیث :  18625

([xii])   بہارِ شریعت ، 2 / 237

([xiii])   پ2 ، البقرۃ :  234

([xiv])   جامع الاحادیث ، 4 / 89 ، حدیث :  10362

([xv])   فتاویٰ رضویہ ، 30 / 529

([xvi])   بہار شریعت ، 1 / 326

([xvii])   ترمذی ، 5 / 408 ، حدیث :  3748

([xviii])   قبالۂ بخشش ، ص23


Share